عارف عزیز(بھوپال)
اسلام کی حقانیت عصر حاضر سے مطابقت اور موزونیت کا اکثر لوگ اعتراف کرتے ہیں اسلامی فلسفہ کو انسانی زندگی میں ڈھالنے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت کا بھی بعض حلقوں کی طرف سے اظہار ہوتا ہے اور اس حقیقت کو ماناجاتا ہے کہ ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی ترقی میں جتنا اسلام نے حصہ لیا ہے اتنا کسی دوسرے بیرونی مذہب کا نہیں ہے۔ مگر اسلام سے اس عقیدت ومحبت کے اظہار کے باوجود ملک میں کورچشموں کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو اسلام کو بدیسی مذہب قرار دیکر اس کے ماننے والے مسلمانوں کو دیس سے نکال دینے کی باتیں کرتا ہے، اس طبقہ کے نزدیک اسلام نے اپنی عورتوں کو لونڈیوں کا درجہ دے رکھا ہے اور اس کے ماننے والے سب کچھ ہوسکتے ہیں ملک کے وفادار نہیں۔
حالانکہ قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کا جنہوں نے مطالعہ کیا ہے وہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ اسلام میں وطن کی محبت جزوایمان کا درجہ رکھتی ہے، اپنے وطن سے محبت اور ملکی قوانین کا احترام شریعت کی رو سے ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اسی طرح اسلام پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو برابر کا درجہ ومرتبہ دیا ہے اس کے حقوق کی ادائیگی پر مذہب میں زبردست زور دیا گیا ہے یہاں تک کہ ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی گئی ہے جس سے بڑھ کر ایک عورت کی اور کیا عزت ہوسکتی ہے۔
آج کے دور میں جبکہ ذرائع ابلاغ کی زبردست ترقی اور توسیع ہوچکی ہے پھر بھی مختلف فرقوں کے افراد کے درمیان ابلاغ کا خلاء بڑھتا جارہا ہے خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں کچھ تو ہماری اسلام سے دوری کے باعث اور کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے مطابق بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں تک کہ اب اس دوری نے کدورت کا درجہ لے لیا ہے۔ جس کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے دین ومذہب کی بنیادی باتیں دوسروں تک پہونچائیں اور خود بھی اسلامی اخلاق کا روشن نمونہ پیش کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو معلومات کا فقدان یا عام مسلمانوں کے ناروا حالات کو دیکھ کر برادران وطن میں غلط فہمیاں پیدا ہونا لازمی ہے۔
اس سلسلہ میں دین کی تبلیغ واشاعت کا جہاں کام ہورہا ہے اس میں مدد بہم پہونچائی جائے اور کوشش یہ ہو کہ اول تو مسلمان خود اچھے، باکردار بااخلاق انسان بنیں دوسرے ان کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ان کا سدباب ہو، خاص طور سے عالم عرب میں مسلم عورتوں کو سماج میں عزت واحترام کا جو درجہ ملا ہے اس کو واضح کیا جائے کیونکہ وہاں عورتوں کا مہر زیادہ سے زیادہ ادا کرنے کا رواج ہے اور یہی عورت کا سماجی اثاثہ ہوتا ہے جو ہر نکاح سے پہلے ادا کردیا جاتا ہے اور ہونے والے شوہر کے سرمایہ سے عورت کو جہیز فراہم ہوتا ہے۔ اس کے رہنے سہنے کا ٹھکانہ کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی طرح دلہن سسرال بیاہ کر نہیں جاتی، نہ ساس سسر کا جھمیلا ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے جہاں اس کے لئے گھر کا کام کاج کرنا بھی لازم نہیں اگر وہ کھانا وغیرہ پکادے تو یہ اس کی مہربانی ہے۔
اسی طرح عورت کو طلاق ہوجائے یا وہ بیوہ ہوجائے تو ہندوستان کی طرح معاشرہ میں اس کی حیثیت کم نہیں ہوتی لہذا وہاں طلاق اور بیوگی کوئی بڑا مسئلہ نہیں، نہ جہیز کے لئے کوئی لڑکی جلائی جاتی ہے، نہ کسی بیوہ کو شوہر کی چتا پر قربان ہونے پر مجبور کیاجاتا ہے۔ جب تک اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صحیح معلومات دوسروں تک نہیں پہونچائی جائیں گی اغیار کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا پردہ چاک نہیں ہوگا۔ اور جب تک مسلمان اسلام کا سچا نمونہ نہ بنیں گے دشمنوں کے پروپیگنڈہ کا کار گر مقابلہ نہیں ہوسکے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جلسوں، سیمناروں اور ورکشاپ کے ذریعہ ایسے موضوعات پر گفتگو کی جائے جو اسلام کی حقانیت رواداری اور وطن سے محبت ثابت کرتے ہوں اور مسلمان بھی خود کو اس کا نمونہ بن کر دکھائیں ورنہ گلے شکوے اور رونے دھونے سے کام چلنے والا نہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں