مذہب اسلام نے ابتداء ہی سے سلامتی اور امن آمان کے قیام کے لئے ظلم و بربریت کو بھی برداشت کرنے کا درس دیا ہے لیکن جب ظلم و بربریت اتنی بڑھ جائے کہ اس کا جواب ناگزیر ہوتو پھر جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ اور آپﷺ کے برگزیدہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین نے جس طرح مذہب اسلام کو عجز و انکساری،پیار و محبت ، ادب و احترام کے ذریعہ مختصر سے عرصہ میں دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلایا اس تاریخ کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اسلام کے نام پر دہشت گرد اپنی بات منوانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر واقعی طالبان سچے مسلمان ہیں تو انہیں اسلامی تعلیمات کو مدّنظر رکھ کر زندگی کے اصول و ضوابط اپنانے ہونگے۔ آج جس طرح افغانستان، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے ذریعہ عام لوگوں کے علاوہ قوم کی خدمت کرنے والے اداروں کے افراد بشمول سیکیوریٹی عہدیداروں اور دیگر ذمہ داروں کو نشانہ بناکر ہلاک کیا جارہا ہے اس کی اجازت مذہب اسلام نہیں دیتا۔ ہاں اگر طالبان مذہب اسلام کا حوالہ دےئے بغیر کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں تو یہ الگ بات ہے ۔ لیکن جب اسلامی شناخت بتاتے ہوئے ، اپنے آپ کو اسلام کا حقیقی سپاہی بتاکر ، ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کا حوالہ دے کر دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں تو یہ مذہب اسلام کی توہین ہوگی۔ بے شک اسلام نے جہاد کا حکم دیا ہے۔ لیکن آپ کا جہاد کہاں تک حقیقت پسندانہ ہے ، طالبان قیادت کو اسکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔کسی بھی شخص کو مالی مددیا جھوٹ پر مبنی باتوں سے ورغلا کر اسلام کی غلط تشہیر کرکے خودکش حملوں کے لئے تیار کرنا مذہب اسلام کے خلاف ہے۔ دشمنانِ اسلام پہلے ہی، اسلام کی حقیقی صورتحال کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اسلامی حکومتوں کا شیرازہ بکھیرنے میں دشمنانِ اسلام نے جن سازشوں کو اپنایا ہے ان میں سے ایک سازش کا حصہ آج طالبان کی سرگرمیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ اگر طالبان قرآن و احادیث نبوی ﷺ کی تعلیمات حاصل کئے ہوئے ہیں تو وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام میں جہاد کا حکم کب اور کن صورتوں میں دیا گیا ہے۔ کراچی اےئر پورٹ پر طالبان کی جانب سے کیا گیا حملہ اور سیکیوریٹی فورسس کی جانب سے جوابی کارروائی کے دوران 29افراد بشمول دس دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ اےئر پورٹ سیکیوریٹی فورس (اے ایس ایف)، رینجرس، پولیس اور فوج نے کراچی ہوائی اڈے پر دہشت گردوں کے حملے کی جس طرح مردانہ وار کارروائی کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے اس کے لئے پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان فضل اللہ گروپ کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کراچی ہوائی اڈے پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملہ کالعدم تنظیم کے امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ ہے۔ منگل کے روز بھی اے ایس ایف کوارٹراور کراچی ہوائی اڈے کے قریب فائرنگ کی گئی ۔یہ ایک الگ نوعیت کا واقعہ ہے جسے میڈیا کے ذریعہ دوسرا حملہ کہہ کر اچھالا گیا تھا۔تاہم سیکیوریٹی عہدیداروں نے فوراً اس فائرنگ کے واقعہ کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوا تھا لیکن یہ کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر تعطل کا شکار ہوگیا۔ اب جبکہ کراچی ہوائی اڈے پر حملہ کی ذمہ داری طالبان کی جانب سے قبول کئے جانے کے بعد ہوسکتا ہے کہ پاکستانی فوج کوئی بڑی کارروائی کرے۔ ویسے افغانستان کی سرحد تیراہ پر شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر پاکستانی فوج نے حملہ کیا ہے جس میں 15شدت پسند وں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ پاکستانی حکومت نے اس بات کا پہلے ہی اشارہ دیا تھا کہ اگر طالبان کے ساتھ بات چیت کا ماحول خوشگوار طریقہ سے حل ہوتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پاکستانی حکومت اور فوج طالبان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔ پاکستانی حکومت کے لئے یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کراچی ہوائی اڈے پردہشت گرانہ حملے اور جوابی کارروائی میں کوئی بھی بین الاقوامی فلائیٹ اور مسافر کو گزند نہیں پہنچی۔ کراچی ہوائی اڈے پر حملے کے بعد پاکستانی طالبان نے انتباہ دیا ہے کہ یہ ابتداء تھی جبکہ مزید حملے کئے جاسکتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے جس طرح کا بیان دیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ارادے ، حکومت پاکستان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کے نہیں ہے جبکہ پاکستانی طالبان کی جانب سے حکومت پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل میں سنجیدہ نہیں ہے۔کراچی ہوائی اڈے پر کئے گئے حملہ کی ذمہ داری طالبان کی جانب سے قبول کرلی گئی ہے ورنہ بعض پاکستانی میڈیا چینلس کی جانب سے ہندوستان پر الزام عائد کئے جانے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ حافظ سعید نے اس سلسلہ میں اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہیکہ دشمن ملک ہندوستان کے ساتھ پاکستانی حکومت تعلقات نہ بڑھائیں۔ حافظ سعید نے جس طرح غیر ذمہ دارانہ بیان جاری کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نئی مرکزی حکومت کے درمیان خلش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اس کے لئے وہ قابلِ مذمت ہے۔ حافظ سعید کوکیا نہیں معلوم کہ پڑوسی ملک ہندوستان میں 25کروڑ سے زائد مسلمان رہتے ہیں ۔ اگر حافظ سعید اپنا بیان ایک مسلمان کی حیثیت سے دےئے ہیں تو یہ قابلِ مذمت ہے کیونکہ ایک مسلمان کو مصلحت پسندی اور ذمہ داری سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔جبکہ ان کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ہندوستان میں اتنی بڑی مسلم آبادی کو ان کے بیان سے نقصان پہنچنے کا خدشہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ویسے حافظ سعید کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ہند و پاک کے درمیان تعلقات ان ہی جیسے سماج دشمن عناصر کی وجہ سے کشیدہ رہے ہیں۔ پاکستان میں جس طرح کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عوام کے دلوں میں نفرت پیدا ہورہی ہے اسی طرح عالمی سطح پر بھی طالبان تحریک کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پیدا ہوجائے گی۔ اسی لئے طالبان قیادت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردانہ کارروائیوں سے اجتناب کریں۔ ملک کی سلامتی اور پر آمن فضاء کو مکدر ہونے سے بچائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کا ہر شہری اپنی ذمہ داری کا حق ادا کریں۔
بلوچستان اور ایران کی سرحد کے قریب تفتان کے مقام پر ہوٹل میں قیام کئے ہوئے شیعہ زائرین پر حملہ کیا گیا جس میں 34افراد بشمول خواتین ہلاک ہوگئے۔ پاکستان میں شیعہ ، سنیوں کے درمیان جان لیوا حملے کئے جاتے رہے ہیں۔یہ حملے کبھی عام مقامات پر ہوتے ہیں تو کبھی عباتگاہوں، قبرستانوں وغیرہ میں انجام دےئے جاتے ہیں ان حملوں کی وجہ سے عباتگاہوں کی حرمت بھی پامال ہوتی رہی ہے ۔مسلمان مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے پر حملے کرتے ہوئے جان کے دشمن بن رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج دشمنانِ اسلام کو موقع فراہم ہورہا ہے اور وہ آج کے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ اسلام کے خلاف کہنے کی جسارت کررہے ہیں۔ کہیں شیعہ سنی کے درمیان حملے ہورہے ہیں تو کہیں شدت پسندوں کی جانب سے حملے کئے جارہے ہیں۔ اس طرح اسلام کی شبیہہ کوبعض شدت پسند مسلمان ہی بگاڑ رہے ہیں ۔ اسلام کے تشخص کو بحال رکھنے کے لئے مسلمانوں کو خود ایک دوسرے کی عزت و احترام کرنا ہوگا۔ پاکستان کی طاقت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن کالعدم تنظیم تحریک طالبان اور شیعہ سنی حملوں نے پاکستان کی ساکھ کو عالمی سطح پر متاثر کرکے رکھ دی ہے۔ آج پاکستان کا نام دہشت گردی کو پنپنے اور اسے تقویت پہنچانے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جس ملک میں ایٹمی طاقت ہو وہی ملک اپنے اندرونی معاملات میں خلفشار کا شکار ہو، جہاں کے عوام ایک دوسرے کے جان کے دشمن ہوں اس ملک سے دوسرے ممالک کیا توقعات وابستہ کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ممالک پاکستان کی طاقت کو مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستانی حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہیں اپنے فیصلے سے انحراف کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی حکمراں اور فوجی قیادت پڑوسی ممالک خصوصاً ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں تو دونوں ممالک کے تعصب پرست اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل افراد اور بعض میڈیا چینلس ان میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے بیان بازی کرنے میں سبقت لیجاتے ہیں۔ آج پاکستان میں مسالک کی بنیاد پر جو جھگڑے ہورہے ہیں، طالبان جس طرح اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کرتے ہوئے پرامن فضاء کو پراگندہ کررہے ہیں اس پر قابو پانے کی پاکستانی حکومت اور فوج کو ضرورت ہے۔اور اسی وقت پاکستان ہر میدان میں ترقی کرسکتا ہے۔آج پاکستان میں مسالک کی بنیاد پر جھگڑے ہوتے ہیں تو کہیں پر لوٹ مار، فائرنگ، چاقو زنی، ڈکیتی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں امن و ضوابط کی صورتحال کو مجموعی طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان واقعی اسلامی جمہوری ملک ہے تو اسے اسلامی اصولوں پر کاربند ہونے کی ضرورت ہے ، عوام میں دینی شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے ، اسلامی تعلیمات سے نابلد ہونا ہی جاہلت اور قتل و غارت گیری پر ابھارتا ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے اسلامی تعلیمات کو ضروری قرار دیا گیاتو بے شک بہت جلد پاکستانی حالات میں سدھار پیدا ہوگا۔ کاش تحریک طالبان پاکستان اسلام کی حقیقی صورتحال کو پیش کرتے ہوئے مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے پاکستانی عوام کو اپنا گرویدہ بناتی اور پاکستانی عوام کی سلامتی اور تحفظ کے لئے کام کرتی، برخلاف اسکے وہ دہشت گردی کے ذریعہ ملک میں پر امن فضاء کو خراب کرنے کی سعی کررہی ہے۔ طالبان اور حافظ سعید جیسے افراد انتشار کے بجائے محبت و بھائی چارگی کی فضاء قائم کرتے ہوئے اسلام کی صحیح ڈھنگ سے تبلیغ کرتے تو آج پاکستان کی صورتحال کچھ اور ہی ہوتی۰۰۰لیکن آج ان کے اقدامات اسلام اور مسلمانوں کی شبیہہ کو مسخ کرنے کا سبب ہیں
جواب دیں