اسلام‘ امت مسلمہ اور مغربی دنیا

پوپ نے کہا کہ مجھ پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ اس شیطانی مذہب کو روئے زمین سے مٹادیں۔ چنانچہ پوپ نے پورے یورپ کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی تلقین کی۔ پوپ کی یہ تلقین صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی۔ یورپی اقوام 1099ء4 میں عملاً ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور انہوں نے اْن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ اس منظرنامے میں مغرب کا تضاد یہ تھا کہ اس نے کسی جواز کے بغیر اسلام اور عالم اسلام کو نشانہ بنایا اور اس کے باوجود خود کو حق و صداقت اور امن و انصاف کا عَلم بردار کہتا رہا۔ صلیبی جنگوں کے آغاز سے اس کی انسانیت پر کوئی حرف آیا اور نہ بیت المقدس میں خون کی ندیاں بہانے سے اس کا ’’مہذب پن‘‘ متاثر ہوا۔
مسلم دنیا میں نوآبادیاتی تجربے کا ذمے دار بھی مغرب ہے۔ نوآبادیاتی دور کے وقت مسلمان اپنے جغرافیوں میں محدود تھے اور ان کی جانب سے مغرب کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی تھی۔ اس کے باوجود یورپی طاقتیں اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم اسلام پر قابض ہوگئیں۔ اس قبضے کا سبب واضح تھا۔ مغرب میں صنعتی انقلاب برپا ہوچکا تھا اور اس انقلاب کو خام مال اور نئی منڈیوں کی ضرورت تھی۔ لیکن اہلِ مغرب نے اپنی غرض کو تسلیم کرنے کے بجائے یہ فلسفہ گھڑا کہ اہلِ مغرب تہذیب یافتہ ہیں اور ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ غیر مہذب اقوام کو مہذب بنائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی اہلِ مغرب کا ایک جھوٹ تھا۔ اس لیے کہ امتِ مسلمہ اہلِ مغرب سے زیادہ مہذب تھی اور اسے اہلِ مغرب سے حق و صداقت اور معرفت و تہذیب کا کوئی سبق نہیں سیکھنا تھا۔ نوآبادیاتی تجربے کے ذریعے اہلِ مغرب نے ایک جانب مسلمانوں کو اپنا غلام بنایا، دوسری جانب ان کے وسائل کو لوٹا، تیسری جانب ان پر اپنا تصورِ حیات اور اپنے علوم ٹھونسے، اور چوتھی جانب انہوں نے مسلمانوں میں کالے یورپیوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو آج بھی مغرب کا آلہ کار بن کر اسلام اور عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
نوآبادیاتی دور ختم ہوا اور مغربی طاقتیں اپنے علاقوں کو واپس لوٹیں تو اہلِ مغرب نے اسلام کے سلسلے میں ایک نیا فلسفہ ایجاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ایک بڑا مذہب تو ہے مگر اسلام کا بیج اپنے تمام امکانات ظاہر کرچکا اور اب اس کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس خیال کی گونج پاکستان کیا روزنامہ جسارت تک سنی گئی۔ 1980ء4 میں الطاف گوہر نے اس موضوع پر ایک مضمون لکھا، انہوں نے اس مضمون میں کہا کہ کیا ہمیں اب یہ تسلیم نہیں کرلینا چاہیے کہ اسلام کو دنیا میں جو کچھ کرنا تھا، کرچکا۔ الطاف گوہر کے اس مضمون پر سلیم احمد نے جسارت میں کالم لکھا اور الطاف گوہر کے زاویہ? نگاہ کو ایک نیا تناظر قرار دیا۔ لیکن نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد عالم اسلام ایک حقیقت بن کر سامنے آچکا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرکے ثابت کردیا کہ اسلام صرف ماضی کی قوت نہیں بلکہ وہ اب بھی کروڑوں انسانوں کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں سے مغرب نے اسلام کے خلاف ایک نیا شوشا چھوڑا۔ مغرب کے مفکرین نے کہا کہ اسلام ایک بڑا مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، مگر اسلام اب صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے۔ اس کا کوئی تصورِ سیاست و ریاست نہیں، اس کا کوئی معاشی نظام نہیں، چنانچہ اسلام کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے، اجتماعی زندگی کے سلسلے میں اسلام کے پاس کوئی منصوبہ اور کوئی پروگرام نہیں۔ لیکن اقبال?، مولانا مودودی?‘ حسن البناء? اور سید قطب? نے دلائل و براہین کے ذریعے ثابت کیا کہ اسلام کا ایک مکمل ضابطہ? حیات ہے، اس کا ایک مخصوص تصورِ زندگی ہے، اس کا ایک مخصوص تصورِ ریاست و سیاست ہے، اس کا ایک مخصوص معاشی نظام ہے، اس کا ایک مخصوص سماجی بندوبست ہے۔ نتیجہ یہ کہ عالم اسلام میں اسلام کے مکمل ضابطہ? حیات ہونے کی بحث ختم ہوگئی اور یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ اب مسئلہ اسلام کے تصورات پر عمل کرکے دکھانے کا ہے۔ لیکن اسلام اور امتِ مسلمہ سے متعلق مغرب کے تضادات کا سلسلہ تاریخ کے اس مرحلے پر ختم نہیں ہوا۔
مغربی دنیا میں انقلابِ فرانس کو تاریخ ساز اہمیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انقلاب قوت کے ذریعے آیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے ’’جمہوری انقلاب‘‘ کہا اور ماناگیا۔ لیکن جب 1979ء4 میں ایران میں انقلاب آیا اور اس کی پشت پر مذہب کی کارفرمائی نظر آئی تو اہلِ مغرب چیخ اٹھے کہ اسلام اگرچہ ایک زندہ قوت ہے مگر مسلمان اپنے معاشروں میں طاقت کے ذریعے ہی تبدیلی لاسکتے ہیں اور اسلام کی بنیاد پر کام کرنے والی تحریکیں جمہوری طریقوں سے کبھی اقتدار میں نہیں آسکتیں۔ لیکن ایرانی انقلاب کے چند ہی برسوں بعد الجزائر میں اسلامی فرنٹ ایک بڑی عوامی قوت بن کر ابھرا اور اس نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ یہ تبدیلی مغرب کے معیار، اقدار اور طریقہ? کار کے عین مطابق تھی اور مغربی دنیا کو نہ صرف یہ کہ اس ’’جمہوری انقلاب‘‘ کا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا بلکہ اس کا فرض تھا کہ وہ جمہوری انقلاب کو تحفظ بھی فراہم کرے۔ لیکن اس کے برعکس پوری مغربی دنیا الجزائر کے جمہوری انقلاب سے لاتعلق بن کر کھڑی ہوگئی اور فرانس نے الجزائر کی فوج کے ذریعے اس جمہوری انقلاب کو سبوتاڑ کردیا اور انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آسکی۔ لیکن یہ معاملہ الجزائر تک محدود نہ رہا۔ نجم الدین اربکان جمہوری طریقے سے اور ترکی کے سیکولر آئین کے تحت ملک کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے، لیکن ان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا گیا۔ اسرائیل اور مغربی دنیا حماس کو دہشت گرد اور جہادی تنظیم کہتے تھے، لیکن وقت آیا تو حماس نے خود کو ایک سیاسی جماعت بناکر دکھادیا اور اس نے جمہوری نظام کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، لیکن اس کے باوجود امریکہ اور یورپ نے حماس کی حکومت کو تسلیم کرکے نہ دیا۔ چنانچہ حماس کے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ بمشکل ایک سال فلسطین کے وزیراعظم رہ سکے۔
نائن الیون کے بعد امتِ مسلمہ اور مغرب کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو مغرب نے کہا کہ اس کا ہدف اسلام نہیں بلکہ انتہا پسند ہیں، اس کو اسلامی تحریکوں سے نہیں القاعدہ اور طالبان سے تکلیف ہے۔ یہ مغرب کا ایک اور جھوٹ تھا۔ مغرب الجزائر میں اسلامی فرنٹ اور ترکی میں رفاہ پارٹی کے ساتھ جو کچھ کرچکا تھا وہ ریکارڈ پر تھا۔ رہی سہی کسر مصر میں صدر مرسی کے خلاف سازش اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے خلاف اقدامات نے پوری کردی۔ اخوان المسلمون پہلے دن سے ایک پْرامن سیاسی اور جمہوری تحریک ہے، اس نے مصر کی فوج کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا اور51 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئی، لیکن صدر مرسی کو ایک سال میں گھیر کر اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ اس سلسلے میں امریکہ کے تضاد کا یہ عالم ہے کہ اْس نے جنرل السیسی کی بغاوت کو ’’بغاوت‘‘ کہنے سے بھی انکار کردیا۔ اور اب برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ روس اور چین کے ساتھ تنازعات میں نہ الجھے، اس لیے کہ اصل خطرہ روس یا چین نہیں، بلکہ اسلام اور اسلامی تحریکیں ہیں۔ انہوں نے کوئی لفظ چبائے بغیر صاف کہا ہے کہ مغرب کو مصر کے معاملات میں غیر جانب دار رہنے کے بجائے جانب داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اسے اسلام پسندوں کو کچلنے والی قوتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ بعض مبصرین نے ٹونی بلیئر کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹونی بلیئر کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے کیونکہ برطانیہ کے 25 فیصد لوگ انہیں جنگی جرائم میں ملوث سمجھتے ہیں۔ یہ بات اصولی طور پر درست ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ مغربی دنیا مصر کیا پورے عالم اسلام کے سلسلے میں پہلے ہی ٹونی بلیئر
کے مشورے پر عمل کررہی ہے۔ شام پورا تباہ ہوچکا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، دس لاکھ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں، محصور علاقوں میں لوگ کتے بلیاں مار کر کھا رہے ہیں مگر امریکہ اور یورپ بشارالاسد کی حکومت کو گرانے پر تیار نہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ بشارالاسد کی حکومت گرے گی تو اس کی جگہ کوئی نہ کوئی اسلام پسند لے گا۔ مصر میں جنرل السیسی کو صرف امریکہ کی نہیں بلکہ پورے یورپ کی تائید حاصل ہے۔ بی بی سی اور سی این این مصر کی صورت حال پر تبصرہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو وہ بات کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ صدر مرسی کے خلاف لاکھوں افراد نے مظاہرے کیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جمہوریت انتخابات کا نام ہے یا سڑکوں پر مظاہروں کا؟ اگر سڑکوں پر ہونے والے مظاہرے ہی سب کچھ ہیں تو خود اہلِ مغرب ان مظاہروں سے ’’استفادہ‘‘ کیوں نہیں کرتے؟ اور ان مظاہروں کے ذریعے حکومت کیوں نہیں گراتے؟ مغرب کی حکومتوں اور ذرائع ابلاغ کو یہ بات تو نظر آتی تھی کہ صدر مرسی مظاہرین کے خلاف ہلکی پھلکی طاقت استعمال کررہے ہیں، مگر جنرل السیسی کا وہ بدترین ظلم، جبر اور استبداد انہیں نظر نہیں آرہا جس کے تحت انہوں نے چند ماہ میں چھ ہزار لوگوں کو مار ڈالا اور 23 ہزار لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ جنرل السیسی کی عدالت نے حال ہی میں اخوان کے 663 لوگوں کو سزائے موت سنائی ہے اور اس سزا کے مقدمے کی کارروائی صرف 8 منٹ جاری رہی۔ ویسے دیکھا جائے تو مغرب کو سزائے موت سے چڑ ہے اور وہ پاکستان میں معمول کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے لوگوں کی سزا پر بھی عمل نہیں ہونے دیتا، مگر مصر اور بنگلہ دیش میں موت کی سزا ؤں کی ’’نمائش‘‘ لگ گئی ہے اور مغرب کو اس پر کوئی تکلیف نہیں۔ ظاہر ہے کہ مغرب شور مچائے گا تو اس سے ایک طرف اسلامی تحریکوں کو تقویت ملے گی اور دوسری جانب دنیا خود مغربی حکومتوں سے پوچھے گی کہ تم اس سلسلے میں کیا کررہے ہو؟
مغرب اور عالم اسلام کے تعلق کی دو مثالیں اور بھی ہولناک ہیں۔ مہاتیر محمد اور ان کا ملائیشیا نہ جہادی تھا، نہ انتہا پسند تھا۔ یہاں تک کہ مہاتیر محمد کو مغرب کی اصطلاح میں ’’اسلامسٹ‘‘ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ مہاتیر محمد کا مسئلہ صرف مادی ترقی تھا، اور انہوں نے 30 سال تک سر جھکا کر اسی ترقی پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس عرصے میں انہوں نے مغرب کے ساتھ تجارت کی اور اسلامی اصولوں کے تحت نہیں بلکہ مغربی اصولوں کے تحت۔ اس عرصے میں انہوں نے سودی بینکاری کی۔ انہوں نے جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کو عام کیا، اور ان کے ملک میں کہیں بھی ’’مدرسے کی ذہنیت‘‘ موجود نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود ایک مرحلہ آیا کہ مہاتیر محمد چیخ اٹھے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ترقی پچاس سال میں کی ہے مغرب اسے چند ہفتوں میں تباہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے ملائیشیا کے اسٹاک ایکسچینج میں بحران کا ذمے دار امریکی سرمایہ کاروں بالخصوص جارج
سووس کو قرار دیا۔ چنانچہ چند ہفتوں میں خاموش طبع مہاتیر ’’مغرب مخالف‘‘ بن کر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ اْن کا تعلق طالبان اور القاعدہ کیا اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی سے بھی نہ تھا۔ رجب طیب ایردوان کی مثال اس سلسلے میں اور بھی نمایاں ہے۔ ترکی آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ملک ہے اور رجب طیب ایردوان اس آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔ مہاتیر محمد کی طرح انہوں نے بھی معاشی ترقی کو ہدف بنایا۔ وہ دس سال سے مسلسل یورپی اتحاد میں شمولیت کے لیے کوشاں تھے، یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی فرمادیا کہ اسلام اور سیکولرازم میں کوئی تضاد نہیں۔ اس کے باوجود ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو وہ بھڑک اٹھے اور انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ غیر ملکی طاقتیں انہیں گرانے کے لیے سازشیں کررہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں فتح اللہ گولن پر انگشت نمائی کی133 اور سب جانتے ہیں کہ فتح اللہ گولن امریکہ میں مقیم ہیں اور فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی پر ان کا گہرا اثر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ مغرب کا اصل مسئلہ اسلام اور اس کا عروج اور امتِ مسلمہ کی شوکت ہے، اور یہ دونوں باتیں مغرب کو گوارا نہیں، خواہ مہاتیر محمد اور رجب طیب ایردوان ہی ان میں کسی کا مظہر بن کر کیوں نہ ابھریں۔

«
»

حد قذف(احکام و شرائط)

’’بوکوحرام تنظیم ،،کاوجود :منظر پس منظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے