عیسائیوں پر حملے سوچ کا دوش

ہندو شدت پسندوں کے ذریعہ عیسائیوں پر حملے ایک بار پھر بحث کا موضوع بن گئے ہیں ۔ چرچ میں توڑ پھوڑ کرنے میں بجرنگ دل کے لوگوں کے شامل ہونے کی بات سامنے آئی ہے دوسری طرف صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے بیان سے علاقہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ۔ انہوں نے چرچ کو تبدیلی مذہب کا سینٹر بتایا تھا ۔ چرچ کو نقصان پہنچانے کے الزام میں انل گودارا کو پولس نے حراست میں لے لیا ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی چرچ یا مشنری کو نشانہ بنایا گیا ہو 1964سے1996کے دوران عسائیوں پر تشدد کے 38معاملے درج کئے گئے ۔ 1997میں 24اور 1998 میں عیسائیوں کے خلاف پورے ملک میں لہر سی چلی جس میں چھوٹے بڑے 90واقعات رو نما ہوئے ۔22جنوری 1999کو دارا نام کے شخص نے اس وقت پورے ملک کو شرمندہ کر دیا جب اس نے اڑیسہ میں عیسائی راہب گرانس ٹینس کو دو معصوم بچوں کے ساتھ ان کی ہی جیپ میں زندہ جلا دیا تھا اس واقع نے دیش کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اس جرم کے لئے دارا کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جسے بعد میں عمر قید میں تبدیل کردیا گیا ۔دارا دھرم ، سرکچھا سمیٹی اڑیسہ میں آج بھی سر گرم ہے اس کے کارکنان عیسائی راہبوں ، چرچوں و ننس کو نشانہ بناتے رہتے ہیں جون 2000ء آندھرا میں چاراور ستمبر2008کیرلا میں دو چرچوں لو نقصان پہنچایا گیا پوپ کو دی گئی رپورٹ کے مطابق بھارت میں پانچ ہزار ننس عصمت دری کا شکار ہو چکی ہیں ۔
مذہبی نفرت و تشدد کی مہم میں سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیمیں پیش پیش ہیں ان کے ذمہ داروں کے بیانوں سے کارکنان کو حوصلہ ملتا ہے تازہ واقعات موہن بھاگوت کے اس بیان کے بعد سامنے آئے جس میں انہوں نے نوبل انعام یافتہ مدر ٹریسہ ہر انگلی اٹھاتے ہوئے ان کی خدمات کو تبدیلی مذہب کے ساتھ جوڑ کر مسترد کرنے کی کوشش کی ۔ بھاگوت نے کہا کہ مدر ٹریسہ کا بنیادی مقصد تبدیلی مذہب تھا نا کہ بے سہارا غریب لوگوں کی خدمت۔اس بیان پر اروند کیجریوال نے اپنے ٹویٹ میں شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے انہوں نے کہا کہ وہ مدر ٹریسا کے ساتھ کام کر چکے ہیں وہ پاک روح والی خاتون تھیں ۔
کیتھولک بشب کے ذمہ دار کارڈنیل بیلیوس کلیمس نے ندیا ضلع کے رانا گھاٹ کا دورہ کرکے حادثہ کا شکار راہبہ کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی اس موقع پر انہوں نے کہا کہ دیش کو اپنے عوام کی بھلائی کی اسی طرح فکر ہونی چاہئے جس طرح گایوں کو لیکر ہوتی ہے انہوں نے کہا ہم سب کے لئے دیش کی ذمہ داری ہے نہ کہ صرف گائیوں کے لئے انہوں نے سی بی آئی جانچ کرائے جانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ میں انصاف ہوا سبھی کو دکھائی دینا چاہئے ۔رابٹ واڈرا نے راہبہ کے ساتھ ہوئے حادثہ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا ہے کہ انہیں اس واقعہ سے بہت دھکا لگا اور صدمہ پہنچا ہے ایک ایسی خاتون جس نے اپنی زندگی غریب اور بے بس لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردی ہے اس کے ساتھ ایسی شرمناک حرکت برداشت کے باہر ہے ۔