بقلم:ام ہشام،ممبئی
انسان وہی ہے جو اپنی خانہ بدوش طبیعت سے باہر نکل کر اپنی حیثیت کے لئے کوئی مستقل ٹھکانہ بنائے۔اور اس کی تیاری کی خاطر اپنے آپ کو نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش کرتا رہے۔اور یقیناً انسان یہ عمل کرتا بھی رہتا ہے اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کے ختم ہوجانے تک اس کے معیارات اور ترجیحات تبدیل ہوتے رہتے ہیں وہ مسلسل اپنی صلاحیتوں کا جِلا دینے میں لگا رہتا ہے۔لیکن اس تگ و دو میں جو سب سے اہم کام اس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔وہ یہ کہ ظاہری صلاحیتوں کی نشو و نما کو بھول جاتا ہے۔ انسان ظاہر کوسنوارنے کی خاظر لاکھوں جتن کرتا ہے لیکن باطن کی نشو و نما کو بھول جاتا ہے۔انسان ظاہر کو سنوارنے کی خاطر لاکھوں جتن کرتا ہے لیکن باطن کی اصلاح کے لئے ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھاتا،کبھی اپنے احوال کمیوں کو تاہیوں پر نظر نہیں کرتا۔
تبدیلی آسکتی ہے یا نہیں؟
غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کے ایسا کرنے کے پیچھے کچھ اہم وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان کا ذہن ہی کبھی اس طرف نہیں جاتا کہ اسے اپنے اندرون اخلاق و کردار کی بھی مرمت کی چاہئے۔گر چاہتا بھی ہے تو آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرپاتا کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ یہ اخلاق و کردار تو قدرت کی طرف سے عطا کئے گئے ہیں ان میں ترمیم کیسے کی جا سکتی ہے؟
لیکن اس بات کا صحیح جواب یہ ہے کہ ہر انسان فطرتاً سلیم الطبع،موحد ہی پیدا ہوتا ہے،لیکن پھر اس کے والدین،اس کا ماحول اور دیگر عوامل اسے مختلف حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں اور اس کی شخصیت کو خلط ملط کردیتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ،فأبواہ یھودانہ او ینڈرانہ او یمجسناہ ،ترجمہ: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے ہیودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں (صحیح البخاری:1358ِصحیح مسلم:2658)اس حدیث میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ انسانی فطرت میں تبدیلی کی قابلیت موجود ہے۔تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا َقد افلح من زکاھا(9) و قد خاب من دساھا ،ترجمہ: یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا (سورۃ الشمس9-10)اور نفس کا تزکیہ ہی در اصل ادب ہے،جس کے حصول کی کوشش کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے۔
انبیاء و رسل کی تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ بھی ان پر ایمان لائے انہوں نے اپنے ایمان سے پہلے کے عادات و اطوار میں تبدیلی لائی،اور اسلامی آداب و اخلاق کو اپنایا،لہٰذا جو شخص بھی اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ادب و اخلاق کے حصول کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کرتا ہے۔وہ بلا شبہ ادب کی دولت سے مالا مال ہوگا اور اس کے اخلاق و کردار میں تبدیلی ضرور آئے گی۔اگر اخلاق و کردار میں تبدیلی ممکن نہ ہوتی تو انبیاء و رسل کو بھیجنا اور ان پر کتابیں اور شریعتیں اتارنا سب کچھ شاید لاحاصل تھا۔
