اسلامی بینکنگ،انسانی ضرورت

موجودہ بی جے پی سرکار کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اسے لگتا ہے ہندتو کے نام پر وہ جس قسم کی سیاست کرتی رہی ہے اس سے یہ سسٹم میل نہیں کھاتا۔ سابق کانگریس سرکار اس جانب قدم اٹھانے میں اندیشے محسوس کر رہی تھی کیونکہ اسے ڈر تھا کہ بی جے پی اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کریگی۔ حالانکہ باوجود اس کے اس نے ملک کا پہلا اسلامی میوچول فنڈ جاری کرنے کی اجازت دے دی تھی مگر موجودہ سرکار نے اسے روک دیا ہے۔ریزروبینک بھی اسلامی بینکنگ کو ملک کے موجودہ
اقتصادی سسٹم سے ہم آہنگ نہیں پاتا ہے اور وہ اسے مسترد کرچکا ہے۔حالانکہ سچ پوچھا جائے تو غیرسودی بینک کاری مسلمانوں ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انسانی ضرورت ہے اور ہمارے ملک کی اقتصادیات میں انقلاب لاسکتی ہے۔ ہم غیر ملکی سرمایے کے لئے در در بھٹک رہے ہیں مگر اس سسٹم کو شروع کرکے ہم خلیجی ممالک کے سرمائے کو اپنی جانب راغب کرسکتے ہیں۔اب تک دنیا کے ۷۰ سے زائد ممالک میں اسلامی بینکنگ کی ابتدا ہوچکی ہے اور یہاں اس قدر سرمایہ آرہا ہے کہ اسے سنبھالنے کے لئے ایسے ملازمین کی کمی پڑ رہی ہے جو اسلامی قوانین کی جانکاری رکھنے کے ساتھ ساتھ عہد حاضر کی ضرورتوں کو بھی سمجھتے ہوں۔ ایسے میں بھارت کا اسلامی بینکنگ کے نام سے بھڑکنا ملک کی اقتصادیات کے لئے کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے۔
اسلامی بینکنگ کا بڑھتا دائرہ
اسلامی بینکنگ کا نظام دھیرے دھیرے دنیا بھر کے عوام وخواص میں مقبول ہورہاہے۔ اس کی ابتدا اگرچہ بعض مسلم ملکوں سے ہوئی مگر اب مغربی ممالک میں ان تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اس جانب قدم بڑھائے جارہے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پچھلے دنوں سودی معیشت نے عالمی کساد بازاری میں دنیا کی معیشت کو تباہ کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے۔اس قت اسلامی بینکنگ پر تحقیق کا کام جاری ہے اور اسے ایک متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔حالانکہ جن غیر مسلم ملکون نے اس جانب پہل کی ہے ان کا مقصد خلیجی ممالک سے سرمائے کو اپنی جانب راغب کرنا ہے۔دنیا کا موجودہ اقتصادی نظام سود پر مبنی اقتصادی نظام ہے اورسرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس کی ابتدا یہودی سرمایہ کاروں نے کی تھی جن کے پاس سب سے زیاہ دولت تھی۔ یہ سسٹم امیر وغریب کے درمیان فرق کو بڑھارہاہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں عدم مساوات اور افلاس وتنگ دستی بڑھ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی غیر سودی نظام منافع پر مبنی ہے۔اس سلسلے میں ملائیشیا کے کامیاب اسلامی بینکنگ کے مشاہدات سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔یہاں اسلامی بینکاری کا ابتدائی خاکہ 1970 میں تیار ہوا مگر ایک طویل انتظار کے بعد اسلامی بینکاری کا آغاز 1980 میں ہوپایا اور اب تک بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔ یہاں سرمایہ لگانے والوں کی تعداد روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اسلامی بینکنگ کا نظام مغرب کی لیے بھی اب پرکشش ہوگیا ہے کیونکہ سود پر مبنی معیشت اور اقتصادی نظام عام لوگوں کے لئے مفید نہیں ہے بلکہ صرف سرمایہ داروں کے مفاد ہی یہاں محفوظ رہتے ہیں۔دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے۔ لہذا اس بات میں کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے کہ اسلامی بینکنگ کے فروغ میں ہر سال سترہ فیصدسے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ اسلامی بینکنگ اور فائنانس صرف مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیاء کے مسلمان ملکوں ہی میں اہمیت حاصل نہیں کر رہی ہے، بلکہ مغربی دنیا اور بعض دوسری منڈیوں مثلاًجنوبی افریقہ میں بھی مقبول ہو رہی ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں بھی اسلامی مالیاتی ادارے قائم ہو رہے ہیں، مثلاً لکسمبرگ، ڈنمارک، آسٹریلیا۔ کینیڈا میں اس کی ابتدا کی کوشش ہورہی ہے اور اسے یہاں کے قانون سے ہم آہنگ بنانے کے لئے ماہرین کام کر رہے ہیں۔ بہت سے مسلمانوں نے کینیڈا کے معاشی نظام کے تحت کام کرتے ہوئے بھی ایسے جدید راستے تلاش کیے ہیں جن کے تحت وہ اسلام کے غیر سودی بینکاری کے احکام پر عمل کرتے ہوئے دوسرے طریقوں سے
کاروبار کریں۔ مثلاً ٹورنٹو میں اسلامک ہاؤسنگ کوآپریٹو نے اپنے ممبران کو سودی قرض کے بغیر مکانات حاصل کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اسی قسم کی کوششیں ذاتی استعمال کے قرضوں اور دوسرے تجارتی معاملات کے سلسلے میں بھی کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جس تیزی سے پوری دنیا میں غیر سودی بنیادوں پر اسلامک بنکوں کا قیام عمل میں آرہاہے اس تناسب سے ان بنکوں اور شرعی مالیاتی اداروں کو رہنمائی کے لئے شریعت کے ماہرین دستیاب نہیں ہورہے ہیں۔
اسلامی بینکنگ کیا ہے؟
روایتی بینکاری اور اسلامی بینکاری میں بنیادی طور پر دو فرق ہے۔ اسلامی بینکاری کے تحت سود لینے یا دینے کی اجازت نہیں ہے اور اس میں الکحل، جوا اور پورنوگرافی جیسے کام گناہ سمجھے جاتے ہیں لہٰذا ایسی جگہوں پر سرمایہ کاروں کا پیسہ بینک نہیں لگاسکتا۔ یہاں روایتی طریقے کے برخلاف سود کے بجائے منافع کی بنیاد پر سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور اسلام کے ان ضابطوں کی پابندی کی جاتی ہے جن کا حکم لین دین میں ہے۔ 
اسلامی بینکنگ کی تاریخ
پہلی دفعہ باقاعدہ طور پر۱۹۳۶ء میں مصر کے ایک گاؤں میں اسلامک بنکنگ کا چھوٹا سا تجربہ کیا گیااوراب تک ۵۷ سے زائد مسلم اور غیر مسلم ملکوں میں تین سو سے زائد اسلامک بنک اور شریعت کی بنیادوں پر قائم مالیاتی ادارے وجود میں آچکے ہیں جو، اس وقت انڈونیشیا ،ملیشیا ،ایران، سوڈان، اردن ،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور کویت وغیرہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر سال اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ان اسلامی بنکوں میں کھربوں ڈالر کا سرمایہ موجود ہے۔ اسلامی بینکاری کئی ممالک میں مقبول ہے اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ اور ہانگ کانگ اینڈ شنگھائی بینکنگ کارپوریشن اپنے روایتی بینکنگ آپریشن کے ساتھ اسلامی بینکاری کو بھی چلا رہے ہیں مگر بھارت میں اس کی قانونی اجازت نہیں ہے۔
بھارت میں اسلامی بینکنگ کا تصور
بھارت میں اسلامی بینکنگ کا تصور بہت پرانا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پرانی تحریر مولانا احمد رضا خاں کی ملتی ہے جنھوں نے مسلم سرمایہ داروں کو اسلامی بینک قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کی تحریر ایک صدی سے زیادہ پرانی ہے۔ اس سلسلے میں علماء دیوبند نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی نے زیادہ واضح خطوط کھینچے ۔مولانا نے ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘لکھ کرجدید اسلامک بنکنگ کے خد وخال واضح کیئے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اسلامی معیشت کے جدید اصول وضوابط پر ایک مکمل کتاب تالیف کی تھی۔ حالانکہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے’’سود‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور اسلامک مارکیٹنگ پر زور دیا۔انھوں نے اسلامی معیشت پر بھی کتاب لکھی اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس تصور پر بھارت کے علماء اسلام ایک مدت سے کام کرتے رہے ہیں مگر باوجود اس کے یہ بیل آج تک منڈھے نہیں چڑھ پائی اورتصور عملی شکل نہیں لے سکا۔جماعت اسلامی ہند کے موجودہ امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے حال ہی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اقتصادی انصاف کو یقینی بنانے کے لئے سود سے
آزاد معیشت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اسلامی بینکاری کو لے کر ہم انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس اور کچھ دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر طویل عرصے سے کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ، ریزرو بینک آف انڈیا، حکومت اور غیر سرکاری ماہرین اقتصادیات کے درمیان طویل بحث کے بعد اسلامی بینکاری کی سمت میں ایک عملی راستہ اس وقت دکھا تھا ،جب بھارتی اسٹیٹ بینک نے شریعت میوچول فنڈ کی منصوبہ بندی شروع کرنے کا رسمی اعلان کیا تھا لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔
اسلامی بینکنگ پر سیاست
میڈیا رپورٹ کے مطابق، ایس بی آئی میوچول فنڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او دنیش کمار نے بتایا کہ یہ فیصلہ شروع میں کمرشیل مقاصد کی تکمیل کے لئے لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ، ہمیں اس پروڈکٹ کی اور اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے لیکن، کانگریس کے ایک رکن کے رحمان خان نے پارلیمنٹ میں کہا کہ فیصلہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے لیا گیا ۔ان کے مطابق بی جے پی لیڈر سبرامونیم سوامی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر شریعت میوچول فنڈ پروڈکٹ لانچ کرنے کے قدم کو روکنے کے لئے وزیر اعظم مودی سے مداخلت کرنے کی اپیل کی تھی۔ خط میں سوامی نے دلیل دی تھی کہ اسلامی فائننس کی اجازت دینا سیاسی اور اقتصادی دونوں طور پر بھارتی معیشت کے لئے خطرناک ہو گا۔غور طلب ہے کہ شرعی میوچول فنڈ کو آخری لمحات میں منسوخ کر دیا گیا، جبکہ اسے سیبی کی منظوری مل گئی تھی۔
ماہرین کی کمی
اسلامی بینکنگ کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ماہرین کی کمی ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام کے تحت کامرس کی تعلیم پانے والے اسلامی طریقہ سرمایہ کاری سے واقفیت نہیں رکھتے اور مدرسوں کے فارغین موجودہ دور کی اقتصادیات کو سمجھنا تو دور اس کی اصطلاحیں بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ اس کا بڑا سبب ہے مدرسوں کے نصاب کی عہد حاضر کے تقاضوں سے غیر ہم آہنگی۔مسلم ملکوں کے حکمراں ان باتوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے سیاسی مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں اچھی خبر یہ ہے کہ غیر مسلم حضرات ہی اس میں مہارت کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ نے اسلامک فائنانس کورس کے لئے ایک مستقل شعبہ شروع کیا ہے ،فرانس کی یونیورسٹی کی طرف سے بھی اس طرح کی خوش کن اطلاعات آرہی ہیں ۔امریکہ کے تعلیمی اداروں میں غیرمسلم طلبہ اس کی جانکاری لے رہے ہیں۔(یو این این)

«
»

روزہ عبادت ہی نہیں،مہلک بیماریوں کاشافی علاج بھی

کاسہ لیس رہنما۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے