ورنہ اس دفاع کے حق کا کیا مطلب ؟ فلسطین اور اس کے تحریک مزاحمت حماس کی حیثیت اسرائیلی بھیڑیوں کے سامنے ایک بکری سے زیا دہ نہیں ۔لیکن ہماری اس جدید مہذب اور جمہوریت ، سیکولرزم و سوشلزم کی دلدادہ اس دنیا میں دفاع کا حق صرف زبردستوں کو ہے زیر دستوں کو نہیں ۔پوری دنیا کی موجودہ تاریخ پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حکومتی دہشت گردی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ نہ ہی کسی عالمی تنظیم ہونے کادعویٰ کرنے والے کسی ادارے کا ضمیر بیدار ہوتا ہے ۔ویسے بھی کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ امریکہ کی داشتہ ہے اور امریکہ اسرائیل کا۔بہر حال یہ تو موجودہ دنیا کی سچائی ہے لیکن ہمیں فی الحال امریکی صدر اوبامہ کی افطار پارٹی پر بات کرنی چاہئے ۔وہاں سبھی مسلم ملکوں کے سفراء موجود تھے جنہوں نے اوبامہ کی نصیحت آمیز گفتگو بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ سنی اور کسی نے بھی انہیں بیچ میں ٹوکنے یا اس افطار پارٹی میں سے اٹھ کر احتجاجاًچلے جانے کی گستاخی نہیں کی ۔کریں بھی کیوں ، علامہ اقبال کی زبان میں ’’کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر‘‘ ۔ستاون مسلم ملکوں کے سفیروں نے غزہ کے دو سو سے زیادہ مظلوم شہیدوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کے حمایتی کی دعوت خوب اڑائی ۔ان کی حمیت جو مر چکی ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے تو ہمیں ایک جسم کی مانند فرمایا تھا ۔ لیکن جب جسم کا ایک حصہ زخمی ہواور اس کا اثردوسرے حصوں میں نہیں ہو تو اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ مفلوج ہو چکا ہے یا وہ اس جسم کا حصہ ہی نہیں ہے ۔ایسا ہی وہاں بھی سمجھ لیجئے انکا مسلمان ہونا مشکوک ہے۔مسلم دنیا کے اکثر روساء اور مقتدر ہستیوں کے بارے میں تحقیق کیجئے تو عجیب و غریب حالات آپ کو حیران کردیں گے۔السیسی کو ہی لے لیجئے جس نے اخوان کا اعتماد حاصل کرکے اسلام پسندوں کی عوامی حکومت پر شب خون مارا ۔وہ بھی ایک یہودی ماں کا ہی بیٹا ہے۔باپ کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں کہ کس گلی کوچے میں اس کا باپ ہوا کرتا تھا۔کون تھا کیا کرتا تھا۔کچھ نہیں پتہ۔ اس کا ماموں اسرائیل کی پارلیمنٹ کا ممبر اور وزیر رہ چکا ہے۔اس کی بغاوت پر اسرائیل نے اسے اپنا ہیرو کہا تھا نیز اس کی جیت پر بھی اسرائیل کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا ۔یہی کہانی اکثر ملکوں کے صاحب اقتدار کی ہے ۔ایران و شام تو فلسطین سے زبانی ہمدردی بہت دکھاتے ہیں لیکن ان کی میزائل کا رخ آج تک تل ابیب کی طرف نہیں ہوا۔
عوام میں تو نبی ﷺ کے ارشاد کے اثرات دکھتے ہیں لیکن جس میں نہیں دکھتے وہ مقتدر طبقہ ہے اور جب یہ اثرات نظر نہیں آئیں تو پھر کیوں ان کو مسلم امہ کے ایک جسم کا حصہ تصور کیا جائے۔مذکورہ دعوت میں یقیناً ان ممالک کے بھی سفراء موجود رہے ہوں گے جو فلسطین کے مظلومین کے سب سے بڑے حمایتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔لیکن ان کی بھی آواز نہیں نکلی ۔ایک اچھا موقع مسلم ملکوں نے اپنے زندہ اور باحمیت ہونے کا گنوا دیا ۔شاید یہ بھی آج کی دنیا کے سفارتی آداب کا اک حصہ ہے ۔شاید اس دعوت میں کوئی منتظر الذیدی (ایک عراقی صحافی جس نے جارج بش پر احتجاجاً اپنا جوتا اچھالا تھا)یا وہ پندرہ سالہ جرات مند احمد الصلیبی فلسطینی بچہ نہیں تھا جس نے اسرائیلی جج کے سامنے جرات اور حوصلہ مندی کی ایک نایاب مثال پیش کرتے ہوئے کہا تھا’’ اسرائیل دہشت گرد مافیا ہے ،نہ میں اسرائیلی عدالت کو مانتا ہوں اور نہ اس کے فیصلے کو‘‘اس نے جج کو بھی خوب سنائی اور کہا ’’آپ ایک منظم گینگ ہیں جنہیں فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے تیار کیا گیا ہے‘‘ موجودنہیں تھا ۔ویسے فلسطین سے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں ان کی جرات اور جوانمردی کی ہزاروں داستانیں ملیں گی وہاں نہ منتظر الذیدی کی کمی ہے اور نہ احمد الصلیبی کی ۔وہاں ہر بچہ اور ہر جوان اپنے آپ میں ایک جہد مسلسل کا جیتا جاگتا نمونہ ہے علامہ اقبال کا شاہین کہیں اس دنیا میں موجود ہے تو وہ فلسطین و افغانستان جیسے ہی ملک میں موجود ہے۔لیکن فلسطینیوں کی جرات مندی و مجاہدانہ کردار کا ان بے حس بے غیرت اور بے حمیت مسلم ملکوں کے امراء و سفراء سے کیا تعلق ۔کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور۔بے شک فلسطینیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایٹم بم اور میزئلوں سے بھی زیادہ قوت رکھتے ہیں ۔ان کے حوصلوں کے آگے جب اسرائیل بے بس ہو جاتا ہے تب وہ کسی بہانے سے جنگ بندی کی پیشکش کرتا ہے دنیا کی نام نہاد قوتیں فلسطینیوں پھر مزاکرات کی میز پر وعدوں کی ٹافیاں بانٹتے ہیں۔یہی مزاکرات کی وہ میز ہے جہاں فلسطینیوں سمیت پوری امت مسلمہ کو ہمیشہ شکست ہوئی ہے ۔
