اسلام میں جانوروں کے حقوق

محمد محسن امجدی 

جانور اللہ تبارک وتعالی کی بہت بڑی نعمت ہے ہماری رات دن کی بہت ساری ضرورتیں ان سے وابستہ ہیں انسانی زندگی میں جانوروں کی اہمیت سے کسی کو مجال انکار نہیں ہے خود خالق کائنات اپنے کلام پاک میں انکی اہمیت کا اس طرح ذکر فرمایا ہے : 
ترجمہ :اور اس نے جانور پیدا کئے، ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور بہت سے فائدے ہیں اور ان سے تم (غذابھی) کھاتے ہو۔اور تمہارے لئے ان میں زینت ہے جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کیلئے چھوڑتے ہو۔اور وہ جانورتمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے،بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے۔اور (اس نے) گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تا کہ تم ان پر سوار ہو اور یہ تمہارے لئے زینت ہے اور (ابھی مزید) ایسی چیزیں پیدا کرے گاجو تم جانتے نہیں۔(سورہ نحل ۱۶/آیت ۵تا ۸) 
اس کے علاوہ قرآن پاک کی تقریبا 200 آیتوں میں میں ان کا بیان ملتا ہے اور تقریبا پانچ سورتوں کے نام ان حیوانات کے نام پر ہے سورہ بقر (گائے) سورہ نحل (شہد کی مکھی) سورہ نمل (چیونٹی) سورہ عنکبوت (مکڑی) سورہ فیل(ہاتھی) اور ایک سورہ انعام (چوپائے) کے نام سے بھی اور تقریباً 35 جانوروں کا تذکرہ قرآن میں ہے جن سے انکی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے احادیث پاک میں بھی انکی اہمیت کو خوب اجاگر کیا گیا ہے حضرت عروہ بن جعد بارقیؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اونٹ اپنے مالکوں کے لیے قوت کا باعث ہیں، اور بکریاں برکت والی ہیں، اور گھوڑوں کی پیشانی کے بالوں سے قیامت تک خیر کا تعلق قائم کر دیا گیا ہے(ابن ماجہ)۔حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا مرغے کو برا مت کہو کیونکہ یہ نماز کے لئے جگاتا ہے
رسول اکرم ﷺنے انہیں ستانے اور پریشان کرنے سے سخت منع فرمایاہے ایک صحابی فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حاجت کے لیے تشریف لے گئے ہم نے ایک سرخ پرندہ دیکھا جس کے ساتھ اس کے دو بچے تھے ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا تو وہ پرندہ فرط غم سے ہمارے گرد منڈلانے لگا اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس کو منڈلاتے ہوئے دیکھ کر آپ صل اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس پرندے سے اسکے بچوں کو چھین کرکس نے اسے رنج پہنچایا اس کے بچوں کو اسے لوٹا دو اسکے بچوں کو اسے لوٹا دو (ابوداؤد) نبی پاک صل اللہ علیہ و سلم نے جانور کو باندھ کر نشانہ لگانے سے منع فرمایا (مسلم) حضور کی آمد سے قبل لوگ زندہ جانور کے عضو کو کاٹ کر کھا جاتے اور بیچارے اس جانور کو تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتے حضور نے اس سے بھی سختی سے منع فرمایا اور ایسے گوشت کو حرام قرار دیا (ترمذی) عرب کے لوگ جانوروں کو آپس لڑا کر بڑے لطف اندوز ہوتے تھے ا ور وہ بے چارے جانور زخمی ہوکر تکلیف اٹھاتے کے لیے حضور نے اسکو بھی حرام قرار دیا الغرض ہر وہ طریقہ جن سے انہیں تکلیف ہو حضور نے اس سے منع فرمایا 
اب ان جانوروں کے کچھ حقوق بھی ہمارے ذمہ اسلام نے لازم کیے ہیں جن سے لاپرواہی سخت سزا کا باعث ہے آئیے ان حقوق کو جانتے ہیں. ان جانوروں کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم انسان ان بے زبان جانوروں کو اللہ کی مخلوق سمجھیں اور انکے ساتھ شفقت ونرمی اوررحم وکرم کا معاملہ کریں کیونکہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام مخلوقات کے ساتھ رحم کرنے کا عمومی وتاکیدی حکم مسلمانوں کو دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نے ارشاد فرمایا رحم کرنے والوں پر اللہ بھی رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان کا مالک تم پر رحم کرے گا (مسند احمد) معاویہ بن قرہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص خدمت نبوی حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب میں بکری ذبح کرتا ہوں تو اسکے ساتھ رحم کرتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم بکری کے ساتھ رحم کروگے تو اللہ تمہارے ساتھ بھی رحم کا برتاؤ فرمائے گا(مسند احمد) 
ان جانوروں کا ایک حق ہے کہ انکے چارے پانی کا خاص خیال رکھاجائے اورانکو بھوکا نہ رکھا جائے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا. تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چراو(طٰہٰ20آیت54) اس میں انسان کو حکم دیا کہ وہ صرف اکیلے نہ کھائے بلکہ جانوروں کے کھانے پینے کا بھی خیال رکھے حضرت سہل بن حَنْظَلِیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی پیٹھ پیٹ سے مل گئی تھی تو ارشاد فرمایا’’ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، ان پر اچھی طرح سوار ہوا کرو اور انہیں اچھی طرح کھلایا کرو (ابو داؤد) ایک حدیث پاک میں ہے نبی پاک صل اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا کہ اس نے اس بلی کو باندھ کررکھا اسے کھانا پانی نہیں دیا اور آزاد بھی نہیں کیا کہ وہ زمین کے کیڑیکوڑے کھاتی (مسلم) اس طرح انکے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور انہیں کھلانے پلانے پر اجرو ثواب بھی ہے نبی پاک صل اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کی مجلس میں بیان فرمایا کہ ایک فاحشہ عورت نے ایک مرتبہ اپنے جوتے سے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا جسکی وجہ اللہ تعالیٰ نے اسکی بخشش فرمادی (بخاری) ایک روایت میں ہے ایک صحابی حاضر بارگاہ ہوکر عرض کرتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے خاص اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے ایک حوض بنایا اس پر بسا اوقات دوسرے بھولے بھٹکے جانور بھی آجاتے ہیں اگر میں انہیں سیراب کروں تو مجھے اسکا اجر ملے گا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر جاندار کو کھلانے پلانے پر اجروثواب ہے. لہٰذا انکے کھانے پانی کا خیال رکھنا چاہیے مسلمان کوشش کرے کہ گرمیوں کے موسم میں اپنے چھتوں پر پانی کا برتن رکھے تاکہ اڑنے والے پیاسے جانور سیراب ہوکر آپ کو دعائیں دیں اور ممکن ہو تو انکے لیے دانہ بھی ڈال دیا کریں. گلی وغیرہ میں کہیں کوئی بھوکا پیاسا جانور دیکھیں تو اسکی ضرورت پوری کرے.
ہمارے کچھ بھائی عام حالات میں تو انکے حقوق کی رعایت کرتے ہیں مگر ذبح کے وقت اس میں کوتاہی کردیتے ہیں اس وقت بھی انکے حقوق کی رعایت لازم ہے اسلام نے جن جانوروں کا گوشت حلال کیا انکے ساتھ پوری نرمی کرنے اور ذبح میں ایسا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا جس میں سب کم تکلیف ہوتی ہے اور چند ہی سیکنڈ جانور کی روح قبض ہوجاتی ہے اسلامی ذبیحہ کے علاوہ آپ جتنے بھی طریقوں کو دیکھیں ان میں جانور کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور اسکو کافی تڑپنا پڑتا ہے نبی پاک صل اللہ علیہ و سلم ارشاد فرمایا اللہ نے ہر مخلوق کے ساتھ احسان (حسن سلوک) کرنا فرض کیا ہے اس لیے جب کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو (اسے زیادہ تکلیف نہ ہو) اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح ہر شخص ذبح کرنے سے پہلے اپنی چھری تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہونچایے (مسلم) فقہاء فرماتے ہیں کہ ذبح کرنے والے پر لازم ہے وہ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے اور جانور کو ناک کے بل چت نہ کرے اور ذبح سے پہلے اسے کھانا پانی دے حضرت ربیعہ فرماتے ہیں کہ احسان یہ ہے کہ تم ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کر و ایک مرتبہ نبی پاک صل اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ بکری کو لیٹا کر اسکے سامنے چھری تیز کر رہا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کیا تو اسے دو مرتبہ موت دینا چاہتا ہے؟ تو نے اسے ذبح کرنے سے
