اسلامی عروج وزوال ۔ تاریخ کے آئینہ میں

AD 700-750 ۔امیہ دور میں معاشی ترقی کے ساتھ فتوحات کا سلسلہ سندھ سے اسپین تک۔ امیہ دور کا خاتمہ۔
750-800AD ۔عباسی خلافت کا زرین دور شروع۔ علمی ترقیات کی مضبوط بنیادیں پڑیں۔ کاغذ بنانے کی فیکٹریاں قائم ہوئیں۔ 
800-850AD ۔سائنسی ترقی کا زبردست دورپوری اسلامی دنیا میں۔غرناطہ ، قرطبہ، بغداد، دمشق، اشبیلیہ وغیرہ میں علمی اور تحقیقی مرکزوں کا قیام۔ دنیا میں پہلی مرتبہ حکومت کا کام کاغذ پر لکھا جانے لگا۔
850-900AD ۔ فلکیات کے ماہرین نے زمین کی گولائی معلوم کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔یونان ہندوستان اور چین کی معروف علمی تصانیف کے عربی تراجم مکمل کئے گئے۔فلکیات۔ ریاضیات اور طب پر تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔صنعتی انقلاب کی داغ بیل پڑی۔
900-950AD ۔پہلی مستند تاریخ عالم تحریر کی گئی۔پوسٹ آفس کا نظام عمل میں آیا۔ عوام کے علاج ومعالجہ کے لئے بڑے بڑے اسپتال بنائے جانے لگے۔صنعتی ترقی، معاشی خوشحا لی اور علمی ذوق ساری اسلامی دنیا میں عروج پر۔علم کے حصول کے لیے یورپ کے خواص اسلامی درسگاہوں میں آنے لگے۔
950-1000AD ۔بصریات پر زبردست تحقیقات شائع کیگئیں۔ جغرافیہ کو سائنسی درجہ دیا گیا۔ طبعیات کا علم اپنے عروج کو پہنچا۔ جامعہ ازہر کاقیام عمل میں آیا۔ بغداد اور قرطبہ جیسے شہروں میں خواندگی سو فیصد
1000-1050AD۔کیمیاپر تحقیقات کا سلسلہ عام ہوگیا۔ تیزاب بنانے کے طریقے معلوم کیے گیے۔نئے نظریات۔ایجادات و انکشافات نے اسلامی معاشرہ کو زبردست بلندی عطاء کی۔
1050-1100AD۔مسلم مملکتوں کے خلاف صلیبی جنگ شروع(1095) ۔نظام حکومت اور فلسفہ ومذہب پر تصنیفات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ایگریکلچر پر اہم کتابیں شائع ہوئیں۔ انجینئرنگ کے نئے شعبے قائم کئے گئے۔ جراحی (سرجری) کو عزت کا مقام ملا۔
1100-1150 ۔دنیا کا نقشہ بنایا گیا۔ نفسیات پر تحقیقات شائع کی گئیں ۔صلیبی مہمات کو ناکام کیا گیا۔جنگی سازوسامان غیر اسلامی ممالک کو بر آمد کیا جانے لگا۔
1150-1200 ۔ساری اسلامی دنیا میں کپڑا اور لوہا بنانے کی فیکٹریاں قائم ہوئیں۔اسلامی اسپین کی آمدنی باقی پورے یورپ سے زیادہ
1200-1250 ۔سائنس کی پہلی انسائیکلوپیڈیا تحریر کی گئی۔جانوروں پر بہترین کتابیں شائع ہوئیں۔ ملٹی کلچرازم پر اہم خیالات ظاہر کئے گئے۔
1250-1300 ۔عباسی خلافت کمزور ہوکر ہلاکو کے ہاتھوں ختم ہوگئی۔ اسپین میں مسلمان مملکتیں کمزور پڑنے لگیں اور شمالی اسپین سے مسلمانوں کا اخراج ہونے لگا۔
1300-1400 ۔دینی رہنماوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کرنے کی کامیاب مہم شروع کردی اور تقلیدی نظریات کو عام کیا۔
1400-1500 ۔قسطنطنیہ پر مسلمانوں کی فتح اور عثمانی خلافت کا پھیلاؤ۔علمی اعتبار سے مسلمانوں کا عروج ختم ہوا۔فوجی طاقت ہنوز باقی رہی۔اس فوجی برتری نے کچھ ہی عرصہ تک اسلامی غلبہ کو قائم رکھا۔
1500-1600AD ۔مغلیہ سلطنت کا قیام ہندوستان میں ۔اسلامی دنیا میں رسومات و توہمات نے زور پکڑا
1600-1700AD۔ عثمانی فوجوں نے ویانا کو گھیرے میں لے لیا۔مسلمانوں کا عبرت انگیز زوا ل شروع ہوا۔
1700-1800AD ۔یورپ میں پادریت کا خاتمہ ۔چرچ کی بالادستی ختم۔مذہبی کٹرپن سے چھٹکارہ۔ ۔علمی ذوق شروع۔سائنسی تحقیقات کا سلسلہ جاری۔عربی زبان میں لکھی گئی علمی تصنیفات کی قدردانی عام ۔ صنعتی انقلاب کی بنیاد پڑی۔ یورپ کی حکومتوں نے طاقت حاصل کی اور کمزور اسلامی مملکتوں کو Colonize کرنا شروع کردیا۔ ادھر اسلامی دنیامیں مسلکی اختلافات ابھرنے لگے وہابیت نے شدت اختیار کی۔۔ خانقاہیت نے زور پکڑا۔شاہ ولی اللہ نے فرسودہ ر سم و رواج کی مخالفت کی اور مسلمانوں کی فکری انحطاط کیلئے علماء کو ذمہ دار بتایا۔
1800-1900AD ۔ہندوستان میں آزادی کی مہم کو کچل دیاگیا۔ سرسید نے مسلمانوں کو نئی تعلیم سے روشناس کرانے کی کوشش شروع کی اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔اس تحریک کے خلاف بڑا واویلا مچا۔کفروالحاد کے فتاوے صادر کئے گئے۔
1900-1950AD ۔جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ نے اجتہاد کے رائج کرنے کی مہم شروع کی۔ عثمانی حکومت کاخاتمہ ہوا۔ ابن سعود نے سعودی عرب کی حکومت قائم کی اور مختلف قبیلوں کی مخاصمت ختم ہوئی ۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ مسلمانوں کو نئے زمانہ سے ہم آہنگ ہونے کی اپیل کی۔ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ زوا ل پزیر مسلم دنیا میں خواندگی دس فیصد سے بھی کم۔ عصری علوم سے امت میں بیزاری۔ لڑکیوں کی تعلیم کی شدت سے مخالفت۔قدیم کتابوں کو رٹ لینا اور ان پر شرحیں لکھنا عین علمی مشاغل میں شامل۔سائینسی علوم کو مذہب دشمن قرار دیا جانے لگا۔بقول مولانا ابولحسن علی ندوی مسلامانوں میں عبقری صلاحیت کے لوگ مفقود ہو گیے۔ایمان اور علم کی دوری نے اسلامی تمدن کو مصا ئب میں مبتلا کر دیا۔
1950-2013AD ۔مسلم حکومتیں آزاد ہوئیں لیکن آزاد مملکتوں نے سائنسی ترقی کی جانب توجہ مرکوز نہ کی اور علمی وفوجی مقاصد کے لئے مغرب سے رجوع کرنے لگے۔ 
IOCکا قیام عمل میں آیا۔ بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوکر آزاد مملکت بنا۔روس سے الگ ہوکر چھ مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے نام سے حکومت میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ساری دنیاکے مسلمان تیل کی دولت کے باوجود معاشی اعتبار سے کمزور ہوگئے اور ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق علمی، معاشی اور فوجی اعتبار سے پست ترین مقام پر پہنچ گئے۔امت مسلمہ شدید غریبی سے دو چار۔پوری اسلامی دنیا (130کروڑ) کی قومی آمدنی(GDP) فرانس(6کروڑ( سے بھی کم۔مسلکی اختلافات بام عروج پر۔مسلم دنیا میں مغربی طاقتوں کی سازشیں کامیاب اور شورشیں عام۔ خود کش حملوں کے ذریعہ مسلمانوں میں آپسی قتال۔ مذہبی جلسے جلوس عام۔کٹھ ملاوں کا زور ۔علمی سرگرمیاں براے نام۔ 
2010-2050AD ۔ اسلامی معاشرہ کا مستقبل 
دو امکانات 
یا تو۔۔۔۔۔۔موجودہ روش برقرار رہیگی۔ ایک کے بعد ایک ہنگامے ہوتے رہیں گے اور معاشرہ پوری طور سے بکھر جائے گا۔ آبادی بڑھتی جایگی اور معاشی ترقی رک جائیگی۔مذہبی اور مسلکی کٹر پن کو بڑھاوا ملیگا۔ماضی کی کامرانیوں کے چرچے ہونگے۔بقول علامہ اقبال مسلمان الیہات اور کتاب ا للہ کی تعویلات میں الجھا رہیگا۔ جہالت کا بول بالا ہوگا۔مسلکی اختلافات کی بنیاد پر ظلم و زیادتی اور قتل و غارت گری کے بازار گرم ہونگے۔روشن خیا لی اور عقلیت پسندی کا مزاق اڑایا جایگا۔عورتوں کے حقوق کی پامالی جاری رہیگی۔انتہا پسندی مسلمان حکمرانوں کے لئے مسئلہ بن جائیگی جن سے نمٹنے کے لئے مغربی حکومتوں کی مدد لی جائیگی ۔طاقتور مغربی قوموں کے ہاتوں استحصال اسلامی دنیا کا مقدر بن جایگا۔مولانا آزاد کی یہ تنبیہ بیکار ثابت ہوگی ۔۔ ’’غفلت اور شرساری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکی ہیں اب خدا کے لئے بستر مدہوشی سے سر اٹھاکر دیکھئے کہ آفتاب کہاں تک پہنچ چکا ہے آپ کے ہم سفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں اور آپ کہاں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔( غبارِ خاطر)۔ مولانا ابولحسن علی ندوی نے اسی بات کو اسطرح فرمایا تھا ۔۔’’مسلمانوں نے وقت کی قدرنہ کی اور صدیاں ضائع کردیں (مباحث میں) برخلاف اس کے یورپی قوموں نے وقت کی قدر کی اورصدیوں کی مسافت برسوں میں طے کی‘‘ 
یا پھر۔۔۔۔۔۔ سر سید، اقبال، جمال الدین افغانی ، محمدعبدہ اور شاہ ولی اللہ کے پیغام اجتہاد پر عمل کرتے ہوئے ماڈرن اسلامی معاشرہ ظہور میں آئے گا۔نئے زمانہ کے تقاضوں کو ملحوض رکہتے ہوے قرآن و حدیث کی روشنی میں شریعت اسلامی کو تازگی ملیگی۔ علم کی قدر ہوگی، سائنس اور ٹکنا لوجی کو مرکزی اہمیت دی جائے گی اور اس طرح ماضی کی شان لوٹ آئے گی۔ امت مسلمہ کھویا ہوا وقار پائیگی۔مغرب کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گا ۔۔ انشاء اللہ۔ 
قوم مسلم مولانا ابولحسن علی کی اس نصیحت پر عمل کریگی ۔۔ ’’اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید وبامقصد طریقہ پر سائنس وصنعت کو فروغ دیں اور علمی وسائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں اور ماہرین فن و سائنس دانوں کی فنی وعلمی تحقیقات کا جائزہ لیں اوران سے استفادہ کرکے تحقیق وجستجو اور تجربہ ومشاہدہ کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں‘‘۔

(ماخذ۔ دنیائے اسلام کا عروج و زوال. از ڈاکٹر اقتدار فاروقی۔ سدرہ پبلشرز۔ لکھنؤ ۔ )

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے