اصلاح و تربیت کے عجب طریقے

بزرگ نے اس عورت کی بات سن کر اس سے فرمایا کہ دو تین دنوں کے بعد آنا تب میں اس بچے سے بات کروں گا۔
وہ عورت دو تین دنوں کے بعد بچے کو لے کر ان بزرگ کے پاس پہنچی اور ان سے درخواست کی کہ بچے کو نصیحت فرمادیں ۔بزرگ نے بچے کو سمجھاتے ہوئے اس سے کہا کہ بیٹا بہت زیادہ گڑ نہیں کھانا چاہئے ۔اس سے آپ کو نقصان ہو سکتا ہے ۔ 
بچے کی ماں کو بزرگ کی اس بات پربڑی حیرت ہوئی کہ اتنی سی بات کے لئے انہوں نے دو تین دنوں کے بعد آنے کے لئے کہا جبکہ یہ بات تو وہ پہلے ہی دن کہہ سکتے تھے ۔اس عورت نے اپنی الجھن کو بزرگ سے بیان بھی کردیا اور ان سے اس کی وجہ دریافت کرنے لگی ۔
بزرگ نے اس عورت کی الجھن دور کرتے ہوئے فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں خود بہت زیادہ گڑ کھاتا تھا ۔اس لئے بچے کو اس بات سے کیسے منع کرتا جسے میں خود کرتا تھا ۔چنانچہ میں نے دو تین دن کے بعد آنے کے لئے کہا اور میں نے اسی دن سے گڑ کھانا چھوڑ دیا ۔اب جب تم بچے کو لے کر آئیں تو میں نے اس سے گڑ کھانے کے لیے منع کیا ۔
۰ حکیم محمد ایوب صاحب (مرحوم)علاقے کی جانی مانی ہستی تھے ۔اللہ تعالی نے انہیں ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا تھا ۔وہ تحریک اسلامی کے فعال سپاہی تھے ۔ایک بار ان کے ایک دوست نے ان کو خبر دی کہ آپ کا فلاں بیٹا سگریٹ پینے لگا ہے ۔میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتادوں تاکہ آپ اس کی اصلاح کر سکیں ۔
محترم حکیم صاحب یہ بات سن کر چند لمحے خاموش رہے اور پھر بغیر کچھ بولے وہاں سے اٹھ کر گھر کے اندر چلے گئے ۔ان کے دوست باہر ہی بیٹھے رہے ۔تھوڑی دیر کے بعد حکیم صاحب باہر آئے اور اپنے دوست سے فرمایا کہ میں اپنے بچے کی اصلاح کیسے کر سکتا ہوں جبکہ میں خود اس بری لت میں مبتلاہوں ۔ممکن ہے کہ مجھے سگریٹ پیتے دیکھ کر ہی اس نے بھی سگریٹ پینا شروع کر دیا ہو ۔بہر حال اب میری آنکھیں کھل گئیں اور میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب کبھی سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا ۔میرے پاس سگریٹ کے کچھ پیکٹ گھر میں رکھے تھے ،میں ان سب کو کوڑے دان میں پھینک کر آیا ہوں ۔حکیم صاحب کے اس رویے کا اثر یہ ہوا کہ ان کے بیٹے نے بھی سگریٹ سے توبہ کر لی ۔
۰ میں ایک صاحب کے گھر بیٹھا ہوا تھا ۔ان کی ایک بچی جس کی عمر ۷۔۸؍سال رہی ہوگی اپنے ابو کے سامنے مچلنے لگی کہ مجھے نیا فراک لینا ہے ۔اس کے ابو نے اسے سمجھایا کہ تمہارے پاس کئی فراک ہیں ،اس لئے مزید فراک کی ضرورت نہیں ہے ۔مگر وہ بچی اصرار کئے جا رہی تھی کہ مجھے نیا فراک چاہئے۔بچی کی ضد کو دیکھتے ہوئے اس کے والد اسے نیا فراک دلانے پر آمادہ ہو گئے ۔تبھی کسی نے ان کے دروازے پر دستک دی ۔انہوں نے بچی کو دروازے پر بھیجا ۔بچی نے واپس آکر بتایا کہ بریلی والے ملا جی آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سردی بہت ہے ،ہمارے پاس اوڑھنے کے لئے لحاف نہیں ہے ۔بچے رات بھر سردی میں ٹھٹھرتے رہتے ہیں ،ہمیں ایک لحاف دلادیجئے ۔
صاحب خانہ نے بچی سے کہا کہ بیٹی !بتاؤ تمہیں فراک دلاوں یا انہیں لحاف ؟۔بچی نے فوراً جواب دیا کہ ابو !آپ ملا جی کو لحاف دلا دیجئے ۔سردی بہت ہے اور ان کے پاس لحاف نہیں ہے ۔میرے پاس تو کئی فراک ہیں۔چنانچہ انہوں نے بچی کے ذریعے ہی لحاف کی رقم باہر بھجوادی ۔ملا جی دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہو گئے ۔
۰ مولانا اختر احسن اصلاحی (مرحوم )مدرسۃ الاصلاح کے صدر تھے ۔مولانا جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے رکن تھے ۔دیکھنے میں نہایت سادہ اور دبلے پتلے مگر علم و عمل کے سمندر تھے ۔
مدرسہ میں شام کے وقت ایک لڑکا داخلے کے لیے آیا ۔اسے مہمان خانہ میں ٹھہرا دیا گیا ۔وہ لڑکا بہت شرارتی تھا اور اس کے گھر والوں نے اسے اس غرض سے مدرسہ بھیجا تھا کہ شاید وہاں اس کی اصلاح ہو جائے ۔وہ لڑکا ہاتھ میں لوٹا لئے باتھ روم جانے کے لئے باہر آیا ۔باہر ہینڈ پمپ کے پاس مولانا مرحوم نظر آئے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ صاحب یہاں کے صدر ہیں ۔اس نے نہایت بد تمیزی کے ساتھ مولانا سے دریافت کیا کہ باتھ روم کہاں ہے ؟۔مولانا نے باتھ روم کی طرف اشارہ کر کے اس کی رہنمائی کی ۔اب مولانا ہینڈ پمپ تک پہنچ چکے تھے اور ہینڈ پمپ چلا کر اپنا لوٹا بھرنے لگے کہ اس لڑکے نے جلدی سے لپک کر مولانا کے لوٹے کو ڈھکیلتے ہو ئے اپنا لوٹا ہینڈ پمپ کے منہ پر لگا دیا ۔مولانا اپنا لوٹا الگ کر کے اس لڑکے کا لوٹا بھرنے کے لئے ہینڈ پمپ چلانے لگے ۔مولانا آہستہ آہستہ ہینڈ پمپ چلا رہے تھے تو اس لڑکے نے مولانا سے کہا ،بڑے میاں!ذرا زور سے چلاؤ کیا کھانا نہیں کھاتے ۔مولانا سمجھ گئے کہ یہ لڑکا آج ہی آیا ہے ۔مولانا نے مسکراتے ہوئے پمپ کو تیزی کے ساتھ چلایا او ر اس لڑکے کا لوٹا بھر دیا ۔لڑکا پھر شرارت بھرے انداز میں بولا اب ہوئی نہ بات ۔
دوسرے دن صبح کو اس لڑکے کے داخلے کی کارروائی ہونی تھی ۔اس کو بتایا گیا کہ تمہیں ٹیسٹ کے لئے صدر صاحب کے کمرے میں جانا ہے ۔وہ لڑکا کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ یہاں تو وہی صاحب بیٹھے ہوئے ہیں جن کے ساتھ رات اس نے بد تمیزی اور گستاخی کی تھی ۔وہ بڑا شرمندہ ہوا اور فوراً کمرے سے باہر آگیا ۔اس کا خیال تھا کہ اب اس کاداخلہ تو ہونے سے رہا ۔
مولانا نے اس لڑکے کو دیکھ لیا اور اندر بلایا۔ بڑی محبت سے اپنے پاس بیٹھا یا۔ اس کی خیریت دریافت کی ۔ گھریلو حالات معلوم کئے ۔پھر اسے مٹھائی کھانے کو دی ۔یہ سب مولانا نے اس لئے کیا تاکہ رات کے واقعے سے اس کے اندر جو جھجھک اور احساس جرم پیدا ہوا ہے وہ ختم ہو جائے اور وہ یہ سمجھ لے کہ میں اس واقعے کی وجہ سے کسی طرح کا انتقام یا کسی طرح کی کاروائی کرنے والا نہیں ہوں ۔بہر حال کچھ باتیں پوچھ کر مولانا نے اس کا داخلہ منظور کر لیا ۔
اس شرارتی لڑکے پر مولانا کے اس اخلاق اور ان کی اس اعلی ظرفی کا بہت اثر پڑا اور وہ مولانا سے اپنی حرکت پر معافی طلب کرنے لگا ۔اس نے مولانا کو یقین دلایا کہ آئندہ اس کی جانب سے انہیں کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔وہ یہاں پوری محنت اور یکسوئی کے ساتھ پڑھے گا ۔مولانا کے حسن اخلاق اور کشادہ دلی نے پہلے ہی دن اس لڑکے کی اصلاح کر دی ۔پھر اس نے دل لگا کر تعلیم حاصل کی اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا ۔
یہ واقعہ ہمارے استاد مولانا شہباز اصلاحی (مرحوم)نے سنایا تھا ۔انہوں نے یہ واقعہ بھی سنایا :
ایک اقامتی مدرسہ میں طلبہ کے نگراں کا معمول تھا کہ وہ فجر کی اذان کے بعد چھڑی لے کر بورڈنگ (دارالاقامہ)کی طرف جاتے اور ایک ترتیب سے کمروں میں سوتے ہوئے طلبہ کو جگاتے اور پھر نماز فجر کے لئے مسجد چلے جاتے ۔نماز فجر کے بعد وہ فوراًبورڈنگ کا رخ کرتے اور دیکھتے کہ کون طالب علم ابھی تک سویا ہوا ہے ۔طلبہ عام طور پر اٹھ جاتے اور نماز فجر میں شریک ہوتے۔ایک روز انہوں نے دیکھا کہ ان کے جگانے کے با وجود ایک طالب علم چادر اوڑ ھ کر سویا ہوا ہے ۔انہوں نے اس لڑکے کے دو تین چھڑیاں رسید کردیں ۔اس طالب علم نے بہانا بناتے ہوئے نگراں سے کہا کہ مولانا، مجھے بخار ہے ۔اس کی یہ بات سنتے ہی نگراں صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں نے بغیر سبب معلوم کئے محض بدگمانی کی وجہ سے اس کی پٹائی کر دی ۔انہوں نے چھڑی ایک طرف پھینکی اور اس لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس سے معافی مانگنے لگے ۔وہ طالب علم اس صورت حال سے پریشان ہو گیا اور فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا اور مولانا صاحب کے معافی طلب کرنے پر شرمندگی محسوس کرنے لگا ۔مولانا صاحب معافی پر اصرار کرتے رہے اور کہتے رہے کہ جب تک تم مجھے معاف نہیں کروگے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔لڑکے کومجبوراً معافی کے الفاظ زبان سے ادا کرنے پڑے ۔تب انہوں نے اس لڑکے سے دوا وغیرہ کے سلسلے میں دریافت کیا اور وہاں سے چلے گئے ۔مولانا کے اس کردار کا اس طالب علم پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ اس واقعہ کے بعد اس کے اندر نمایاں خوشگوار تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں ۔
۰ مولانا شبیر احمد اصلاحی( مرحوم) جامعۃ الفلاح میں تعلیم و تربیت کی خدمت دل و جان سے انجام دیتے تھے ۔وہ جامعہ کے صدر بھی رہے ۔طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت فکر مند رہتے اور اس کے لئے ہمیشہ تدابیر سوچا کرتے ۔ایک بار انہوں نے ہماری کلاس کے سبھی طلبہ کو اپنے کمرے میں بلایا اور مٹھائی سے ان کی تواضع کی ۔سبھی طلبہ فرش پر حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ان کے درمیان ایک بڑی سی پلیٹ میں مٹھائی رکھ دی گئی ۔مولانا مرحوم نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ مٹھائی کھائیں لیکن آپ میں سے ہر شخص کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ میرے ساتھی کواس کا زیادہ موقع ملے ۔مطلب یہ کہ ہر شخص یہ کوشش کرے کہ میرا ساتھی زیادہ کھائے اور میں کم ۔عام طور سے لوگ ایسے مواقع پر دوسروں کو ترجیح دینے کے بجائے خود زیادہ سے زیادہ اور سب سے پہلے مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔مولانا نے اس عادت کو ترک کرنے کے لئے اس عملی تربیت کا نظم کیا ۔مولانا مرحوم اکثر اسی طرح طلبہ کی تربیت فرماتے تھے ۔
مولانا کی نصیحت کا وہاں موجود طلبہ پر یہ اثر ہوا کہ کوئی بھی طالب علم مٹھائی کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہا تھا بلکہ چاہتا تھا کہ دوسرے لوگ پہلے ہاتھ بڑھائیں ۔بہر حال طلبہ نے مٹھائی کھائی اور ساتھ ہی اس نصیحت کو بھی دل و دماغ میں بٹھا لیا ۔اس واقعے کو چالیس پینتالیس سال ہو چکے ہیں مگر مولانا مرحوم کی نصیحت آج بھی دل ودماغ میں تازہ ہے کہ کسی تقریب یا دعوت کے موقع پر دسترخوان پر بے صبروں کی طرح ٹوٹ نہیں پڑنا چاہئے ،بلکہ سلیقے اور ایثار کا مظاہرہ ہونا چاہئے ۔ 
مولانا کی یہ نصیحت اس وقت اور بھی زیادہ یاد آتی ہے جب یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور دیندار لوگ کسی تقریب کے موقع پر کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور اپنی پلیٹوں میں اس قدر کھانا ایک ہی بار میں نکال لیتے ہیں گویا یہ ان کا پہلا اور آخری موقع ہے ۔(

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے