نبیؐ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج کے خطبے میں ایک لاکھ 24 ہزار اپنے رفقاء سے فرمایا کہ جو حاضر ہیں وہ غائبین تک اسلام کا ابدی پیغام پہنچادیں۔ تاریخ شاہد ہے جنت البقیع وجنت المُعلّیٰ میں صرف 15 ہزار اصحاب رسول کی قبور ہیں، باقی اقصائے عالم کے گوشوں میں اسلام کا ابدی پیغام لے کر چلے گئے، وہیں اسلام کے ابدی پیغام کی تبلیغ کرتے ہوئے آسودۂ خاک ہوگئے۔ ان تمام نفوس قدسیہ نے کہیں بھی کسی بھی فرد کو ایک طمانچہ نہیں مارا چہ جائے کہ تلوار کا استعمال! سلطان الہند خواجہ غریب نواز نے پیار کی دھرتی بھارت ورش میں میں محبت کا ایسا شجر لگایا کہ آج بھی لاکھوں بندگان خدا وہاں دیوانہ وار آتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے بھی محبت کی جہاد کے لیے، امن کے لیے، مساوات کی خاطر، پھر کیا تھا محبت کی بہاریں آئیں، اسلام کا پھول کھلا، جہاں جہاں جہاد ہوگا وہاں امن ہوگا، محبت ہوگی، جہاد میں کبھی بھی انسان کا خون نہیں ہوسکتا۔ اسلام کی تاریخ میں بابر کی تلوار اور شہاب الدین غوری کی جنگ سے جہاد کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب روس کی لال فوجوں نے افغانستان پر قبضہ کرلیا تو امریکہ نے اسلام کی اس قابل احترام اصطلاح کا غلط استعمال کیا۔ اس سے امریکہ نے دوہرا فائدہ اٹھایا۔ ایک تو روس کی لال فوج کو شکست دے دی دوسرے جہاد اور مجاہدین کو بہت خوبصورتی سے دہشت گرد کے زمرہ میں لا کھڑا کردیا اور پھر دنیا کو بتایا کہ یہ ہے اسلام کا جہاد جس میں بے گناہوں کو مارا جاتا ہے، املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام کی تعلیمات بالکل اس کے برعکس ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا۔ جہاد تو خلفائے راشدین نے بھی کیا، صحابہ کرام نے بھی کیا لیکن تاریخ ان پر دہشت گردی کا الزام عائد نہیں کرتی۔ جہاد اور مجاہد کی صحیح تصویر صرف خلفائے راشدین و صحابہ کرام اور غزوات رسول میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جب امریکہ و صہیوبی طاقتوں نے پاکستان کی سرزمین پر طالبان علوم نبوت کو سعودیہ عربیہ کے پیسے سے تربیت دینا شروع کیا تو پاکستان کے علماء نے اس کی مخالفت نہیں کی اور جب مجاہدین روس کی لال فوج کے خلاف برسرپیکار تھے تو علماء کرام نے ان کی تائید کی تھی قطع نظر اس کے یہ نام نہاد مجاہدین اسلام کے تصور جہاد اور اصول جہاد سے کتنا واقف تھے اور اس پر عمل پیرا تھے۔ وہ بھی ایک طرح دہشت گردی تھی جس میں افغانستان کے نوجوانوں، عورتوں، بچوں کو شہید کیا گیا، آخرکار روس کی لال فوج واپس چلی گئی پھر مجاہدین اور طالبان میں جنگ ہوئی تو امریکہ اور یہودیوں نے اس کو بھی جہاد کا نام دے دیا جس کی ہاں میں ہاں علمائے اسلام نے ملائی۔ یاد رہے کہ یہی طالبان اور مجاہدین کی ترقی یافتہ شکل افغانستان، پاکستان سمیت دنیا کے کئی حصوں میں برسرپیکار ہے اور بے گناہوں کے قتل، بم دھماکہ، شب خون کو اسلامی جہاد کہہ کر بدنام کر رہے ہیں۔ اہل اسلام کبھی بھی ذات الٰہی سے مایوس نہیں ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے حقیقت یہ عیاں یورش تاتار سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
’طالبان‘ اسلامی تاریخ و تعریف میں ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جو علوم نبوت کے سرچشموں سے سیرابی کے لئے تعلیم گاہوں میں جاتے ہیں۔ یہی افراد کبھی مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں آیا کرتے تھے کبھی نظام الملک طوسی کے مدرسہ نظامیہ میں آیا کرتے تھے، یہیں امام غزالی پروان چڑھے تھے، آج بھی علوم نبوت کے سرچشمے جاری ہیں، طالبان علوم نبوت دیوانہ وار آتے ہیں اور آئندہ قیامت تک آتے رہیں گے۔
آئیے بات کرتے ہیں خلافت کی اصطلاح کی۔ خلافت اسلام میں پورے طور سے انتخابی عمل سے گزرنے کے بعد وجود میں آتی ہے۔ اس کا اطلاق صرف خلافت راشدہ پر ہوگا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد پوری بنی امیہ کی حکومتیں بادشاہت کا ایک روپ تھیں جس میں باپ کے بعد اس کا بیٹا خلیفہ بن جاتا تھا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق جن کا زمانہ عہد خلافت 11ھ تا 13ھ مطابق 632ء تا 634ء ہے حضور کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد انتخاب کے عمل سے گزرنے کے بعد وہ خلیفہ بنے تھے اور خلافت کا وجود عمل میں آیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق کو کسی ایک شخص یا تنظیم نے خلیفہ نہیں بنایا تھا، نہ ہی کسی ایک شخص یا تنظیم نے خلافت قائم کی تھی۔ حضرت ابوبکر کی وفات 22 جمادی الثانی 13ھ مطابق 13اگست 634ء میں ہوئی اور انھیں رسول اللہ کے جوار میں دفن کیا گیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سانحہ ارتحال کے بعد حضرت عمربن الخطاب انتخاب کے عمل سے گزر کر خلیفہ بنے۔ ان کو بھی شخص یا جماعت نے خلیفہ نہیں بنایا، آپ کا عہد مبارک 13ھ تا 23ھ مطابق 634ء تا 644ء ہے۔ ان کے عہد خلافت میں جزیرۃ العرب اور اس کے باہر اسلام تیزی سے پھیلا۔ حضرت عمر فاروق کی شہادت کے بعد یکم محرم 24ھ میں حضرت عثمان بن عفان بذریعہ انتخاب خلیفہ بنے۔ ان کو بھی کسی شخص یا کسی ایک جماعت نے خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ بذریعہ انتخاب خلیفہ بنے۔ آپ کا انتخاب جمہور مسلمانوں نے کیا، کسی ایک شخص یا جماعت نے آپ کو خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ آپ کی ولادت ہجرت سے تیس سال پہلے ہوئی تھی۔ آپ سرور کونین حضرت محمد رسول اللہ کے چچازاد بھائی اور داماد ہیں، حضور کے سایہ تربیت میں پروان چڑھے تھے۔ اعلان نبوت پر کمسنوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ ہجرت کی شب حضور اکرمؐ کے بستر پر سوئے، غزوۂ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک سفر رہے، غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اہل بیت کی حفاظت کے لیے چھوڑا تھا۔ آپ کا عہد خلافت 35ھ تا 40ھ مطابق 656ء تا 661ء ہے۔ یہ دور اسلامی تاریخ کا انتہائی پرآشوب اور پرفتن دور تھا۔ اسی زمانہ میں مرکزِ خلافت مدینہ منورہ سے کوفہ منتقل ہوا جبکہ دارالخلافہ کے مدمقابل ایک دوسرا سیاسی مرکز دمشق میں تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ ختم ہوئی:
خون سے سینچا ہے اس کو جن لوگوں نے
باغ جنت کے وہ حقدار نظر آتے ہیں
جواب دیں