مدثر سبحانی
15مارچ تاریخ کا وہ بھیانک ترین دن ہے جو مجھ سمیت عالم اسلام کو کبھی نہیں بھول سکتا، جب نیوزی لینڈ کی 2مساجد میں سفید فام مسلح اہل کاروں نے نہایت سنگ دلی سے سفاکیت دکھاتے ہوئے بے دردی کے ساتھ نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے مسلمانوں پر دکھوں کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اس سانحے کی ویڈیوز اور دردناک تصاویر دیکھ کر دل سے ان ظالموں کے لیے بددعائیں نکل رہی ہیں۔ ہر آنکھ اشکبار اور فضا سوگوار ہے کیوں نہ آنسوؤں کے نوحے جاری ہوں۔ ان درندوں نے 50کے قریب مسلمانوں کو قتل نہیں بلکہ پوری انسانیت کا قتل کردیا ہے۔ ایک پل کو صرف یہ سوچیں کہ سانحہ میں شہید ہونے والوں کے گھر والوں نے جب اپنے پیاروں کو خون میں لت پت دیکھا ہوگا یا ان کے قتل کی ویڈیو دیکھی ہوں گی تو ان کے دل پر کیا گزری ہو گی، اصل میں تو شایدوہ بھی مر ہی گئے ہیں۔ وہ جب بھی اس واقعہ کے بارے سوچیں گے تو ایک وحشت بھرا دردناک تصور انسانی ذہن میں قائم ہوکر ذہن ودماغ کے تاروپود کوبکھیر کر رکھ دے گا۔
مغرب میں اسلاموفوبیا نئی بات نہیں۔ یہ ہیجان اور جنون بہت پرانا ہے۔ اے بی سی نیوز کی 23 فروری 2011 کی رپورٹ کے مطابق 48 فیصد آسٹریلوی باشندے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں یہ شرح 51 فیصد ہے۔
مغرب میں مسلمانوں کے خلاف بہت سے حملے ہوئے ہیں، مگر اس نوعیت کی خوفناک دہشت گردی پہلے شائد نہیں ہوئی۔ انتہاپسند مذہبی جنونی کا پوری پلاننگ سے کیا گیا حملہ ہے جس کے پس منظر میں مکروہ سوچ اور اس کے ساتھ پورا گروہ ملوث ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قوم ثابت کرنے کا اصل مقصد کیا ہے۔ مسلمان جو اسلام کا کلمہ پڑھنے والے ہیں، وہ فرزندانِ توحید اور شمع محمدی کے پروانے ہیں۔ وہ ایک اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور اسی پر یقین رکھتے ہیں اسلام نے زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا ہے، جب وہ اس پاکیزہ طریقہ پر اپنی زندگی گزارتے ہیں تو دیکھنے والے بھی مغرب کی فرسودہ زندگی چھوڑ کر اسلام کو اپنی زندگی بنا لیتے ہیں جس سے مغرب کو ان بے دینی اور بے حیائی کی دکانیں بند ہونے کا خدشہ ہے۔ صہیونی طاقتیں اور اسلام دشمن عناصر اسلام کی بڑھتی مقبولیت سے اپنے وجود کو خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے دہشت گردی کوہربار اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چسپاں کیا ہے۔
آج امت مسلمہ چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ آتش وآہن کی بارش مسلم پر ہی برسائی جارہی ہے، کشت و خون کا یہ سارا کھیل اور ظلم و بربریت کا یہ ننگا ناچ مسلمان قوم کے ساتھ ہی کیوں خاص ہے؟ دہشت گردی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں یا جنھیں کسی مقصد کے تحت برپا کیاجارہا ہے ان کی تہہ تک منصفانہ طور پر پہنچنے کے بجائے بے قصور مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کے سرکیوں تھوپ دیا جاتا ہے؟ مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم کیوں کیاجاتا ہے؟آپ ہمیں چھوڑیں اب تو آپ کے بڑے بڑے اور معتبر اخبار اس سانحے کو دہشت گردی کہہ رہے ہیں، اب بتائیں کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟میں آپ کو بتاتا ہوں کہ دہشت گردی کیا ہے؟ کسے کہتے ہیں ؟ اور کیوں ہوتی ہے؟دہشت گردی کسی خاص ملک، علاقے، تہذیب اور مذہب کے ساتھ منسلک نہیں، یہ ایک رویے کا نام ہے اور کوئی بھی کہیں بھی اس رویے کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہی بات پاکستان ایک عرصے سے دنیا کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
دہشت گردی کا یہ ناسور دنیا کو آہستہ آہستہ اپنی زد میں لے کر تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے۔ دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے نتھی کرنے والوں کو اپنے گھر کی خبر لینی چاہیے۔
مسلمانوں کی نظریں اب انصاف کے ٹھیکیداروں کی طرف ہیں کہ کیا وہ انصاف دے سکیں گے یا اس درندہ صفت وحشی جانور کو پاگل قرار دے کر اس سانحہ کو دبا دیں گے۔
فرقوں میں الجھی امت مسلمہ کیلئے یہ مقام عبرت ہے کہ آپکا دشمن ہزار سال بعد بھی کچھ نہیں بھولا۔ نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ آور کی بندوق پر درج عبارات ماضی کے ان واقعات سے وابستہ ہیں جن میں خلافت عثمانیہ اور دیگر طاقتوں کے درمیان جنگیں ہوئی۔
تمام مسلمان ایک منٹ کے لیے یہ سوچیں کہ جب وہ درندہ نیوزی لینڈ کی مساجد میں داخل ہوا تو اس نے کیا وہاں کسی سے پوچھا تھا کہ تم کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہو۔ یقینااس نے کسی سے کوئی سوال نہیں کیا کیوں کہ اس کی نظر میں مختلف زبانیں بولنے والے مختلف رنگ وروپ اور قد کاٹھ والے انسان اس لیے قابل نفرت تھے کہ وہ اللہ کے گھر میں ہیں اور وہ صرف مسلمان ہیں اسی لیے اس نے تمام کو شہید کیا۔ اگر اب بھی ہم اپنے مسائل، نظریات و عقائدکی بحث سے باہر نہیں نکل کر آئے تو ایسے سانحات ہر روز ہوں گے اور ہم پھر خون کے آنسو روئیں گے۔ ذرا دشمنوں کی طرف دیکھیں ان میں کسی پر بھی کوئی بات آئے تو وہ سارے اکٹھے نظر آتے ہیں یہ دیکھئے جب فرانس میں 17لوگ مارے گئے تھے تو 40ممالک کے سربراہان اور زعماء نے پیرس میں جمع ہوکر جلوس نکالا، احتجاج کیا مرنے والوں سے اظہار یکجہتی کی، واقعے کو سنگین دہشت گردی کہا اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیا۔ اب انسانیت انسانیت کا شور کرنے والے اور اسلام پر دہشت گردی کی آواز کسنے والوں کو یہ لاشے کیوں نظر نہیں آرہے۔ اب ان کی زبان کیوں خاموش ہیں۔ کیا مسلمانوں کاخون اتنا سستا ہے؟کیا مسلمان ہونا جرم تھا؟
اب دیکھیں 50کے قریب مسلمان اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹھے ہیں تو ان میں سے کسی نے بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کی بات نہیں کی۔ سچ تو یہ ہے کہ مغرب کا معیار دوہرا ہے۔ اس لیے میری اپنے تمام مسلمانوں بھائیوں سے التجا ہے کہ خدارا اب سب بحثوں کو چھوڑ کر ایک ہوجاؤاسی میں ہم سب کی بقا ہے اوراگر تمام مسلم ممالک متحد ہوجائیں تو شاید یہ سلسلہ رک جائے۔ آخر میں زیر لب یہی دعا ہے کہ خداوند تعالیٰ دشمنان اسلام کو ہدایت عطا فرمائے اوراللہ کریم شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور وارثین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
19؍ مارچ 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل
جواب دیں