پہلے چھری تیز کیوں نہیں کی لہذا ہمارے مسلمانوں بھائیوں کو چاہیے اس پر غور کریں خاص کر ہمارے قصاب بھائی اس معاملے میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو اپنے پیش نظر رکھے اور کوشش کریں کسی طرح ان جانوروں کو تکلیف نہ پہونچے 
انکا ایک حق یہ بھی ہے کہ انکی طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لیا اور ان پر اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے جتنے یہ برداشت کر سکے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نے ایک جانور پر تین آدمی کے ایک ساتھ سوار ہونے سے منع فرمایا. حضرت مسیب بن دارم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شتربان کو مارا اور ا س سے فرمایا ’’تم نے اپنے اونٹ پرا س کی طاقت سے زیادہ سامان کیوں لادا ہے؟ (طبقات الکبریٰ) حضور صدر شریعت مصنف بہار شریعت لکھتے ہیں کہ جانور سے اسکی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے اتنا نہ لیا جائے کہ وہ مصیبت میں پڑجائے جتنی دیر کام کرنے کا متحمل ہو اتنا ہی لیا جائے بعض تانگا والے اتنی زیادہ سواریاں بیٹھا لیتے ہیں کہ گھوڑا مصیبت میں پڑجاتا ہے یہ نا جائز ہے
اسی طرح انکا حق یہ بھی ہے کہ انکو بے تحاشا مارا نہ جائے انکے جسموں کو داغ کر انہیں تکلیف نہ پہنچائے اور خاص کر انکے چہرے پر نہ مارے نبی پاک صل اللہ علیہ و سلم نے ان سب سے منع فرمایا 
یہ بھی انکاحق ہے کہ انکو آرام کرنے اور چرنے کا موقع دیا جائے حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم سرسبزی کے زمانے میں سفر کرو تو زمین سے اونٹوں کو ان کا حصہ دو اور جب تم خشکی کے سال میں سفر کرو تو زمین سے جلدی گزرو (تاکہ اونٹ کمزور نہ ہو جائیں) اسلام نے تو یہاں تک حکم دیا کہ جب جانور روک کسی سے کوئی بات کر رہا ہو یا کوئی کام کر رہا ہو تو اسکی پیٹھ پر بیٹھا نہ رہے بلکہ نیچے اتر جائے تاکہ اس جانور کو کچھ راحت ملے۔ جانوروں کے معاملے میں ہمیں اپنے بزرگوں کی سیرت کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے کہ وہ اللہ والے کس طرح انسانوں کی طرح جانوروں کے دکھ درد کا پورا خیال رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت مولائے روم ایک راستہ سے گذر رہے تھے بیچ راستے میں ایک کتا سو رہا تھا جس کی وجہ سے راستہ رک گیا تھاتو آپ وہیں کھڑے ہو گئے اور دیر تک کھڑے رہے مگر اس کتے کو اٹھا کر اسے تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا دوسری طرف سے آنے والے ایک شخص نے اسے اٹھا دیا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا تم نے بلا وجہ اس جانور کو تکلیف پہنچائی ہے (قصص الاولیاء) حضرت خواجہ صوفی حمید الدین ناگوری جو سرکار غریب نواز کے خلیفہ ہیں آپکے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ آپ ناگور سے شہر لاڈنو تشریف لے گئے واپسی میں آپ نے اپنے کپڑے میں ایک چیونٹی دیکھی تو آپ کو خیال آیا کہ وہاں فلاں جگہ پر سے یہ چیونٹی میرے کپڑوں میں آئی ہے تو آپ نے اس خیال سے کہ بے چاری یہ چیونٹی اپنے خاندان والوں سے جدا ہو کر تکلیف میں ہوگی تو اس چیونٹی کو اسکے خاندان تک پہنچانے کے لیے آپ نے ناگور سے لاڈنو کا دوبارہ سفر فرمایا وہ بھی اس زمانے میں جب آج کی طرح سواریاں نہیں تھی حضور صدر الشریعہ تحریر فرماتے ہیں کہ جانور پر ظلم کرنا ذمی کافر پر ظلم کرنے سے زیادہ برا ہے اور ذمی پر ظلم کرنا مسلم پر ظلم کرنے سے بھی برا ہے کیونکہ جانوروں کا کوئی معین ومددگار اللہ کے سوا نہیں اور اس غریب (ذمی) کو اس ظلم سے کون بچائے گا 
الغرض جانوروں کے متعلق اسلام میں واضح تعلیمات موجود ہے لہذا ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہی کہ اسلام کے نام لیوا اسلام کی
ان پاکیزہ تعلیمات کو دنیا کے سامنے عملی طور پر پیش کریں اور اسکا بے داغ اور صاف وشفاف آئینہ دنیا کے سامنے رکھ دیں کہ دنیا اسکی امن پسند تعلیمات کا مشاہدہ کر سکے 

«
»

اب دیکھو کیا دکھائے نشیب و فراز دہر

مرثیہ بروفات : استاد گرامی قدرحضرت مولانا سید واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے