سوامی جی اسلام کے متعلق اپنی بدگمانیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ کئی سال پہلے ہندی روزنامہ ’’جاگرن ‘‘میں بلراج مدھوک کا لکھا ہوا ایک مضمون ’’ دنگے (فساد ) کیوں ہوتے ہیں ؟ ‘‘ پڑھا تھا فساد کی وجہ اس مضمون میں یہ بتائی گئی تھی کہ قرآن مجید کے وہ فرمان ہیں جو اللہ نے کافروں سے لڑنے کے لئے دئے ہیں ۔ اسکے ثبوت میں قرآن مجید کی آیتیں بھی پیش کی گئی تھیں ۔ اس کے بعد دہلی سے ایک پمفلیٹ دستیاب ہوا جسمیں ۲۴ آیتوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ قرآن مجید دوسرے مذاہب سے بر سر پیکا رہنے کی تعلیم کس طرح دیتا ہے ۔ ایک شخص نے مجھے یہ پمفلیٹ دیا تھایہ پڑھنے کے بعد میرے دل میں قرآن مجید پڑھنے کی خواہش پیدا ہو ئی ۔اسلامی مکتبہ سے مجھے قرآن مجید کے ترجمے کی ایک ہندی کاپی ملی ۔ قرآن مجید کے اس ہندی ترجمے میں وہ سبھی آیتیں پڑھنے کو ملیں جو پمفلیٹ میں درج تھیں۔ اس کو پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہندو را جاؤں اور مسلمان بادشاہوں کے درمیان جو جنگ میں مارا ماری اور آج کے فسادات اور دہشت گردی اسلام مذہب سے جڑی ہو ئی ہے ۔ اسلام کی تاریخ اور آج کے واقعات کو جوڑتے ہوئے میں نے ’’ اسلام کی دہشت گردی کی تاریخ ‘‘ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جسکا انگریزی ترجمہ The History of Islamic Terrorisom کے نام سے شائع کیا گیا ۔
حال ہی میں علمائے اسلام کے بیانات اخباروں میں پڑھا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسلام اخوت، میل ملاپ اور بھائی چارہ کا مذہب ہے ۔ کسی بے قصور شخص کو مارنا یا قتل کرنا اسلام کے خلاف ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف فتویٰ بھی جاری ہوا ۔ اس کے بعد میں نے قرآن میں جہاد کی حقیقت کو جاننے کے لئے اسلام کے اسکالروں اور علماء سے رابطہ قائم کیا جنہوں نے مجھے بتایا کہ قرآن کی آیتیں مختلف اوقات اور مختلف پس منظر میں نازل ہو ئیں ۔ اس لئے قرآن مجید کا محض ترجمہ پڑھکر کر سمجھنا آسان نہیں ہے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس کا شان نزول کیا ہے اور کس پس منظر میں یہ آیتیں نازل کی گئی ہیں جبھی اس کا صحیح مطلب اور مقصد معلوم ہو سکتا ہے ۔
دوسری اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ قرآن مجید حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے لہٰذا ان کی حیات طیبہ کو پڑھنا بھی قرآن فہمی کے لئے ضروری ہے ۔ علماء اسلام نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ ۲۴ آیتیں جن کا حوالہ دے کر دشمن اسلام اسلام کی تصویر کو مسخ کرتے ہیں وہ اسوقت نازل ہوئیں جب مشرک اور کافر ملک میں فتنہ و فساد پھیلا رہے تھے اور آنحضرتؐ کی زندگی اور مسلمانوں کی زندگی کے درپے تھے ان کا جینا اجیرن کئے ہو ئے تھے ۔ انہیں امن و امان سے رہنے نہیں دے رہے تھے ان کا پیچھا کرتے ہو ئے مکہ سے مدینہ تک پہنچ گئے تھے ۔
علماء اسلام کے مشورے اور تجویز وں کے مطابق میں نے سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ حیات طیبہ ﷺ کو اچھی طرح سے پڑھنے کے بعد جب قرآن مجید کو شروع سے آخر تک پڑھا تو ان ۲۴ آیتوں کا وہ مطلب اور مقصد نہیں نظر آیا جو شروع میں پمفلٹ پڑھکر نظر آیا تھا پھر تو مجھے قرآن مجید کی آیتوں کا مطلب اور مقصد صحیح طریقے سے معلوم ہو نے لگا ۔ سچائی جب سامنے آگئی تو مجھے بڑا پچھتاوا ہوا اور اپنے آپ پر افسوس ہوا ۔ خاص طور پر جو اسلام کی مخالفت پر کتاب لکھی تھی اس کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی دل میں بے چینی اور اضطراب جیسی کیفیت پیدا ہو ئی اس کا مداوا کرنے کے لئے ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا ۔ میں اللہ سے ، پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ اور مسلمانوں سے معافی چاہتا ہوں کہ لا علمی میں جو کتاب اسلام کے خلاف لکھی ہے اور اپنی ان تمام باتوں کو واپس لیتا ہوں جو اسلام کے خلاف لکھی گئی ہیں میں عوام و خواص سے درخواست کرتا ہوں کہ میری کتاب ’’ اسلام کی دہشت گردی کی تاریخ ‘‘ میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ غلط ہے اور لا علمی پر مبنی ہے اسے رد کردیں اور میری تازہ کتاب کو ضرور پڑھیں اور موقع ہو تو قرآن و حدیث سے براہ راست واقفیت کیلئے وقت فارغ کریں ۔‘‘
سوامی لکشمی شنکرا چاریہ
اe-mail: [email protected]
Mob. No. 09415594441
09935037145
سوامی نے آ نحضرت ﷺ کی زندگی کا گہرا مطالعہ کیا اور قرآن مجید کو شروع سے آخر تک پڑھکر اپنی لا علمی کو ہی نہیں دور کیا بلکہ اسلام کی سچائی اور حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا اسے عملی جامہ پہنایا ۔ کتاب میں یہ بھی لکھا کہ دوسری کتاب لکھتے ہوئے جسطرح میری غیبی مدد ہو ئی اس سے اسلام کی سچائی پر مجھے کچھ زیادہ ہی یقین ہوتا چلا گیا ۔
سوامی جی نے از خود اسلام کو جاننے کے لئے علماء اور اسکالروں سے ملاقا تیں کیں اور مسلمانوں میں سے کچھ داعی اسلام نے ان سے ملاقاتیں کیں ۔ اس دو طرفہ کوششوں سے سوا می جی کی غلط فہمی کا نہ صرف ازالہ ہوا بلکہ اسلام کی سچائی اور صداقت تک پہنچنے میں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد بھی حاصل ہو ئی ۔حدیث قدسی ہے ’’جو اللہ تعالیٰ کی طرف ایک با لشت بڑھتا ہے اللہ اس کی طرف ایک ہا تھ بڑھتا ہے اور جو چل کر آتا ہے اللہ اس کے پاس دوڑ کر آتا ہے ۔‘‘
قرآن مجید میں اندھی اور بہری مخالفت کے جواب میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ما حصل ملاحظہ فرمائیں ۔
’’ یہ خدا ہی کا نازل کردہ کلام ہے اور عربی زبان ہی میں ہے ۔ جو حقیقتیں اس میں صاف کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں ۔ جاہل لوگ ان کے اندر علم کی روشنی نہیں پاتے ، مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے اس روشنی کو دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔ یہ تو خدا کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لئے بھی یہ کلام نازل کیا ۔ کوئی اسے زحمت سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی بد نصیبی ہے ۔ خو شخبری ہے ان لوگوں کے لئے جو اس سے فائدہ اٹھا ئیں ، اور ڈرنا چاہئے ان لوگوں کو جو اس سے منھ موڑ لیں ۔‘‘
’’ یہ قرآن اٹل کتاب ہے۔ اسے تم اپنی گھٹیا چالوں اور اپنے جھوٹ کے ہتھیاروں سے شکست نہیں دے سکتے ۔ باطل خواہ سامنے سے آئے یا درپردہ اور بالواسطہ حملہ آور ہو ، اسے زک دینے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا ۔‘‘
پہلے بھی ضروری تھا آج کچھ اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ اسلام کی سچائی اور صداقت کو مسلمان اپنے قول و عمل سے پیش کریں اور دشمنوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے دوستوں کی تعداد بڑھائیں اور غیر مسلموں کے ذہنوں سے اسلام اور مسلمانوں کی غلط فہمیاں حتیٰ الامکان دور کرنے کی کوشش کریں ۔ مسلمانوں نے اگر یہ کام داعیانہ انداز سے نہیں کیا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تواسلام دشمنوں کی جیت اور کامیابی یقینی ہے کیونکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی پوری طاقت سے بر سر پیکار ہیں ۔اللہ کرے مسلمانوں کے اندر سمجھ بوجھ پیدا ہو اور اسلام کی سچائی اور صداقت پھیلانے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں ۔
جواب دیں