یہ بات کتاب و سنت سے بھی ثابت شدہ ہے اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ کہ انسان دوسروں کے ساتھ جس اخلاق سے پیش آتا ہے وہاخلاق در اصل اس کے اندر ونی ایمان و عقیدہ کا نتیجہ ہوتے ہیں کیونکہ اچھے اخلاق اعمال کا ایک اہم حصہ ہیں:اکمل المؤمنین ایمانا ً احسنھم خلقاً (ابو داؤد4682) اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں،جس کی تائید حدیث ِرسول بھی کررہی ہے تو ہمیں لازماً اور عاجلاًکسی بھی عمل سے پہلے اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کے لئے کوشش شروع کردینی چاہئے۔
انسان کو چاہئے کہ مشکل ترین اور حوصلہ شکن حالات میں بھی وہ اپنی اصلاح سے مایوس نہ ہو۔گر اسے اپنی خٓمیاں اور غلطیاں نظر آرہی ہیں اور اسے بخوبی اس کا ادراک بھی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہاس کا شعور ابھی بھی زندہ ہے،اس کا ایمان ابھی بھی اس کے نفس لوامہ میں سانسیں لے رہا ہے،تو ایسے میں غمگین ہوکر ڈھے جانے کا وقت نہیں،بلکہ دکھو اور ناامیدی سے نکل کر بغیر وقت گنوائے اپنی اصلاح شروع کرنے کا وقت ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے اسے اپنے مزاج اور اخلاق میں تبدیلی لانا کوئی پہاڑ سر کرنے جیسا معاملہ نہیں۔اگر مختلف النوع حیوانات دوسرے مختلف حیوانات کے ساتھ ان کی پرورش و تربیت میں ڈھل کر ان جیسے بن سکتے ہیں تو انسان کیوں نہیں؟
بکری کے باڑے میں پلنے والا شیر کا بچہ بکریوں جیسے چال چلن اپنا لیتا ہے،جبکہ اس کی فطرت وحشی درندوں کی ہوتی ہے تو سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اگر جانور ٹریننگ اور تربیت سے اپنی فطرت سے تبدیل ہوسکتے ہیں تو پھر انسان کیوں نہیں؟
دنیا کے تمام مذاہب کا اخلاقیات کے تعلق یہی پیغام عام رہا ہے۔اگر باطل ادیان نے بھی اچھے اخلاق کی تعلیم دی ہے تو اسلام تو سب سے اعلیٰ و اولیٰ دین ہے۔ اس لئے اخلاق کو سنوارنا،نکھارنا،رذائل اور عادات قبیحۃ کو دور کرنا اگر ناقابل عمل اور بے نتیجہ ہوتا تو اس کا حکم ہر گز نہیں دیا جاتا کیونکہ شریعت اللہ کی اجازت سے نازل کردہ ہے،لہٰذا اس کا کوئی حکم عبث نہیں ہوسکتا۔
جیسے اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:انما العم بالتعلم،و انما الحلم بالتحلم،من یتحری الخیر یعطہ،و من یتق الشر یوقہ،وحسنہ الالبانی فی سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ تحت رقم (342)
اسی طرح اللہ کے نبی کی یہ دعا:اھدنی لاحسن الاخلاق لایھدی لاحسنھا الا انت و اصرف عنی سیئھا لایصرف عنی سیئھا الا انت بہتری اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ تیرے سوا اور کوئی بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دے کیونکہ بجز تیرے اور کوئی بد اخلاقی سے مجھے نہیں بچا سکتا۔(مسلم کتاب:6باب 262حدیث)
اخلاقی تبدیلیاں کیوں؟
دنیا کی تمام ذمہ داریوں سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کر لے کیونکہ اس کے عادار و اطوار پر ہی اس کی دنیا اور آخرت منحصر ہے۔وہ جس قدر حساس،متواضع،ملنسار،نرم خو ہوگا اس دنیا میں وہ لوگوں کے درمیان ان کے دلوں میں بڑی آسانی سے اپنی جگہ بناتا چلا جائے گا اور یہ ظاہرسی بات ہے کہ جب اس کے تعلقات لوگوں سے خوشگوار ہوں گے تو اسے دنیا میں بھی فائدہ حاصل ہوگا اور اخروی زندگی میں بھی ملے گا۔
ابتداء کہاں سے ہو؟
جہاں بات ہورہی ہے اخلاق و کردار کو سنوارنے کی تو پھر فوری طور پر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اتنے مشکل کام کی ابتدا کہاں سے ہو؟کون کون سے کام کیے جائیں؟کیسے کیے جائیں؟اور کب کیے جائیں؟کیا حکمت عملی اپنائی جائے جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔
سب سے پہلے انسان اپنا کردار متعین کرے کہ جن لوگوں کے ساتھ وہ اٹھتا بیٹھا ہے ان کے تئیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہوجائے کہ اس کے آ س پاس بکھرے رشتوں میں اس کی ضرورت،وسعت اور حدود کہاں سے کہاں تک ہیں؟اسے کس طرح اپنی ذمہ داری محبت اور لگن کے ساتھ نبھانی ہے تاکہ رشتوں کے معاملے میں اسے زندگی کی غیر ضروری الجھنوں سے بھی راحت حاصل ہو۔
انسان کی بد اخلاقیوں کی ایک بہت بڑی وجہ اس کی اپنی وہ کمیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں جنھیں وہ اپنوں کے لئے پوری طرح انجام نہیں دے پاتا۔لہٰذا پہلے اپنے رول لکھیں پھر اپنے گول لکھیں۔اور جب تک آپ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے انجام نہیں دیں گے اس وقت تک آپ کے اندر کڑھن،چبھن اور تکلیف موجود رہے گی جو آپ کو اپنی ذات پر کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
دوسروں کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے انسان اب اپنے آپ پر کام کرنا شروع کردے۔شخصیت کو بیلنس کرنے اور اخلاق میں بہتر تبدیلی لانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ان چار چیزوں میں توازن رکھنا سیکھ لے اور حسب ضرورت ان کی تربیت بھی کرے:جسم،عقل،روح،جذبات
(۱)جسمانی تربیت: کہا جاتا ہے کہ انسان جو کھاتا ہے وہی بن جاتا ہے،لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اپنی حشخصیت میں توازن کی خاطر اپنی کھانے پینے کی عادات میں سب سے پہلے سدھارلائے تاکہ اس کا جسم فاضل،فاسد اور مضر مادوں سے محفوظ رہ سکے اور اس کی طبیعت میں تیزی و ترشی نہ آنے پائے۔
کم کھانے سے آدمی کے دل میں رقت و نرمی منکسر المزاجی پیدا ہوتی ہے اور نفسانی خواہشات اور غصہ میں بھی کمی واقع ہوتی ہے جب کہ شکم سیری انسان کے اندر بے شمار برائیاں پیدا کرتی ہے،اس کے نتیجے میں آدمی کے اندر معاصی کی طرف رغبت اور خواہش پیدا ہوتی ہے۔
لہٰذا حاصل کلام یہ ہے کہ جو اپنے پیٹ کے شر و برائی سے نجات پاگیا وہ ایک بڑے شہر سے نجات پاگیا۔یہاں ابراہیم بن ادھم کا قوم قابل ذکر ہے ”جسے اپنے پیٹ پر قابو حاصل ہوگیا اسے اپنے دین پر قابو حاصل ہوگیا،اور جس نے اپنی بھوک پر غلبہ پالیا اسے اخلا ق عالی حاصل ہوگئے“،کیونکہ ”بھوکے آدمی سے اللہ کی معصیت دور اور شکم سیر سے قریب رہتی ہے“۔
جسمانی خیال رکھنے سے مراد یہ ہے کہ انسان زیادہ سونت اور زیادہ کھانے سے پر ہیز کرے،کیونکہ ہر چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے ایک توانا جسم اللہ کی دی گئی سب سے بڑی نعمت ہے۔”لنفسک علیک حقاً“کے تحت انسان اپنے جسم کی صفائی ستھرائی کا بھی خوب خیال رکھے،یہ سنت رسول ﷺ ہے کہ مومن پاکیزگی کے اعلیٰ معیار پر قائم رہے۔ جسم کو ہر طرح کی آلودگی سے بچا کر رکھا جائے خواہ وہ آلودگی حرام خوری کی ہو یا پھر نشہ خوری کی۔
جو انسان خود کو اور اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتا ہو لازم ہے کہ وہ اپنے جسم کا خیال رکھنے والا ہو کیونکہ اس کے معاملات اور تعلقات کا سیدھا تعلق اس کی طبیعت اور مزاج سے ہے اور ان کا تعلق اس کی خوراک اور روز مرہ کے مشغلے سے ہے۔ ہلکی پھلکی غذا لے اور متحرک زندگی جیے تاکہ زندگی کو بوجھل بنانے کے بجائے ہلکی کر سکے۔
(۲)عقلی تربیت: اخلاقی اصلاح کی خاطر یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی عقلی نشو و نما پر دھیان دے۔جیسے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو لیکن پڑھتا رہے،سیکھتا رہے،علم حاصل کرتا رہے۔اور اس کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے مطالعہ اور کتب بینی۔مطالعہ کے جہاں ان گنت فوائد ہیں ان میں ہمارے لئے سب سے قابل ذکر فائدہ یہ ہے کہ مطالعہ ذہنی تناؤ دور کرتا ہے۔
2009میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مطالعے کی عادت ذہنی تناؤ اور پریشانی کو 68فیصد کم کرتی ہے۔ڈاکٹر کے مطابق مطالعہ انسان کو پریشانیوں اور فکروں سے آزاد کراتا ہے۔اس کے علاوہ شعور اور سوچ کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دیتا ہے۔تو اس سے ثابت یہ ہوا کہ انسان جب تناؤ سے آزاد ہوگا تو اس کا رویہ ہر کسی سے خوشگوار ہوگا اور اسے دوسروں کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم ہوگا کیونکہ یہ بات بھی تحقیق شدہ ہے کہ کتب بینی ذہنی انحطاط کو روکتی ہے۔مطالعہ کے عادی افراد سماج میں بہترین تعامل پیش کرتے ہیں اور اپنے نظریات،عقائد،خواہشات اور سوچ کو بہتر انداز میں دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں۔
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنی عقلی پرورش کرتے وقت سب سے پہلے دنیا کی عظیم اور موٹیویشنل کتاب و شبہ قرآن کریم کے علاوہ کوئی اور کتاب ہو ہی نہیں سکتی۔یہ کتاب صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والی،دکھی دلوں کا سہارا اور ڈھارس بندھانے والی کتاب ہے اور حرف بحرف اس میں سچے وعدے اور خوش خبریاں ہیں جو ہر طرف سے مایوس انسان کے لئے صحرا میں بادل کی نوید کا کام کرتے ہیں۔انسان کو مایوسی کت گھیرے سے باہر نکال کر لاتے ہیں اور ایک عام سے انسان کو رحمٰن کا بندہ بناتے ہیں۔
اس کے علاوہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے شوق اور ضرورت میں فرق ملحوظ رکھے بلاوجہ خود پر خواہشات کا بوجھ لے کر نہ پھرے ورنہ خواہشات کی عدم تکمیل اسے اور بد مزاج اور چڑ چڑا بنانے والی ہوسکتی ہے، مثبت سوچ کے ساتھ مثبت لوگوں کے درمیان اپنے وجود کی پہچانبنائے رکھے۔
اسی طرح انسان عمدہ اخلاق کے فضائل اور اس کے فوائد پر اپنی نظریں گاڑ کر رکھے تاکہ وہ ان کا حریص بن جائے اور ہر قیمت پر انہیں اپنانے کا متمنی بن جائے اور بد اخلاقی کے انجام یعنی بد نامی،رسوائی اور حقارت بھرے رویوں کو نگاہ میں بطور عبرت رکھے تاکہ وہ بد اخلاقی سے بچ سکے۔پختہ عزم اور مضبوط ارادے کے ذریعہ اپنی زندگی میں بہتر تبدیلی یقینی طور پر لائی جا سکتی ہے۔
(۳) روحانی تربیت: اخلاق میں سدھار اور تبدیلی لانے کے لیے یہ امر سب سے ضروری ہے کہ انسان اپنی روحٓنی تربیت کے ذریعے اپنی اخلاقی کمیوں کو پر کرے۔جس کے واسطے یہ لازم ہے کہ انسان کا اپنے خالق سے رابطہ مضبوط ہو،نماز کے ذریعے،اذکار و نوافل کے ذریعے۔انسان اگر کوئی کمی اپنے اندرون میں پاتا ہے تو اس کا تدارک کرنے کی خاطر اپنی نمازوں کو بڑھادے،انہیں خشوع و خضوع سے مزین کرے کیونکہ بے روح سجدے گر صدیوں بھی قائم رکھے جائیں تو کوئی انقلاب نہیں لاسکتے نہ ہی انسان کو ان سجدوں سے خیر و برکات حاصل ہوپاتی ہیں۔اور ایسے سجدوں کے اثرات انسانی زندگی پر اپنی کو چھاپ نہیں چھوڑ پاتے ہیں۔ لہٰذا جو حقیقی فلاح کا متمنی ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی روحانی تبدیلی پر خاص اہتمام کرے کیونکہ یہی اصل اخلاقی تبدیلی ہے۔ قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون (سورۃ مومنون) کامیاب ہوگئے وہ ایمان والے جو اپنی نمازوں میں خشوع قائم کرتے ہیں۔
اخلاق کی تبدیلی کے لئے چاہیے کہ بندہ اپنی عبادات میں خشوع و خضوع پیدا کرے،کیونکہ ایک اچھی نماز کے بغیر روحانی مضبوطی اور رحمانی تعلق کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ایک بہترین نماز ایک مثالی مومن تیار کرتی ہے اور مثالی مومن کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مومن نہ تو طعنہ دینے والا ہوتا ہے،نہ لعنت کرنے والا،نہ فحش گو اور نہ زبان دراز“(جامع ترمذی1977)بد اخلاقی کی سب سے بڑی مثال گالی گلاچ اور جھگڑا ہیں۔ ایک اعلیٰ اوصاف کا مومن ان تمام برائیوں کے محاذ پر نماز کو ڈھال بنا کر چلتا ہے۔کیونکہ نماز تمام طرح کی بے حیائیوں سے روکتی ہے ایک ایسی نماز جو خشوع و خضوع کے ساتھ احسان کی صورت اداد کی گئی ہے۔ساتھ ہی توبہ و استغفار کو لازم پکڑے اور اپنے اس عمل پر استقامت رکھے۔اذکار و تلاوت کا بھی اہتمام کرے۔
ان شاء اللہ اس کی محنت شاقہ کا نتیجہ اللہ عز و جل ضرور دے گا،کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ:فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ (الزلزال7) جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔
لہٰذا جو اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کبھی نامراد نہیں کرے گا۔ جس شخص کو اچھے اخلاق پر اللہ سے اجر و ثواب کی امید ہوگی وہ یقینی طور پر اچھے اخلاق کو اپنائے گا اس پر قائم ہوگا اور دوسروں کی رہنمائی بھی کرے گا۔
اور حسن اخلاق سے متعلق آیات و احادیث کثرت سے پڑھنے اور دل میں بٹھانے سے یہ مقصد ضرور پورا ہوگا ان شاء اللہ
(۴) جذباتی تربیت:اعزہ و اقارب کے ساتھ ملنا جلنا اور بیٹھنا،تحفے تحائف کا تبادلہ اور خوشگوار ملاقاتیں کرنا اچھے اخلاق سے پیش آنا پرانی باتوں کے حوالے سے دلوں میں وسعت پیدا کرنا،یہ سب کچھ انسانی طبیعت پر انتہائی حیرت انگیز نتائج چھوڑتے ہیں،طبیعت میں ترو تازگی آتی ہے،آپس میں جذبہ انس و رحم پیدا ہوتا ہے اور اپنوں کے بیچ بیٹھنے سے انسان کو ایموشنل سطح پر بہت ہی مضبوطی حاصل ہوتی ہے،آپسی کدورت صاف ہوتی ہے اور انسان بیرونی دنیا کی ہزاروں پریشانیوں سے نجات پاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے اخلاق میں عمدگی اور نرمی پیدا ہوتی ہے،جس کی خوشی اور اس کے واضح اثرات انسان کے چہرے اور لہجے سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
اپنے اخلاق میں رقت اور لازمی پیدا کرنے کی خاطر انسان کو چاہیے کہ وہ غرباء،مساکین اور سماج کے دبت،کچلے لوگوں سے بھی سلام دعا کرتا رہے،انہیں تحائف دیتا رہے،یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھے ان کا مربی بنے۔یہ کچھ ایسے کام ہیں جن پر آپ یقین رکھ کر پڑھیں۔
ان امور کو انجام دینے سے بے انتہاء سکون حاصل ہوتا ہے،دل کی سختی کم ہوتی ہے اور دل و دماغ اور جذبات میں تواضع اور انکسار پیداہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی درشتی اور کھردرا پن جیسی عادتیں ختم ہوتی ہیں۔اپنے سے کمتر لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا اور خو دسے بڑے لوگوں کے ساتھ توقعات کے بغیر ملنا یہ یقیناً عظیم لوگوں کاکام ہے۔اور آپ کو وہ عظیم انسان بننا ہے۔
یہ سب کچھ کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔آپ بلند ہمت ہیں یہ تحریر آپ ہی کے نام ہے اور جو بلند ہمت ہوتے ہیں وہ ہمیشہ بلندیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کم ہمت لوگ پستی پر راضی رہتے ہیں۔ایک بلند ہمت انسان اپنی ہمت کے بل بوتے اخلاق کی اعلیٰ سطح پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے اس دنیا میں باعزت زندگی نصیب ہو اور موت کے بعد اس کا ذکر جمیل اور خوشنما یادیں لوگوں میں قائم رہیں اور اس دنیا کے بعد کی اکروی زندگی میں جنت کی نعمتیں اللہ کی رضا اور اس کے رخ مبارک کا دیدار اس کو حاصل ہوں۔تو آئیے ہم سب اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
14جنوری 2020
جواب دیں