مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
ہر شخص جانتاہے کہ انسان کی پیدائش کامقصد عبادت خداوندی کے ساتھ ساتھ اطاعت کے ذریعے رضاء الٰہی کو حاصل کرناہے، لیکن انسان کے دو بڑے دشمن نفس اور شیطان ہیں ،جو یہ نہیں چاہتے ہیں کہ انسان اپنے مقصد میں کبھی بھی کامیاب ہو، لہٰذا یہ دونوں انسان کے اندر خواہشات کی تکمیل اور ہوس پرستی کے جذبہ کی داغ بیل ڈالنے،اور ابھارنے میں لگ جاتے ہیں، اور اِدھر شیطان وسوسہ ڈالنے میں مستقل لگا رہتاہے، کیونکہ جسطرح شیطان سراپا نافرمانی اور غلاظت وگندگی، عصیانی ونافرمانی کا پُتلا ہے، اسی طرح نفس بھی غلط خواہشات میں گِھرا ہوا ہے ،اور خواہش انسان کو وقتی لذّت پر ابھارتی ہے،جسکی وجہ سے انجام کی پرواہ کیے بغیر انسان شہوت کو بر وقت حاصل کرنے کے لیے بے قرار رہتاہے ،اگر اسے نہ روکا جائے تو وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے ،خاص طور سے عین جوانی میں حالانکہ شہوت پوری کرنا جہنمی کا کام ہے، اسی وجہ سے احادیث مبارکہ میں مجاھدئہ نفس کو بڑا جھاد کہا گیا ہے ،چونکہ نفس محبوب چیز ہے ،جس کی پیروی سے رُکنا اور اپنے غلط ارادوں کو قابو میں رکھنا ایک مشکل ترین امر ہے، لیکن بندہ محض خدا کے خوف وخشیت کو سامنے رکھتے ہوئے حکم خداوندی کی تکمیل کے لیے ناجائز کاموں سے رکتا ہے،
چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ،کہ ولا تتبع الهوي فيضلك عن سبيل الله (تم خواہشات نفس کی پیروی مت کرو ورنہ اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤگے )
کیونکہ خواہشات نفسانی گناہوں پر ابھار کر ہی نہیں چھوڑے گی، بلکہ گناہوں پر اتنا جَری کردی گی کہ گناہ کرتےکرتے دل سیاہ ہوجائےگا، لیکن نفس جلد گناہ سے باز نہیں آئے گا ،باوجودیکہ گناہوں کے سنگین انجام سے بچنے کا اصل حل یہی ھیکہ اسے چھوڑ دیا جائے ،ورنہ یہ روحانی موت کا سبب بنیں گے،اورجب روحانیت ہی ختم ہوجائے گی تو دل بے حس ہوجائے گا ،
اور یاد رکھیے!! بے حس شخص سے توبہ کی توفیق بھی سلب ہوجاتی ہے، اسلیے کہ توبہ کی صحت کے شرائط میں سے ندامت کا احساس ہے، اسکے بغیر توبہ حقیقی توبہ ہوہی نہیں سکتا، اور بے حس ہوجانے کے بعد گناہوں کی ایسی عادت اور لت لگ جاتی ہے کہ بسا اوقات وہ مرتے دم تک ختم نہیں ہوتی، اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ خواہشات کا کبھی پیٹ نہیں بھرتا ،ایک نفسانی خواہش کےپوری ہونے سے پہلے ہی دوسری نفسانی خواہش کا وجود ہوجاتا ہے، اورخواہشات کا پیٹ صرف قبر مٹی ہی بھر سکتی ہے ،
اندازہ لگائیں کہ جب صرف ایسے گناہوں کے اتنے زیادہ نقصانات اور انجام بُرا ہے جو متعدّی نہیں ہے ،تو ان گناہوں کے کتنے زیادہ نقصانات ہونگے جو متعدی ہیں ،یعنی جو پھیلتے ہیں اور جسمیں دو یا تین لوگ شریک ہوتے ہیں،
منجملہ ان ہی مہلک گناہوں میں سے مردو عورت، لڑکا اور لڑکی کا آپسی اختلاط اور ناجائز تعلقات قائم کرناہے، اور یہ اسلیے ھیکہ عشق مجازی، زنا اورنا جائزتعلقات نے معاشرہ ہی کوتباہ و برباد نہیں کیا ،بلکہ انسانیت کو ختم کر کے رشتوں کا خون کردیا،آدب واحترام اور عفت و پاکدامنی کا جنازہ نکال دیا ،خاندانوں کی عزّت کو نیلام کردیا، اسکے اسباب کیاکیا ہیں؟انجام کتنا بُرا ہے؟ اسکے نقصانات کیا ہیں؟ نیزاسکی سزائیں اور وعیدیں کتنی سخت ہیں؟ اور اسکا علاج کیا ہے؟آنے والے "پیرا گراف" میں ان تمام پہلوؤں کو اُجاگر کیا جارہا ہے، امید ھیکہ آپ تمام ہی حضرات پڑھنے کے بعد اسکو عملی جامہ پہنا کر عند اللہ مأجور ہونگے ان شاء اللہ
ناجائز تعلقات کے اسباب:
۱) اجنبیوں کے سامنے آمد ورفت ۲) محارم کے علاوہ سے بے تکلفانہ باتیں ۳)غیر محرم سے ہنسی مذاق کرنا ۴) غیر محرم سے تنہائ اختیار کرنا۵) غیرمحرم سے فون پر یا واٹساپ یا فیس بک پر گپ شپ کرنا۶)لڑکیوں کا گھر سے باہر اکیلے نکلنا۷) والدین بچوں اور بچیوں کا ایک ساتھ سینیما میں فلم دیکھنا۸) نظام تعلیم کامخلوط ہونا ۹) لڑکیوں کا تقریبات کی محفلوں میں بلاحجاب شرکت کرنا ۱۰) لڑکیوں کا اپنی تصاویر وغیرہ کثرت سے دوسروں کو بھیجنا ۱۱) والدین کا اپنی اولاد کی غلط باتوں پر تنبیہ نہ کرنا اور ہمہ وقت اسکی تمام چیزوں پر نظر نہ رکھنا۱۲)لڑکیوں کو ملٹی میڈیا موبائل یا سادہ موبائل رکھنے کی اجازت دینا۱۳)اپنےلڑکوں کی آمدو رفت پر نظر نہ رکھنا۱۴)اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو آزادی دینا یا ان سے حد سے زیادہ محبت کرنا کہ انکی غلطیوں کو بھی در گزر کردے ۱۵) میاں بیوی کا اپنےلڑکوں اور لڑکیوں کے سامنے مستی مذاق کرنا ۱۶)لڑکے لڑکیوں کا تنگ یا باریک یا ایسے چھوٹے کپڑےپہننا جسمیں ستر ظاہر ہو ۱۷) لڑکوں یا لڑکیوں کا شرعی حدود کو توڑکریورپ کی تقلید میں فیشن پرست ہونا۱۸) لڑکوں یا لڑکیوں کاآپس میں اعضائے جسمانی میں سے کسی سے مذاق مستی کرنا ۱۹) والدین کا اپنی اولاد کو تنہاغیر محرم کے ساتھ سفر پر بھیج دینا ۲۰) والدین کا اپنے بچے اور بچیوں کو گھر پر تنہا چھوڑ جانا.
جب آج کا نوجوان طبقہ ان اسباب میں سے کسی کو بھی اختیار کرکے اورانجام کی پرواہ کیے بغیر عشق مجازی کی راہ پر چل پڑتاہے تواسکے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں،جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارت میں آرہاہے،
ناجائز تعلقات کا انجام:
۱) خاندان معاشرہ گھرانہ کی بدنامی ۲) لوگوں کی نظروں سے گر جانا ۳) گناہوں کے بوجھ تلے دب جانا ۴) ماں باپ سے لیکر خاندان تک کی ناراضگی۵) آپس میں تناؤ کشیدگی ۶) نبھاؤ کے مشکلات کا سامنا کرنا
۷) بے حسی کا پیدا ہونا ۸) کسی کی بات کا سمجھ میں نہ آنا ۹) ٹینشن والی زندگی
۱۰) طلاق کا معاملہ باربار درپیش ہونا
۱۱)غلط تعلقات پورے خاندان کے لیے تکلیف دہ ہے۱۲) میاں بیوی میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیکر جھگڑا ۱۳) جسمانی تعلقات میں عدم اطمینان ۱۴) باہم بدسلوکی کرنا
۱۵) میاں بیوی میں عدم تحفظ کا احساس ۱۶) مزاج کا نہ مل پانا ۱۷) میاں بیوی میں محبت اور دوستی کا مفقود ہوجانا ۱۸)میاں بیوی کا ایک دوسریے پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرنا ،
نوجوان طبقے کوان تمام انجام کی پہلے سے فکر نہیں ہوتی جب اسکے مہلک اثرات سے اسکی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے تو وہ اب یا تو مختلف عاملوں کے چکر کاٹتےہیں یا وہ گھر اور خاندان کو چھوڑ کر دور چلے جاتے ہیں یا خود کشی کرلیتےہیں، باوجودیکہ علاج یہ نہیں بلکہ مندرجہ ذیل طریقوں سے اپنا علاج کرے تو یہ کار آمد ثابت ہوگا،
علاج:
عورتوں کے ساتھ تنہائ میں بالکل بات نہ کریں. عام طور سے عشق کی ابتداء خوبصورتی کو دیکھنے سے ہوتی ہے اسلیے لڑکا اور لڑکی ہر ایک کے لیے نظر کی حفاظت از حد ضروری ہے. مذکورہ بالا کے تمام اسباب کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہو اور ان سے کوسوں دور رہ کر زندگی گزاریں. خوف خدا خشیت الٰہی اور اللہ کی ذات کا استحضار دل و دماغ میں بٹھالیں. اور اگر خدا نخواستہ ان تمام غلطیوں میں سے کوئ بھی غلطی سر زد ہوجائے تو فورا توبہ واستغفار کریں اور اپنی پوری فکر محبوب کے عیوب تلاش کرنے میں لگا دیں تو ان شاء اللہ گناہوں کی دلدل سے نکل کر راہ راست پر آجائیں گے.
کوئ بھی چیز نظر کو بھاجانےکے بعد دل میں سماجاتی ہے، اور نوجوان جب ایک دوسرے کے دل میں جگہ بنا لیتے ہیں تو یہ دل انکو مزید آگے بڑھنے اور زناء پر ابھارتا ہے ، پہلے تو ہاتھ کا کان کا پاوں کا زنا کرتاہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوان بے قابو ہو کرجوانی کے جوش میں شرمگاہ سےزنا کا ارتکاب کر بیٹھتاہے،نتیجةً نوجوان طبقےکو اِن تمام نقصانات کا سامنا کرنا پڑتاہےجو ذیل میں مذکور ہیں،
زنا کے نقصانات:
۱) چہرے کا بے نور ور سیاہ ہوجان ۲) دل کا سیاہ ہوجانا ۳) فقر وتنگدستی کا آجانا
۴) مومن کی صفت کا چھن جانا ۵) اپنے آپکو آگ کے اس تنور میں ڈال دینا جسمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کا دیکھا ۶) خبیث مردوں کے لیے خبیث عورتیں ہیں ۷) دل سے ہیبت کا ختم ہوجانا۸) زنا قطع رحمی والدین کی نافرمانی حرام کمائ اور مخلوق پر ظلم و ستم کے ساتھ مال ودولت اور ااولاد کے ضیاع کا سبب بنتا ہے ۸) زناحیاء کو ختم کردیتا ہے ۹) فقر کی زندگی نصیب ہوتی ہے
۱۰ ) صحت پر بھی بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں،
خلاصئہ کلام یہ ھیکہ:
عشق مجازی یعنی ناجائز تعلقات ایک ایسی بیماری ہے جسنے نہ جانے کتنے گھرانے اجاڑے، کتنے رشتوں میں دراڑیں پیدا کی، اورنہ جانے کن کن معزز گھرانوں کی عفّت وپاکدامنی کوداغ دار کیا اور نہ جانے کتنی زندگیوں کو اجاڑ دیا حتی کہ اس بیماری نے اپنے مہلک جراثیم سے دنیا بھر کے لوگوں کو عشق حقیقی سے محروم کردیا،جسکا اثر یہ ہوا کہ ایک طرف دنیا بھر کے لوگ ہوس پرستی اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیےپاگل بن کر دربدر پھرتی ہوے نظر آرہے ہیں،جبکہ دوسری طرف قرب قیامت کی علامت دن بدن ظہور پذیر ہورہی ہیں،اور آئے دن موت انسان کو آ دبوچ رہی ہے اور یہ پیغام دے رہی ہے کہ میرے آجانے بعد کسی کوکچھ بھی کرنے کی مہلت نہیں ہوگی جو ر ضائے الٰہی کا سبب بنے، لیکن کوئ بھی موت سے نصیحت حاصل کرنے کو تیار ہی نہیں ہے ، جبکہ حدیث پاک میں ہے،
– [عن عمار بن ياسر:] كفى بالموتِ واعظًا، وكفى باليقينِ غنًى
جواب دیں