جو دین ومذہب کے حوالہ سے گذشتہ پون صدی کے ناگفتہ بہ حالات اور ان پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کے باوجود ومحض فضل خداوندی سے ان کے حصہ میں آئی تھی،اکثر چینی مسلمان حتی کہ نوجوان بھی نمازوں کے پابند اور داڑھی وٹوپی میں نظر آئے ،چین کے تجارتی شہر (Yoo)میں جب میں نماز جمعہ کے لیے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ خطبہ سے بہت پہلے ہمارے اکثر چینی مسلمانوں سے پوری مسجد بھری ہوئی ہے ،میں تین سال قبل فلسطین کے شہر بیت المقدس میں مسجد اقصی میں نماز جمعہ کی سعادت حاصل کرچکاتھا،لیکن وہاں میرے لیے خون کے آنسورونے کامرحلہ تھا ،یہ دیکھ کر کہ دنیا کی تیسری سب سے بابرکت مسجد اقصی میں ہمارے فلسطینی بھائی خطبہ جمعہ کے شروع ہونے کے بعد بھی بمشکل 2/3صف کے برابر نہیں تھے اور عین جماعت کے وقت پوری مسجد ان سے بھر گئی تھی۔
ماضی میں چین کی بہت ساری ریاستیں سنکیانگ ،لینگ ھسیا اور لانسووغیرہ مسلم اکثریتی صوبوں کی حیثیت سے اسلامی تاریخ میں ہمیں نظر آتے ہیں ، لیکن بعد میں کمیونسٹوں کی حکمرانی میں ان کو اپنے دین ومذہب پر عمل پیرا ہونے کے لیے جن آزمائشوں سے گذرناپڑا وہ نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا ناقابل یقین حصہ تھا،بڑے ہی کٹھن مراحل سے وہاں کے مسلمانوں کو گذرنا پڑا ،ان لوگوں نے تہہ خانوں میں چھپ چھپ کر اپنے ایمان کی حفاظت کی اور اپنے بچوں کو قرآن مجید سکھایاجبکہ ان کے لیے قرآن مجید کے مصاحف کو اپنے گھروں میں رکھنا ایسا ناقابل معافی جرم تھا کہ اس کی سزا پھانسی سے کم نہیں تھی۔
یہی صورتحال سوویت یونین کی مسلم ریاستوں کی بھی ہے :۔مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کی کچھ اسی طرح کی داستان ماضی قریب میں سوویت یونین یعنی روس کی مسلم ریاستوں کی بھی رہی ہے ازبکستان ،قزاقستان ،ترکمانستان ،تاجکستان،آذربائیجان اور کرغیزیاوغیرہ میں مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود اسلام پر عمل پیرا ہونا تو درکنار غلطی سے نام لینا بھی اس ملک کے خلاف بغاوت سے بھی بڑا جرم تھا،وہاں کے دینی مدارس پر جو آج برصغیر میں دیوبند وندوہ سے بھی بڑے اور قدیم وتاریخی تھے تالے لگائے گئے ،مساجد کو آثار قدیمہ میں بدل دیا گیا ،اذان پر پابندی تھی،قرآن مجید کی تلاوت واشاعت ممنوع تھی ،شعائر اسلام کے اظہار پرامتناع تھا،لیکن چینی مسلمانوں کی طرح ان روسی مسلمانوں نے بھی پہاڑوں کی چوٹیوں میں جاجاکر اور قبرستانوں میں بڑے بڑے گڈھے کھود کر اور اس میں چھپ چھپ کر نہ صرف اپنے بلکہ اپنی نئی نسلوں کے ایمان کو محفوظ رکھا،سابق روسی صدر گورباچیف کے عہدمیں مسلمانوں کے لیے مذہبی آزادی کا سلسلہ شروع ہواتو۱۹۹۰ء میں تاجکستان میں پہلی دفعہ مسلمانوں کو رمضان میں روزے رکھنے اور مساجد میں جاکر نماز عید ادا کرنے کی اجازت ملی ،تاشقند میں دوبارہ سات کروڑ کی لاگت سے ایک بہت بڑے دینی مدرسہ کا قیام عمل میں آیااورازبکستان میں ۱۵۰مساجد کو دوبارہ کھولاگیا۔
لیکن اسپین میں ایسا کیوں نہیں ہوا۔۔۔؟ چین ہو یا روس کی مسلم ریاستیں ،ترکی کی عثمانی خلافت ہو یا مشرق بعید کی اسلامی حکومتیں ،سب جگہ اسلا م کو دبانے کی کوششیں کی گئیں اور کچھ مدت تک ان سب جگہوں پر مسلمان مغلوب ومظلوم بھی رہے ،لیکن اسلام کا سورج پہلے سے زیادہ آن بان اور بہتر شان کے ساتھ وہاں دوبارہ طلوع ہوا اور ان کے خاکستر میں چھپی ہوئی چنگاریو ں نے وہاں کے مسلم باشندوں کو اسلام کی طرف لانے میں اہم رول اداکیا،چین سے واپسی کے بعد میں کئی دنوں تک یہی سوچتا رہا اور یہ سوال مجھے بے چین کرتارہاکہ چین وروس کی طرح کبھی ماضی میں بحر اوقیانوس سے متصل واقع اسپین یعنی اندلس میں بھی ہماری حکمرانی تھی ، ۷۱۱ء سے ۱۴۹۲ء تک ۷۸۱سال مسلسل مسلمان پور ی آزادی سے وہاں حکومت کرتے رہے ،اسپین کی ہماری اسی مسلم حکومت نے پہلی دفعہ یوروپ میں موجود جہالت کی تاریکیوں میں علم کی شمعیں روشن کیں اور مغرب کو سائنسی وصنعتی اور طبی وتعمیری میدانوں میں متعارف کرایا،وہاں کے مسلمانوں کے تعمیر کردہ فن تعمیر کے نمونے چودہ سوسال گذرنے کے باوجود آج بھی سراٹھااٹھاکر اپنی عظمت رفتہ کا پتہ دے رہے ہیں،قرطبہ کا قصر الزہراء اور الحمراء کے تعمیری شاہ کار کے کھنڈرات آج بھی کسی تاج محل سے کم نہیں،اس زمانے میں دینی لحاظ سے بھی اندلسی مسلمان اچھی حالت میں تھے،اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت صرف قرطبہ شہر میں سات سو مساجد تھیں،لیکن افسوس کہ ۱۴۹۲ء میں ابوعبداللہ کی آخری حکمرانی کے بعد وہاں باقی رہنے والے مسلمانوں کی کچھ جماعتوں نے تو اپناایمان بچاکر افریقی ممالک کی طرف ہجرت کی اور جو مسلمان وہاں رہ گئے وہ کچھ دنوں کے بعد دین سے نکل گئے اور بعد میں ان کی نسلیں بھی ارتداد والحاد کا شکار ہوگئیں اس طرح کہ کچھ دنوں کے بعدخود ان کو پتہ بھی نہیں رہا کہ کبھی ان کے آباء واجداد بھی دین اسلام کے حامل اور دین حق کے پیروکار تھے ،میری سمجھ میں بہت دنوں تک یہ بات نہیں آئی کہ روس وچین کے مسلمانوں کی طرح اسپینی مسلمانوں کی طرف سے دین پر استقامت کے وہ نمونے کیوں دیکھنے میں نہیں آرہے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ :۔ ۱۹۹۵ء میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور ندوۃ العلماء کے موجودہ ناظم حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی دامت برکاتھم نے مسلم روسی ریاستوں کا دعوتی دورہ کیا تھا ،واپسی پر حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی نے جو اپنی بے پناہ دینی بصیرت وفراست کے ساتھ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں اس کا ایک دلچسپ سفرنامہ ’’سمرقندوبخارا کی بازیافت ‘‘کے نام سے تحریرکیا تھا،جب میں نے اس سفرنامہ کو دوبارہ پڑھا تو مجھے اسپین میں مسلمانوں کے دین پر قائم نہ رہنے کی وجہ کوسمجھنے میں بڑی مدد ملی اور اس کا سرا ہاتھ لگ گیا،مولانا نے اس میں مسلم ریاستوں میں پیداہونے والی اسلامی بیداری کے پس منظر کا دعوتی تجزیہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ماوراء النہر کے یہ تمام علاقے اسلامی نقطہ نظر سے اپنا شاندار ماضی رکھتے تھے اور اس وقت یہاں کے مسلمانوں نے دینی تعلیم کے مدارس ومراکز کے قیام پر پوری توجہ دی تھی ،اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اس زمانہ میں صرف بخارا شہر میں ڈھائی سودینی مدارس تھے ،گویا اس وقت روسی مسلمانوں کو واپس اسلام کی طرف لانے میں ماضی کے انھیں دینی مدارس نے اہم رول اداکیاتھا ،جب میں نے اسپین کے مسلمانوں کی تاریخ کا ازسرنو مطالعہ کیا تو مجھے وہاں سوائے ان دینی مدارس کے ہر چیز نظر آئی پھر بات سمجھ میں آئی کہ اسی بنیادی چیز کی کمی ہی نے نہ صرف ان کو الحاد وارتداد تک پہنچایا بلکہ ان کی نسلوں کو بھی دین کی طرف دوبارہ لوٹنے پر آمادہ نہیں کیا، اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوئی کہ علامہ اقبال جب اسپین کے دورہ سے واپس آئے تو انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں سے صاف کہاکہ یہاں سے اگر ہمارے دینی مدارس ومکاتب کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا تو صاف سن لوکہ ہمارے ملک کی بھی وہی حالت ہوجائے گی جو میں اسپین میں دیکھ کر آیا ہوں کہ دینی مدارس کے نہ ہونے کی وجہ سے آج وہاں مسلمانوں کا نام ونشان بھی نہیں رہ گیا ہے ،اس لیے اے مسلمانو :۔ ’’ ان مدارس ومکاتب کو اسی حالت میں رہنے دو ،حالانکہ اسپین کے دورہ سے قبل علامہ اقبالؒ مرحوم ہمارے ان مدارس کے تعلق سے کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے لیکن اسپین کے دورہ نے ان دینی مدارس کی اہمیت ان کے دل میں بٹھادی ‘‘ ۔
مذکورہ بالادعوتی تجزیوں سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اسلام کی عظمت رفتہ کی بازیافت میں ہمارے ان مدارس ومکاتب کا کس قدر بنیادی اور اہم رول ہے ،اور عالم اسلام میں ہمیں اس وقت نظر آنے والے غیر متزلزل اور قابل رشک ایمان کی جھلکیاں ہمارے ان مدارس ہی کی بدولت نظر آرہی ہیں۔
دنیا مسلمانوں سے قائم ہے اور مسلمان دینی مدارس سے :۔ حدیث شریف میں آتاہے کہ جب تک اس روئے زمین پر اللہ اللہ کہنے والا رہیگا یہ دنیا قائم رہے گی اور جس دن یہ لوگ اٹھ جائیں گے ،دنیاکی بساط لپیٹ دی جائے گی یعنی قیامت آجائے گی،بالفاظ دیگر اللہ تعالی نے اس دنیا کو صرف مسلمانوں کی وجہ سے قائم رکھاہے اور اللہ کے پاس ایک ادنی مسلمان بھی اس پورے دنیاوی نظام پر بھاری ہے ، عالم اسلام کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات پرجب ہم بصارت کے بجائے بصیرت کی نگاہ دوڑاتے ہیں تو صاف محسوس ہوتاہے کہ اس وقت خالص دین اور حقیقی اسلام صرف ہمارے ان مدارس اسلامیہ ومکاتب دینیہ ہی کی بدولت قائم ہے،تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ تصور کر لیں اگر اس وقت روئے زمین پرمدارس اسلامیہ کی شکل میں دین کے یہ قلعے نہ ہوتے اور علمائے حق یہاں سے فارغ ہوکر امت کی رہنمائی نہیں کرتے تو ملت اسلامیہ کا اس وقت کیا حال ہوتا،ظاہربات ہے کہ حق باطل کے ساتھ خلط ملط ہوجاتا،حلال کے نام سے حرام کی ترویج ہوتی ،روشن خیالی اور ترقی پسندی کے نام سے غیر اسلامی وغیر شرعی چیزوں کو بھی اسلام اور شریعت کانام دیا جاتا،احکام ومسائل کی تحقیق صحیح قرآنی ونبوی ہدایات کے مطابق نہیں ہوتی،شریعت کی تشریح ایک مذاق بن کر رہ جاتی اور ان سب کے نتیجہ میں دین سے عامۃ المسلمین کی وابستگی برائے نام رہ جاتی ، اللہ تعالی جزائے خیر دے ہمارے اسلاف بالخصوص برصغیر کے علماء کو کہ انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزادکرنے کی تحریک کے پس منظر میں انہوں نے دینی مدارس قائم کرکے اور بعد میں ان کے جانشینوں نے جگہ جگہ اس کا جال بچھاکر نہ صرف مغربی تہذیب وثقافت سے ملت اسلامیہ کو دور رکھا بلکہ شرک وکفر کی آلودگیوں سے ان کی حفاظت کاسامان فراہم کیا اور توحید اور عقیدہ سے ان کو وابستہ رکھنے کے لیے مدارس کی شکل میں ایک قیمتی واسطہ فراہم کیا،مسلم اقلیت میں ہونے اوریہاں اسلامی حکومت کے نہ ہونے کے باوجود ہمارے ان دینی مدارس کی وجہ سے ہی آج پورے عالم اسلام میں ہمارے ملک ہندوستان کو تمام بڑی دینی تحریکات ا وردینی قیادت کامرکز تصور کیا جارہاہے۔
اب تو دینی تعلیم کے فوائد دنیا ہی میں نظر آرہے ہیں :۔ دینی تعلیم کا حصول دراصل اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہوتاہے اور اس پر جو بے پناہ نوازشات خداوندی کاوعدہ ہے اس کا تو مشاہدہ مرنے کے بعد ہی ہوسکتاہے لیکن اس زمانہ میں ہمارے کمزور ایمان کو دیکھتے ہوئے اللہ رب العزت نے دینی تعلیم کے فوائد کچھ دنیا میں بھی ظاہر کرنے شروع کردیئے ہیں ،اس لیے اب ان مدارس کے بھولے بھالے خیرخواہوں کو جو مدارس کے فارغین کی مادّی ترقی کی آڑ میں اس کے نظام ونصاب میں عصری علوم کی شمولیت کے داعی ووکیل بن کر اس کی اصل روح سے ان مدارس کو محروم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کچھ کہنے کاموقع نہیں رہ جاتاہے ،ذیل کے کچھ واقعات سے آپ اس کا اندازہ کرسکتے ہیں ۔
دو سال قبل میرا علی گڑھ جانا ہواتھا ،مسلم یونیورسٹی میں اکیڈمک اسٹاف کالج (u.g.c) کے ڈائرکٹرڈاکٹرعبدالرحیم قدوائی صاحب نے اپنے چھوٹے بچہ سے ملاقات کراتے ہوئے بتایا کہ وہ عصری تعلیم کے ساتھ الحمدللہ حفظ قرآن مجید کی سعادت سے مالامال ہورہاہے، اسی طرح برطانیہ میں زیر تعلیم اپنے بڑے لڑکے کے متعلق بھی بتایا کہ وہ بھی وہاں برطانوی یونیورسٹی میں دن بھر پڑھائی میں مشغول رہنے کے باوجود رات کو اپنے کمرہ میں آکرایک دورکوع روزانہ حفظ کرکے یہاں ہندوستان میں علی گڑھ میں اپنی والدہ کو یاد کیا ہواوہ حصہ سناتاہے،اس طرح اس نے قرآن کابڑا حصہ عصری تعلیم کے ساتھ حفظ کرلیا ہے اور جلد اس کے حافظ قرآن بننے کی امیدہے،ڈاکٹر صاحب کے خاندانی دینی پس منظراور مولانا عبدالماجدصاحب دریابادی کے نواسے ہونے کی وجہ سے مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی لیکن جب مجھے یہ معلوم ہواکہ یونیورسٹی کے بہت سارے پروفیسر صاحبان ادھردوتین سال سے اپنے بچوں کو اسکولوں وکالجس کی تعلیم کے ساتھ پارٹ ٹائیم حفظ کرارہے ہیں تو مجھے تعجب ہوا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے لیے تو پانچ وقت کی نماز کاپابندی سے اہتمام بھی دشوار ہے تو اس کے باوجود ان میں کلام اللہ سے اس قدر محبت وتعلق کا پس منظر کیا ہے ؟ میرے اس استعجاب پر میرے میزبان نے بتایا کہ ادھر چندسالوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی میڈیکل وانجینرینگ کی محدود سیٹوں کے لیے ہزاروں طلباء کے درمیان جومسابقتی امتحانات ہورہے ہیں تو ان میں عصری تعلیم کے ساتھ حفظ کرنے والے حفاظ طلباء ہی امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوکرفری سیٹوں کے مستحق بن رہے ہیں،دوسرے الفاظ میں حفظ کلام اللہ کی برکت سے ان کی ذہانت میں غیر معمولی اضافہ ہورہاہے اور اسی لالچ میں دھڑا دھڑ لوگ اپنے بچوں کو اب حافظ قرآن بنارہے ہیں، میری زبان سے بے ساختہ نکلا کہ وہ دن دور نہیں کہ اگر غیرمسلموں کو بھی معلوم ہوجائے تو وہ بھی اس فارمولہ کو اپنانے کے لیے اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنائیں گے اور اسی بہانے انشاء اللہ ان کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت کے فیصلے بھی ہوں گے۔
دوسرا واقعہ بھی سنئے:۔ پولس سے نچلی سطح پر نظم ونسق سنبھالنے والے تین ہزار ہوم گارڈ کی بھرتی کے لیے جب حکومت کی طرف سے سرکلر نکلاتو ایک اخبار میں اطلاع آئی کہ دیڑھ لاکھ سے زائد لوگوں نے اس کے لیے انٹرویودیا ہے اور اس میں گریجویٹ ہی نہیں بلکہ پوسٹ گریجویٹ انجینئروں وغیرہ کی بھی ایک بڑی تعدادہے،حالانکہ ہوم گارڈ کے لیے صرف بارہویں پاس کی تعلیمی صلاحیت کافی تھی، اس خبر کے بین السطورجو پیغام تھا وہ یہ کہ دنیا کے خاطر دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے ۶۰فیصد لوگ اب بھی بے روز گار ہیں جبکہ اسی اخبار کے نیچے ایک اور اشتہار تھاکہ فلاں ادارہ کے لیے دوحافظ اور تین عالم دین کی ضرورت ہے اور ان کے لیے مفت رہائش کے ساتھ تنخواہ کم از کم ۱۰/ہزار سے ۱۲/ہزار دی جائے گی،مطلب یہ ہوا کہ حافظ قرآن اور عالم دین تلاش بسیار کے بعد بھی کہیں خالی نہیں مل رہے ہیں اور اخبارات میں اشتہار دینا پڑھ رہا ہے اور عصری تعلیم یافتہ لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر اپنی تعلیم وصلاحیت سے بھی کم حیثیت کی ملازمت کے لیے تیار ہیں،بارہویں پاس ہوم گارڈ کی ملازمت کے لیے پوسٹ گریجویٹ لوگوں کی درخواستوں کا انبار اس کا واضح ثبوت ہے ۔
تیسرا واقعہ بھی سننے سے تعلق رکھتا ہے ، ندوۃ العلماء کے سابق مہتمم مولانا عمران خان صاحب ندوی کے بھائی مولانا سلمان صاحب ندوی کے گیارہ بیٹے تھے ،انھوں نے ارادہ کیاکہ سب کو حافظ قرآن اور عالم دین بناناہے ، ان کے بعض افراد خاندان کا ان سے اصرار تھا کہ ایک دو کو تو کم از کم عصری تعلیم میں لگائیں تاکہ ان کے لیے عمر کے آخری مراحل میں معاشی مسائل نہ ہوں لیکن انہوں نے نہیں مانابلکہ تمام گیارہ بیٹوں کو الحمدللہ حافظ قرآن اور عالم دین بنایااور سب کے سب ندوۃ العلماء سے فارغ ہوئے ،اللہ نے ان کے اس توکل اور اپنی ذات پر اعتماد کی لاج یوں رکھی کہ ان کے یہ سب گیارہ بیٹے آج الحمدللہ دنیا کے مختلف امریکی ویوروپی ممالک میں دعوت دین سے جڑے رہ کر بھی بڑے بڑے کاروبار کے مالک بن گئے ہیں،ایک امریکہ میں ہے تو دوسرا برطانیہ میں،تیسرا نیوزی لینڈمیں تو چوتھا امارات میں ، دو سال قبل میں جب جاپان کے دعوتی دورہ پرگیا ہوا تھاتو ان کے ایک صاحبزادہ مولانا سلیم الرحمن صاحب ندوی کو دیکھا کہ ٹوکیو کے مہنگے ترین علاقہ میں خود کے اپنے خوبصورت کاشانہ کے مالک ہیں اور پورے جاپان میں اس وقت دعوتی ومذہبی اعتبار سے بھی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں جس نے کہا سچ کہا کہ’’ جو اللہ کے لیے ہوجاتاہے اللہ اس کا ہوجاتا ہے ‘‘دین کے خاطر قربانی دینے والوں کو اللہ تعالی دنیا سے بھی محروم نہیں رکھتا۔
مدارس کا کوئی متبادل نہیں :۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ دین کی باتوں سے واقفیت اور احکام شریعت پر عمل کے لیے مطلوبہ ضروری معلومات کا نام ہی دینی تعلیم ہے لیکن حقیقت میں وہ دینی تعلیم جس کے لیے مدارس کا قیام عمل میں آتاہے صرف اسی کا نام نہیں،دین کی اس ابتدائی وبنیادی ضرورت کے لیے شبینہ وصباحی مکاتب ،بزرگوں کی صحبت ،اسلامی تحریکات وتنظیمات سے وابستگی اور دینی لٹریچر کا مطالعہ وغیرہ کافی ہے جس سے اسلام پر قائم رہنے میں ایک مسلمان کو مددملتی ہے ،دراصل دینی مدارس اس سے بھی بڑھ کر ایک عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قائم کئے جاتے ہیں ،جہاں شریعت پر گہری نگاہ اورقرآن وحدیث کے اسرار ورموز سے واقفیت رکھنے والے اور سب سے بڑھ کر امت مسلمہ ہی کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی زندگی کے ہرمیدان میں رہنمائی کرنے والے رجال کار اور علماء پیدا کئے جاتے ہیں ، جب جب بھی اسلام کے نام سے اس کی غلط ترجمانی کرنے والے میدان میں آتے ہیں تومدارس کے یہی علماء اس کا مقابلہ کرتے ہوئے قبلہ نما بن کر سامنے آتے ہیں اور اسلام کی صحیح منشاء وروح کی ترجمانی کرتے ہیں ،وہ اس خلائی سٹیلائٹ کی طرح ہوتے ہیں جو خلاء میں رہ کر پوری دنیا کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے،ہمارے علماء بھی دینی سٹیلائٹ بن کر امت کی ایک ایک حرکت پروہ مؤمنانہ فراست کے ساتھ دوربیں نگاہ رکھتے ہیں کہ کہیں امت بہک نہ جائے اور راہ راست سے نہ ہٹ جائے ،اس پر ان کووہ فوراً متنبہ کرتے ہیں،بسااوقات جب غلط افکار ونظریات کی اسلام کے نام سے تشریح کرتے ہوئے پانی سر سے اونچا ہوجاتاہے تویہی علماء خود میدان میں آکر الحادی افکار وغلط نظریات کے طوفان بلاخیز کے دھارے کو موڑ دیتے ہیں اوروہ مادی منافع اور عامۃ الناس کی تعریف وتوصیف سے بے پرواہ ہوکرصرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے حقیقت دین سے بندگان خدا کو واقف کرانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
خالص اسلامی اسکول بھی مدارس کی جگہ نہیں لے سکتے :۔ ادھر 20/25سال سے ملت کے نونہالوں کو الحادی وتشکیکی افکار ونظریات سے محفوظ رکھنے اور مشنری تعلیمی اداروں سے بچانے اور ایمان پر باقی رکھنے کے نیک جذبہ کے تحت مسلم تعلیمی درسگاہوں کا قیام تیزی سے عمل میں آرہاہے جوبڑی خوش آئندبات ہے اور ملت کی ایک بڑی اہم ضرورت کی تکمیل ہے ،یہ الگ بات ہے کہ اس میں سے بہت سارے اسکولوں وکالجس کو آپ مسلم تعلیمی ادارے تو کہہ سکتے ہیں اسلامی ادارے نہیں ،اس لیے کہ ان میں سوائے اس کے کہ اس کو چلانے والے مسلمان ہیں اس کے علاوہ اس کی کوئی امتیازی مذہبی شان نہیں ،ان میں سوائے کچھ کو مستثنی کرکے وہ سب غیردینی نصابی وثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں جس کا اسلام سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا،لیکن اگر بالفرض تھوڑی دیر کے لیے ہم مان بھی لیں کہ ہمارے بچے خالص اسلامی بنیادوں پر قائم اسلامی اسکولوں وکالجس میں ہی پڑھ رہے ہیں اور اس طرح کے اداروں کی ایک بڑی تعداد الحمدللہ ملک وبیرون ملک میں پائی بھی جارہی ہے تب بھی یہ اسلامی عصری تعلیمی ادارے ہمارے دینی مدارس کا متبادل بن نہیں سکتے ،عام طور پر عامۃ المسلمین کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس طرح کے اسلامی اسکولوں میں اپنے نونہالوں کو انہوں نے داخل کرکے ان کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرلیا ،حالانکہ یہاں تو بقدر ضرورت صرف ایمان پر باقی رکھنے والی اسلامی تعلیم دی جاتی ہے ،قرآن وحدیث میں ایک عالم دین کے لیے جوفضائل اور ان کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں اس سعادت کو آپ ان اسلامی اسکولوں سے بھی حاصل نہیں کرسکتے اگرچہ آپ کا بچہ ان اسکولوں سے فارغ ہوکراچھی عربی بولنے لگے اور قرآن کی کچھ سورتوں کے اس کو تراجم بھی یاد ہوجائیں ،وہ نماز روزے کا پابندہوجائے اور دیکھنے میں ایک عالم دین کی طرح نظربھی آئے لیکن وہ 12/13سال تک مسلسل مدرسہ میں وقت لگا کر فارغ ہونے والے کسی عالم دین کے برابر نہیں ہوسکتا،چاہے وہ خود اپنے کو اور دنیاوالے اس کوشریعت کا ماہر اور عالم سمجھیں ،لیکن وہ زیادہ سے زیادہ ایک اچھا مسلم اسکالرکہلاسکتاہے اس سے زیادہ نہیں۔
اسی حالت میں مدارس کی قیامت تک ضرورت ہے :۔ عام طور پر اس وقت بڑے زور وشور سے یہ آواز یں اٹھ رہی ہیں کہ مدارس کے موجودہ نصاب ونظام میں وقت کے بدلتے حالات کے مطابق تبدیلی ہونی چاہیے اور اس میں عصری علوم کی بھی اس طرح آمیزش ہونی چاہیے کہ ہمارے مدارس کے فارغین دنیاوی میدان میں کسی کے دست نگر یا محتاج نہ ہوں اور معاشی اعتبار سے بھی خود کفیل ہوں،ہمارے اپنے لوگوں کی طرف سے اٹھنے والی یہ آوازیں زیادہ تران لوگوں کی طرف سے ہوتی ہیں جن کے بچے مشنری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور ان کی اولاد تو درکنار ان کے رشتہ دار بھی مدارس میں نہیں پڑھتے، ان کی یہ آراء مخلصانہ وہمدردانہ تو ہوسکتی ہیں لیکن جب حکومت اور مغربی طاقتوں اور اسلام دشمن طبقات کی طرف سے یہ آوازیں سننے میں آتی ہیں تو یقیناًاس کے پس پشت علماء وفارغین کی ہمدردی وخیرخواہی نہیں ہوتی بلکہ مدارس کی خالص دینی تعلیم کو عصری علوم کے اختلاط سے آلودہ کرکے مدارس کو اس کی اصل روح سے ہٹانے اور اس کے بنیادی مقاصد سے ان کو دور رکھنے کی ایک منصوبہ بند کوشش ہوتی ہے جس کو ہم اپنی سادہ لوحی سے سمجھ نہیں پاتے ،مدارس کا کام ملک کا نظم ونسق چلانے والے I.A.Sافسران پیداکرنا، اچھے دیندار ڈاکٹر یا انجینئر بناکر ان کو معاشرہ کی خدمت میں لگانا، اچھے تاجر وسماجی کارکن یا سیاسی لیڈر بناکر میدان عمل میں لاکر پیش کرنانہیں ،اس کے لیے ملت کے دوسرے ادارے وتنظیمیں ہیں جنہوں نے اپنے ذمہ یہ کام لیا ہے ،ہمارے مدارس کا قیام شریعت کے ماہرین اور دین کے متخصصین پیداکرنے کے لیے ہواہے،دینی مدارس تو داراصل ملت اسلامیہ کی اس ضرورت کی تکمیل کا سامان فراہم کرتے ہیں جس کا حکم اللہ رب العزت نے سورہ توبہ کے اخیر میں پوری امت کو مخاطب کرکے دیا ہے کہ تم میں سے ہر قوم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو دین کی گہری سمجھ حاصل کرے اور دعوت کا فریضہ انجام دے (فلولانفرمن کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذرواقومہم اذارجعواالیہم)قرآن کے حکم کے مطابق ہرزمانے میں علماء کی اس جماعت کی ضرورت رہے گی اور قیامت تک اسلام پر بقاء کے لیے ایسے علماء کا وجود ملت کے لیے ناگزیر ہوگا،ہمارے دینی مدارس الحمدللہ اپنے اسی فریضہ کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اورہزار اپنی انتظامی وتربیتی کمزوریوں کے باوجود جس کا خود انھیں احساس ہے اس کی اصلاح کی بھی کوشش کر رہے ہیں،الحمدللہ ذمہ داران مدارس بھی اپنی بصیرت وفراست کے ذریعہ دشمنوں کی ان چالوں کو سمجھنے کے باوجود عالمی سطح پر رونماہونے والے واقعات وحالات کے پس منظر میں دینی تعلیم کی روح کو باقی رکھتے ہوئے اس دینی تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی کوشش کررہے ہیں جس سے فارغین مدارس دعوتی میدان میں اور بہتر طریقہ پر اپنے فرائض کو انجام دے سکیں لیکن اسی کے ساتھ ہمیں سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے کہ قرآن مجید میں بیان کئے گئے ایسے علماء جو ملت کی ناگزیر ضرورت ہیں دینی مدارس کے بجائے کیا مسلم اسکولوں واسلامی کالجس یا یونیورسٹیوں سے پیدا ہونے کی ہم امید رکھیں یا پھر ایسے مدارس سے جو حدسے زیادہ عصری علوم کی شمولیت کے ساتھ نہ گھر کے نہ گھاٹ کے مصداق بن کرسامنے آرہے ہیں،یاد رکھیئے ایسے علما ء خالص دینی تعلیم کے ان مدارس ہی سے پیدا ہوئے ہیں اور پیدا ہوں گے ،غرض یہ کہ ہمارے یہ دینی مدارس ہی ہیں جو آج ہندوستان کو اندلس بننے سے اور یہاں اس کی تاریخ دہرانے کی دشمنوں کی شاطرانہ چالوں کو کامیاب ہونے سے روکے ہوئے ہیں،اس لیے ان مدارس کی حفاظت ووکالت ہم سب کا ملّی فریضہ ہے۔
جواب دیں