ملک عزیز کی پارلیمنٹ نے بھی اسرائیل کے ظلم و بربریت پر مذمتی قرارداد لانے سے انکار کردیا ۔وجہ بتائی گئی کہ اس سے ملک کے غیر ملکی تعلقات پر برا اثر پڑے گا ۔یہ بھی موجودہ تہذیب کی ایک خاصیت ہے کہ یہاں انسانی جانوں کی قدر وقیمت کو پیسوں اور مفادات کے ترازو میں تولتے ہیں ۔ویسے بھی جو پارٹی اب حکمراں ہے اس کی اسرائیل کے ساتھ نظریاتی وابستگی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔اس سے پہلے کانگریس کی حکومت میں بھی اس سے کوئی بہتر نہیں تھا ۔اسی کے دور میں ملک اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بنا تھا۔تو اب موجودہ حکومت کو ہی کچھ زیادہ کہہ کر کیا فائدہ ۔لیکن پارلیمنٹ میں کچھ ہنگامہ تو ہوا کچھ ہلچل تو ہوئی بالکل مردہ ہونے کا ثبوت تو نہیں دیا ۔یعنی انسانیت کچھ کچھ زندہ ہے ابھی ۔یا عوامی رجحانات کے مد نظر یہ ان کی مجبوری ہے ۔بعد میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ دونوں ملک یعنی اسرائیل اور فلسطین دوست ممالک ہیں ۔یہ بھی خوب ہے بھیڑ اور بھیڑیا دونوں سے دوستی بھی اس دور جدید کی انوکھی کہانی ہے ۔اگرچہ دونوں کا لفظ بس یونہی استعمال کیا گیا ہے یا موجودہ حکومت اسرائیل سے دوستی بھی رکھنا چاہتی ہے اور مسلم ملکوں کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی ۔ویسے مسلم ملکوں کی حکومتیں جب اسرائیل سے ناراض نہیں ہو سکتیں تو وہ ہندوستانی حکومت سے ناراض کیوں ہونے لگیں ؟یہ تو صرف مسلم عوام کو بہلانے کی ایک ناکام کوشش بھر ہے ۔
یو پی اے ۲ میں منموہن کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا بھی اسرائیل کے دورے پر گئے تھے اور انہوں نے وہاں اسرائیل سے یہ بیان دیا تھا کہ ہندوستان اور اسرائیل دونوں قدرتی حلیف ہیں اور ایک ہی طرح کی دہشت گردی کے شکار ہیں ۔واضح ہو کہ کرشنا ایک برہمن ہیں اور برہمن اور یہود کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ دونوں عصبیت کے شکار ہیں دونوں ہی اپنے آپ کو دنیا کی سب سے متبرک اور بزعم خود اللہ کے محبوب کہتے ہیں ۔باقی دنیا کے لوگ ان کے سامنے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔اسی لئے اسرائیل جب چاہتا ہے فلسطینیوں کو بموں اور میزائلوں کی نشانے پر لے لیتا ہے۔ ایک بات اور جو قابل غور ہے لیکن اسے ہمیشہ نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ دنیا میں سبھی طرح کی دہشت گردانہ کارروائی صرف حکومت کی طرف سے ہوتی ہے لیکن اسے کوئی نہیں ٹوکتا کوئی اسے نہیں کہتا کہ عوام کے خلاف یہ ظلم و زیادتی بند کرو ۔لیکن جب حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر عوام کا کچھ طبقہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے اور حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف مزاحمت شروع کرتا ہے تو سب یک زبان ہو کر اسے دہشت گرد کہتے ہیں ۔اگر ہم مسلم ملکوں کو ہی لیں تو مصطفے ٰ کمال پاشا سے لے کر نجیب اللہ تک اور جمال عبد الناصر سے حافظ الاسد نوری المالکی اور بشارالاسد تک سبھی نے عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب ان کے خلاف عوام نے جد وجہد کی تو انکی کارروائی کو دہشت گرد ی اور انہیں دہشت گرد کہا جانے لگا ۔ ہر جگہ گاندھی جی کے تین بندروں کا کمال دیکھنے کو ملا ۔ریاستی دہشت گردی کے دور میں ایک نے آنکھیں بند کرلیں اور ظلم کے خلاف گواہی دینے سے اپنے آپ کو بچا لیا ۔دوسرے نے کان بند کرلئے کہ مظلوموں کی آہیں اس کی کانوں تک نہ پہنچ پائیں ۔تیسرے نے اپنے منھ بند کرلئے کہ ظالموں کے خلاف ایک لفظ نہ بولنا پڑے ۔لیکن عوامی مزاحمت میں ان کا کام اس کے بالکل برعکس ہو جاتا ہے ۔جدید ہندوستان اور جدید دنیا میں گاندھی جی کے تینوں بندروں کا کام اب یہی ہے ۔جو تصور ہمیں دیا گیا تھا کہ برائی کو دیکھنا نہیں برا سننا نہیں اور برا کہنا نہیں ۔وہ باتیں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں ۔
جواب دیں