پولس نے شک ظاہر کیا ہے کہ راہبہ سے زیاتی کرنے والے لٹیرے شہر کے باہر کے تھے جنہیں حائر کیا گیا تھا انہوں نے واردات کو منصوبہ بند طریقہ سے انجام دیا ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے راہبہ کی عصمت دری اور ہریانہ میں چرچ توڑے جانے کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور ان پر فوری رپورٹ طلب کی ہے اس کے با وجود جبل پور میں 20مارچ کو ہندو وادی تنظیم نے چرچ میں اس وقت جم کر توڑ پھوڑ کی جب وہاں ایک مذہبی تقریب چل رہی تھی اور نوی ممبئی کے نیوپانویل میں واقع سینٹ جارج کیتھولک چرچ پر 21مارچ ہفتہ کو دیر رات نا معلوم افراد نے حملہ کیا حملہ آفر موٹر سائیکل پر سوار ہوکر آئے تھے ان کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے انہوں نے چرچ پر پتھر پیھنکے جس سے جارج کی مورتی کے باہر لگے شیشہ کو نقصان پہنچا ۔یہ پورا واقعہ سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا ہے۔وزیر اعظم اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ملک سے فرقہ وارانہ کشیدگی دور کرنے کی بات کہہ چکے ہیں وہ اپنے ساتھیوں کو بھی اس طرح کی حرکتوں سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہے ہیں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ان واقعات پر کہا کہ اقلیتی طبقہ میں غیر محفوظ ہونے کا احساس نہیں آنا چاہئے مندر پر حملہ ہو یا مسجد پر ، چرچ پر ہو یا دوسری کسی مذہبی مقام پر قانون کے تحت گنہگاروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی انہوں نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے ریاستی اقلیتی کمیشنوں کے اجلاس میں کہا کہ سرکاراقلیتوں کے مفادات کی حفاظت کیلئے ہر ممکن کوشش کریگی انہوں نے بھگوان کی شپتھ لیتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے سرکار کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے ان کے مطابق اقلیتوں کی وطن پرستی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ۔
فادر ڈومنک ایمونول نے چرچوں پر حملے اور راہبہ کے ساتھ زیادتی پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نفرت و تشدد، مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانا نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ بھاگوت کے خلاف کچھ کہنا چاہتے ہیں ان کی خاموشی میں ہندو شدت پسندوں کے لئے نیم رضا مندی ہے ہم ان کی مجبوری کو سمجھتے ہیں وہ ان سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے بھی الگ لائن نہیں لے پا رہے ہیں کیونکہ وہ خود سنگھ کے پرچارک رہے ہیں اور اسی راستہ سے ہوکر یہاں تک پہنچے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ملک کی کئی ریاستوں کرناٹک ، اڑیسہ ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، جھارکھنڈ اور گجرات وغیرہ میں عیساؤں کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم چلائی جا رہی ہے جس سے چھوتے بڑے واقعات رو نما ہو رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہندو وادی تنظیمیں مذہبی نفرت کے ذریعہ دیش کو بانٹنے کی سازش کررہی ہیں جسے ناکام کرنے کی ضرورت ہے ۔
یہاں اس پہلو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ نریندر مودی کی لیڈر شپ میں مرکز میں بھاجپا کی سرکار بننے سے مودی کا قد بڑا ہوا ہے سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیمیں شاید یہ سوچ رہی تھیں کہ مودی سرکار ان کی مرضی سے کام کریگی لیکن سرکار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے چاہ کر بھی کوئی وزیر اعظم کسی ایک نظریہ کا ہو کر نہیں رہ سکتا اس وجہ سے مودی اور سنگھ کے درمیان کھنچاؤ پیدا ہوا ہے سابق میں اٹل جی کے راستہ میں بھی سنگھ نے روڑے اٹکائے تھے مودی کی بڑھتی مقبولیت کی وجہ سے سنگھ اور ہندو وادی تنظیمیں اپنے آپ کو بونہ محسوس کرنے لگی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی نفرت کے ذریعہ اپنی موجودگی درج کرانا چاہتی ہیں ۔
عیسائی مشن کے روڑرک گلبرٹ نے عیسائی راہبوں و چرچوں پر حملہ کئے جانے کی وجوہات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندو تنظیمیں عیسائیوں کے ذریعہ لالچ دیکر تبدیلی مذہب کرانے کے بہانے نشانہ بناتی رہی ہیں جبکہ آج تک وہ کوئی ایک بھی معاملہ ثابت نہیں کر سکیں ہیں در اصل یہ مشنریوں و چرچوں پر حملے کرکے عیسائیوں میں خوف و حراس پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کی نظر مشن کی اربوں روپیوں کی آراضی پر ہے یہ ملک کے باہر مقیم بھارتیوں سے مسلمانوں کو دہشت گرد اور عیسائیوں کو دھرم بدلنے والا بتا کر کروڑوں روپئے ہندوؤں کو ان سے بچانے کے نام پر اکٹھے کرتے ہیں اس طرح کے واقعات اس کثیر رقم کو ٹھکانے لگانے کا ذریعہ ہیں گھر واپسی کے لئے عیسائی کو دو لاکھ اور مسلمان کو پانچ لاکھ دینے کا اعلان اس کی دلیل ہے ۔ دلت لیڈر آر این چنڈیلیہ نے ملک میں اقلیتوں کے غیر محفوظ ہونے کو جمہوریت کے لئے خطرہ بتایا ہے ۔انہوں نے کہا کہ دھرم بدلنا ہمارے ملک کے باشندوں کا دستوری حق ہے اس سے انہیں کوئی روک سکتا تبدیلی مذیب کے بہانے حملہ کرنا ملک کے عوام کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے انہوں نے اس طرح کے حملوں کو دلت مخالف بتایا انہوں نے کہا کہ اس طرح کی شدت پسندی سے تبدیلی مذہب کے واقعات میں اضافہ ہی ہوگا ۔ ؂
تھوڑی دیر کے لئے یہ مان لیا جائے کہ عیسائی راہب مذہب بدلنے کا کام کرتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں ، کس طرح کے حالات سے دوچار ہیں کہ وہ اپنے باپ دادا کا دھرم چھوڑنے کو مجبور ہو جاتے ہیں غور کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب بدلنے کی لاچاری دلت ، آدی واسی اور غریب بے سہارا لوگوں کی ہے۔ ایک مذہب درجہ بندی ( ورن واد) کی وجہ سے عزت و سماجی نا برابری سے محرومی کا شکار ہیں دوسرا جنگلات میں رہنے کی وجہ سے دنیا سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے اسے ضروریات زندگی جٹانا بھی مشکل ہے تو تیسرا طبقہ دو جون کی روٹی اور اپنا نئت کو ترستا ہے ۔ شری کرشن نے گیتا میں کہا ہے کہ ’’ انسان کا کرم اس کی عزت و بے عزتی کا پیمانہ ‘‘ (ورن ) ہے ۔
لیکن بھارت میں ذات کو عزت و بے عزتی کا معیار بنا دیا گیا ہے آج اکیسویں صدی میں بھی دلتوں کا مندروں میں داخلہ بند ہے بہار میں وزیر اعلیٰ رہے جیتا رام مانجھی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مندر میں جانے پر مندر دھلواکر شدھی کرن کر نا کیا کسی مذہب سماج کو زیب دیتا ہے ۔ اعلیٰ ذات والوں کے کنویں سے دلتوں کو پانی بھرنے کی اجازت نہیں ہے نا وہ اس تالاب میں اپنے جانوروں کو نہلا سکتے ہیں جہاں اعلیٰ ذات کے لوگوں کے جانور پانی پیتے ہیں ۔ اگر کوئی نچلی ذات والا کوئی دکان کھول لیتا ہے تو اس کی دکان سے اعلیٰ ذات والے سامان نہیں خریدتے اسکولوں میں بھی بھید بھاؤ کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ۔ یہی ہے ہمارے سماج کی سچائی ۔ اسی سماجی اذیت اور گٹھن سے نجات ، عزت اور برابری حاصل کرنے کے لئے شاید کئی لوگ اپنا مذہب بدل لیتے ہیں ۔ جن لوگوں نے مذہب تبدیل کیا ہے وہ اپنے آپ کو ان سے بہتر حیثیت میں محسوس کرتے ہیں جو اپنے پرانے مذہب پر قائم ہیں ۔
ایک طرف اپنے آپ کو سیوک بتانے والے نفرت پھیلانے دنگا بھڑکانے اور لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے کا کام کررہے ہیں وہ سماج کو بانٹ کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ غریبوں ، دلتوں اور مجبوروں کا استحصال کر سکیں سروے بتاتے ہیں کہ آدی واسی جنگل زمین سے بے دخل کئے جانے کی وجہ سے انتہائی خراب زندگی گزار رہے ہیں 40-35سال کی عمر میں بوڑھے ہو جاتے ہیں ان کی عورتیں خون کی اور بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں ۔اسی وجہ سے ان کی نشودنما نہیں ہو پاتی کئی علاقوں میں وہ نمک اور چاول پر گزارہ کررہے ہیں صحت کے نام پر انہیں کوئی سہولیت مہیا نہیں ہے غریب و بے سہارا لوگوں کے لئے کچھ کرنے کا ان سیوکوں کے پاس وقت ہی نہیں ہے دوسری طرف عیسائی مشنری ہیں جو جنگل جنگل گھوم کر آدی واسیوں کی سدھ لے رہے ہیں ان کی خدمت کررہے ہیں ان کے علاج و معالجہ کا انتظام کرتے ہیں ان کے بچوں کی تعلیم کا بندوبست ، خواتین کو اینمک ہونے سے بچانے کی کوشش بے سہارا غریب لوگوں کو آسرا فراہم کرتے ہیں ان کے لئے کھانا اور دوا جٹاتے ہیں اسی طرح یہ دلتوں کی ملین بستیوں میں تعلیم و صحت اور صاف صفائی کا کام کرتے ہیں ۔ سماجی طور پر حاشے پر پڑے ان لوگوں کو اوپر اٹھانے میں عیسائی مشنریوں کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا سوال یہ ہے کہ تخریب کاری کے بجائے ہندو وادی تنظیمیں کیا خدمت کو اپنا مشن بنا سکیں گی کیا سماج میں موجود نا برابری اور نا انصافی کو دور کرنے کی کوئی تحریک شروع کع سکیں گی ۔
سوال یہ ہے کہ کیا اقلیتوں ، آدی واسیوں ، دلتوں اور کمزور طبقات کے خلاف ہندو وادی تنظیموں کی یلغار ان محروموں کو ایک ساتھ لا سکیں گی موجودہ سرکار نے بجٹ میں دلتوں کا حصہ کم کیا ہے آدی واسیوں کو دی جانے والی سبسڈی میں 12ہزار کروڑ روپے گھٹائیں ہیں اور اقلیتوں کے لئے فنڈ بڑھانے کے بجائے وزیر بڑھائیں ہیں مشہور صحافی خوشونت سنگھ نے مسلم کش فسادات پر لکھے مضمون میں کہا تھا کہ قدرت کا نظام ہے کہ جب کسی قوم یا طبقہ کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اور طاقتور ہوکر مضبوطی کے ساتھ ابھرتا ہے ۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ تمام محروم متحد ہوں گے یا شدت پسند اپنی سوچ بدلیں گے ۔ دیش میں جمہوریت قائم رہے اور دستور کی حکمرانی ہو اس کے لئے کچھ تو جس بدلنا پڑے گا ۔

«
»

میں اسے کیا جواب دوں؟

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے