اسلامی اقامت گاہوں کی ضرورت

  مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

 

ہندوستان میں نئی نسل کی بے راہ روی، دین سے دوری، لایعنی کاموں میں مشغولیت، فرائض وواجبات میں کوتاہی، حقوق کی ادائیگی سے پہلوتہی عام سی بات ہے، اس کے اسباب ووجوہات بہت سارے ہیں، ان میں سے ایک بڑا سبب اسکول وکالج میں اخلاق واقدار سے بے پرواہی، تعلیم کے ساتھ تربیت کا فقدان اور نصاب تعلیم میں خدا بیزار مواد وموضوعات کی شمولیت ہے، ان اداروں سے پڑھ کر جو طلبہ نکل رہے ہیں، وہ عموماً ذہنی طور پر مذہب بیزار اور دین سے دور ہوجاتے ہیں۔

صورت حال کی اس سنگینی کے حوالہ سے مجھے یہ کہنا ہے کہ اسکول وکالج میں پڑھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دیہاتوں سے آکر حصول علم کے لئے شہروں میں فروکش ہوتی ہے، یہاں انہیں اسکولی تعلیم کے ساتھ کوچنگ کی بھی سہولت ہوتی ہے، ظاہر ہے وہ ہر دن گھر سے آجا نہیں سکتے، اس لئے کسی ہوسٹل میں قیام پذیر ہوتے ہیں، کسی لاج کو اپنا مسکن بناتے ہیں، جہاں کا ماحول اور بھی خراب ہوتا ہے، یہاں عموماً مالک مکان کو کرایہ سے مطلب ہوتا ہے، بچے کدھر جارہے ہیں؟ خارج وقت میں کیا کررہے ہیں؟ کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں؟ اس کی نگرانی نہیں کی جاتی اور اگر کوئی نگرانی کرتا ہے تو ایسے ہوسٹل کو طلبہ پسند نہیں کرتے اور اسے اپنی آزادی پر پہرہ قرار دیتے ہیں، ظاہر ہے ہمارے لیے ناممکن سا ہے کہ اسکول وکالج کے ماحول میں کوئی بڑی تبدیلی لائیں، اس طرح جو ہوسٹلس قائم ہیں، ان کے اندر کہہ سن کر جزوی تبدیلی تو کی جاسکتی ہے؛ لیکن بالکل یہ اسے اسلامی اخلاق واقدار سے ہم آہنگ کرنا کوہ کنی سے زیادہ مشکل کام ہے، ایسے میں ایک شکل تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور نسلوں کو تباہ ہوتا دیکھتے رہیں، دوسری شکل یہ ہے کہ ہم اس کے لیے اپنی حد تک جد وجہد کریں، تاکہ نئی نسل کو گمراہ ہونے سے بچایا جاسکے۔بیسویں صدی کے نصف اول میں اسکول وکالج کا ایسا حال نہیں تھا، طلبہ کی تربیت گھر سے باہر تک کی جاتی تھی، اساتذہ کے ادب واحترام کا ماحول تھا، ایسے میں لڑکے لڑکیاں کم گمراہ ہوتے تھے اور بہر کیف ان اخلاق واقدار کو چھوڑنا معیوب سمجھا جاتا تھا، آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ تربیت کی کمی کے ساتھ اخلاق رذیلہ پیدا کرنے کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس بھی بے راہ روی کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں اور لڑکے لڑکیوں پر اس حوالہ سے کوئی قدغن نہیں ہے، اختلاط مرد وزن عام ہے، اور اس کے مضر اثرات سے کوئی گائوں، محلہ اور علاقہ محفوظ نہیں ہے، مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے ساتھ چلے جانا، کورٹ میریج کر لینا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، یہ معاملہ صرف شادی کا نہیں، ارتداد کا ہے، جس کا سامنا ہر جگہ مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔

حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کو اس کا احساس کوئی ستر سال پہلے ہوگیا تھا، ان کی دور درس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور کس تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، مولانا گیلانی کی تحریر وتقریر کا مرکز اصلاً انسان سازی ہی تھا، وہ بے راہ رواور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا جذبہ رکھتے تھے، نام نہاد روشن خیال لوگوں کو عمل کی حد تک نہ سہی کم از کم ایمان ویقین کی حد تک انہیں مسلمان رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس سلسلہ میں ان کے پاس ایک اسکیم تھی جو جدید نسل کی بے راہ روی کے لیے تریاق کا درجہ رکھتی ہے، جس کا ذکر مکاتیب گیلانی: مرتبہ حضرت امیر شریعت رابع ؒکے مقدمہ میں مولانا عبد الباری ندویؒ نے تفصیل سے کیا ہے، اس کے مطابق طلبہ وطالبات کو دین وایمان پر قائم رکھنے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہر جگہ اور ہر علاقہ میں اسلامی نہج کے اسکول کھولے جائیں، جہاں دینی تعلیم اور اسلامی ماحول میں مسلم طلبہ وطالبات کو تعلیم دی جائے، اس کے لیے سرمایہ کثیر چاہیے، جس کے خرچ کے مسلمان متحمل نہیں ہیں اور جو لوگ متمول ہیں ان کو اس کا خیال ہی نہیں ہے، وہ سرکاری اسکول وکالجز میں پڑھنے پڑھانے کو کافی سمجھتے ہیں، پھر جو مسلمانوں ہی کے قائم کردہ ادارے ہیں، ان میں بھی کتنے ہیںجو اسلامی تہذیب وثقافت اور معتقدات کی حفاظت کو ضروری سمجھتے ہیں، ضرورت کے مطابق اسکول وکالجز کھولنے کے لیے نہ تو ہمارے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی تیار ہے، اس لیے اس کا قابل عمل حل مولانا گیلانی نے اسلامی اقامت خانے (ہوسٹل) کے طور پر ڈھونڈ نکالا تھا، ان کا خیال تھا کہ اسے سستا ہونا چاہیے اور تجارتی نقطۂ نظر کے بجائے اس میں اصلاحی فکر کے ساتھ لگنا چاہیے، وہ دیکھ رہے تھے کہ عصری تعلیم کا شیوع اس تیزی سے ہورہا ہے کہ امراء کے بچوں کے ساتھ غرباء کے بچے بھی اس ریس میں شامل ہوں گے ، اعلی تعلیم کے لیے شہروں میں وہ بود وباش کریں گے اور غیر اسلامی تہذیب وثقافت اور کلچر کا سیلاب انہیں خس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا، ایسے وقت میں یہ اسلامی اقامت خانے ان کو دین وایمان پر قائم اور ثابت قدم رکھنے میں مفید ہوںگے۔

مولانا گیلانی نے ان اقامت گاہوں کا ایک خاکہ بھی بنایا تھا، جس کے مطابق بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اقامت گاہوں کا ماحول دینی رکھنا ضروری تھا، نگراں اور وارڈن تو متشرع ہوں ہی ان کی نشست وبرخواست بھی کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ کرائی جاتی رہے، جن کو دیکھ کر طلبہ کے اندر دینی شوق اور جذبہ پیدا ہو، روزہ اور نماز با جماعت کی پابندی تو ضرور کرائی جائے، البتہ زیادہ زور معاملات اور اخلاق کی درستگی پر دیا جائے، کتابی تعلیم کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے، بعد نماز فجر آدھے گھنٹے قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر، منتخب احادیث جو ایمان ویقین کے ساتھ اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ پر ابھار سکتے ہوں، روزمرہ کے ضروری دینی مسائل کی واقفیت کے لئے فقہ کی کوئی ہلکی پھلکی کتاب، ان سب کے لیے ایک گھنٹے سے زیادہ نہ لگایا جائے تاکہ طلبہ کو بار خاطر نہ ہو، تھوڑا تھوڑا کر کے سیرت کا مطالعہ اور بس۔ 

مولانا گیلانی کے یار غار مولانا عبد الباری ندوی نے مولانا کے اس خاکے کی جزئیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، انہوں نے اقامت گاہوں میں دار المطالعہ کے قیام اور ان میں رسائل وجرائد اور جدید ذہنوں کے لیے مناسب کتابوں کی فراہمی پر زور دیا ہے، انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ایسے اقامت گاہوں میں ابتدا میں ایسے طلبہ رکھے جائیں جو دین وایمان کے اعتبار سے زیادہ لا پرواہ نہ ہوں، تاکہ دوسرے طلبہ انتہائی سرکش لڑکوں کے اخلاق وعادات سے محفوظ رہ سکیں۔ ابتدا میں اقامت گاہ میں عارضی داخلہ دیا جائے اور اگر ان کے عادات واطوار ایسے نظرآئیں جن پر محنت کرنے سے صحیح رخ پاجانے کا امکان ہو تو اس کو مستقل کردیا جائے۔مولانا عبد الباری ندویؒ گیلانی اقامت خانوں کے قیام کو اس ارتدادی فتنہ کے نئے طوفان کے مقابلہ کے لیے ضروری سمجھتے تھے، ان کے خیال میں جس طرح گائوں گائوں میں سیکولر نظام تعلیم کے مقابلے اسلامی مکتب کھولنے کی مہم چل رہی ہے، گیلانی اقامت خانے قائم کرنے کی بھی مہم چلنی چاہیے۔حضرت گیلانی کے معتقدین اور ان کی فکر رسا کے مادحین اور ان کے شاگرد کسی کو بھی اس تجویز کو عملی شکل دینے میں دلچسپی نہیں ہوئی، حالانکہ اس تجویز کی اہمیت وافادیت کے قائل مولانا عبد الماجد دریابادیؒ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانی، حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور ڈاکٹر مولانا سید عبد العلی رحمہم اللہ سبھی تھے۔

مولانا عبد الباری ندویؒ عثمانیہ یونیورسیٹی سے سبکدوشی کے بعد اس تجویز کو عملی رنگ وروپ دینا چاہتے تھے، انہوں نے ہارڈنگ روڈ لکھنؤ میں خود اپنے وسیع وعریض اور لق ودق مکان ’’شبستان قدم رسول‘‘ کو اس کام کے لیے دینے کا ارادہ کر لیا تھا، ایک صاحب عزیمت جواں سال نگرانی کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے، لیکن پھر وہ اس پتہ ماری کے کام کے لیے خود کو تیار نہ رکھ سکے اور اقامت گاہوں کا قیام موزوں نگراں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دھرا کا دھرا رہ گیا، حالانکہ اس کام کے لیے کسی بڑے عالم وفاضل کی ضرورت بھی نہیں، صرف جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہنی رجحانات وکوائف سے مانوس اور خود دینی احکام وہدایات پر عمل پیرا ہونا ضروری تھا، اس کام کے لیے عصری تعلیم یافتہ کو بھی رکھا جاسکتا تھا، لیکن اسلامی اقامت خانوں کی گیلانی تجویز کو سب سے زیادہ کارگر، آسان اور عملی تسلیم کرنے کے باوجود اس معاملہ میں ہنوز روز اول ہے، وجہ صرف ایک سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مادی منفعت سے دو ریہ کام خالص پتہ ماری اور عملی ہے، اور ہم لوگ جو حصول شہرت کے لیے اپنی بہت ساری توانائی لگادیتے ہیں، اس بے نام کے کام کی عملی صلاحیت سے کوسوں دور ہیں۔

 حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ؒلکھتے ہیں:’’حالات وہی ہیں جو انگریزوں کے دور حکومت میں تھے؛ بلکہ بعض اعتبار سے حالات پہلے سے زیادہ سنگین ہیں اور مسلمان نوجوانوں کو مختلف راستوں سے گمراہ کرنے کی تدبیریں جاری ہیں؛ بالخصوص مذہب بیزاری یا خدا بیزاری پر بڑی طاقتیں جو کچھ کررہی ہیںوہ کسی با خبر سے مخفی نہیں ہے، الحاد کا ایک طوفان ہے، جو مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک انسانی ذہنوں کو متاثر کرنے میں کام کررہا ہے۔‘‘ (حیات گیلانی:۱۹۶)

اس تناظر میں دیکھیں تو اسلامی اقامت گاہوں کے قیام کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

بنت حوا کی خودکشی کا ابن آدم ذمہ دار!! …. عائشہ ،جہیز، شریعت، ہم اور ہمارا معاشرہ

یہ دنیا ہزاروں رنگ بدلتی ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے