کڑہ گاؤں کے سانحہ میں سیاسی لیڈروں اور صوبہ کی پولس کا رویہ غیر ذمہ دارانہ رہا یہاں تمام سیاسی پارٹیوں کے لوگوں نے اپنی موجودگی درج کرائی اور صوبائی سرکار کی نا اہلی و نا کامی کو نشانہ بنایا ۔ لیکن ملک میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں اس پر سنجیدگی سے کیا قدم اٹھائے جانے چاہئیں اس کی کوئی عملی شکل سامنے نہیں آسکی ۔دوسری طرف یو پی کے ڈی جی پی کا اس واقعہ کو زمین جائداد کا جھگڑا یا معاشقے کا معاملہ بتا کر ٹالنے کی کوشش کرنا یا پھر یہ کہنا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں روٹین کرائم میں سے ایک ہے ۔ اس کی دلیل میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے حوالے سے کہنا کہ یو پی جرائم میں 22ویں نمبر پر ہے ۔ عصمت دری کے دس واقعہ یہاں روز درج کئے جاتے ہیں ۔وغیرہ اسی طرح یہاں کے سیاسی لیڈران کی بیان بازی بھی افسوسناک ہے ملائم سنگھ کا کہنا کہ لڑکوں سے غلطی ہو جاتی ہے یا پھریو پی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کا خاتون صحافی سے پوچھنا کہ آپ محفوظ ہیں کہ نہیں تو پھر یو پی میں جرائم کہاں ہے ۔ یا پھر رام گوپال جی کا کہنا کہ الیکٹرونک میڈیا خواہ مخواہ اس واقع کو طول دے رہا ہے غرض کہ اس سب رسا کشی کے بیچ ان نو عمر لڑکیوں کو انصاف دلانے کی بات دب کر رہ گئی ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ روز بروز اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر واقع لگتا ہے کہ دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جو صوبے خواتین کے لئے غیر محفوظ مانے گئے ہیں ان میں دہلی بھی ایک ہے یہاں 2012میں 572معاملے درج کئے گئے تھے جو 2013میں 661ہوگئے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے 2012کی رپورٹ میں عصمت دری کے ملک بھر میں 24923واقعات کی نشاندہی کی ہے جبکہ 60فیصد متاثرہ خواتین اپنی اور خاندان کی بدنامی کے ڈر سے پولس تک نہیں پہونچتیں۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ آندھرا پردیش اور ہریانہ پولس 72فیصد معاملے درج ہی نہیں کرتی ۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتی ہے کہ امن قائم رکھنے کے کام سے انہیں فرصت نہیں ہے ۔
کہاوت مشہور ہے ‘’’ جیسا راجہ ویسی پرجا ‘‘ جمہوریت میں یہ کہاوت بدل کر کچھ اس طرح ہو گئی ہے جیسی عوام ویسے ان کے نمائندے ۔ اور نمائندے ایسے کہ جہاں عوام کے لئے قانون بنائے جاتے ہیں جسے سیاست کا مندر کہا جاتا ہے اس مندر میں بیٹھ کر پورن فلمیں دیکھنے میں بھی انہیں گریز نہیں ۔ کئی ممبران اسمبلی کی ممبر شپ اس بنیاد پر رد ہو چکی ہے یہ معاملہ کسی صوبے یا پارٹی تک محدود نہیں ۔ حمام میں سب ننگے ہیں 2004کی پارلیمنٹ میں 24فیصد ممبران ایسے تھے جو شدید کرمنل مقدمات قتل ، اقدام قتل ، ڈکیتی ، لوٹ مار ، اغوا اور پھروتی وصولنے جیسے معاملوں میں ملوث تھے ۔2009میں یہ تعداد بڑھ کر 30فیصد ہوگئی یعنی 543میں سے 162ممبران کاکرمنل ریکارڈ تھا .۔ 2014کی پارلیمنٹ میں 186ممبران ایسے ہیں جن پر کرمنل مقدمات چل رہے ہیں یعنی 34فیصد صرف بی جے پی کے 98ممبران اس زمرے میں شامل ہیں جبکہ کئی ایسی پارٹیاں بھی ہیں جن کے چن کر آنے والے 100فیصد ممبران پارلیمنٹ کرمنل ریکارڈ رکھتے ہیں ۔
سماج میں محبت ، اخوت ، دیا، رحم کا جذبہ دھیرے دھیرے کم ہو رہا ہے ۔ اس کی وجہ سے رشتہ ناتوں کا بندھن کمزور پڑتا جا رہا ہے ۔ کرشن جی نے صحیح کہا تھا کہ سماج میں رحم (کرونا) ختم ہوتا ہے وہ سماج خود غرض ہو جاتا ہے ۔ انسان کو صرف اپنے کو مطلب ہوتا ہے ۔ وہ رشتہ ناتوں کو ، یا انسانوں کو صرف ایک ذریعہ یا سیڑھی کی طرح استعمال کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔اسے مادہ پرستی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے یعنی انسانوں کو بھی محض ایک چیز سمجھا جانے لگا ہے ۔ جس طرح گھر کے سامان کو اپنی سہولت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی ضرورت پوری ہونے پر اسے کباڈ خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اسی طرح انسان اپنی ضرورت کے لئے دوسرے انسانوں کو استعمال کرنے کی کوشش کررہاہے ۔ کیونکہ عورتیں اور لڑکیاں سماج میں کمزور صنف ہے اس لئے وہ اس کی زد
میں پہلے آجاتی ہے ۔ موبائل فون پر فحش(Poren) اور ہورر (Horrer)فلمیں آسانی سے دستیاب ہیں اس کی وجہ سے نو جوانوں میں فونو گرافی کا چلن بڑھ رہا ہے دوسری طرف مادہ پرستی ذہنیت کی وجہ سے سماجی قدروں کی بندش ڈھیلی پڑ گئی ہے اس کا خمیازہ عورتوں اور لڑکیوں کو بھگتنا پڑرہا ہے ۔ عصمت دری ، قتل اور تشدد میں اضافہ اس کا ایک نتیجہ ہے ۔
میڈیا الکٹرونک ہو یا پرنٹ جب سے ان پر پونجی پتیوں کا قبضہ ہوا ہے عجیب وغریب کھیل دیکھنے کو مل رہے ہیں ، ٹی وی چینل جن کا گلا عورتوں اور لڑکیوں پر ہو رہے مظالم کا دکھ بیان کرتے نہیں دکھتا وہی رات رات بھر پاور پراش ، شکتی پراش اور مردانہ طاقت بڑھانے والی دواؤں کے ننگے و فحش اشتہارات دکھاتے ہیں ۔دن میں عصمت دری کرنے والوں کے خلاف متاثرہ لڑکیوں کو انصاف دلانے کے لئے ایس ایم ایس منگواکر کمائی کرتے ہیں اور رات میں اشتہارات سے کمائی اور دن میں اس کی مخالفت سے کمائی ۔ ہر اشتہار میں عورت کے جسم کوپرکشش استعمال کی چیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے ہر چینل پر واردات اور جرم کی کہانیاں دلچسپ انداز میں چٹخارے لے لیکر پیش کی جاتی ہیں ۔ ٹی وی چینلوں پر تشدد ، قتل عصمت دری ، اجتماعی آبروریزی کی تفصیلات دیکھ دیکھ کر سماج میں
مجرمانہ ذہنیت کا پیدا ہونا ، فطری عمل ہے ۔ خاص طور سے ایسے لوگ جو پہلے سے ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ وہ اس سے متاثر ہو کر تشدد اورجرم کو بغیر سوچے سمجھے انجام دینے کو تیار ہو جاتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ ان کی مردانگی تبھی مانی جائے گی جب عورتوں پر ظلم کریں ۔ در اصل عورتوں کو عام انسان کے طور پر سماج میں قبولیت نہ ملنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے ۔
وزیر اعظم شری نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر میں مندر سے پہلے بیت الخلاء بنوانے کی بات کہی تھی ۔ نریندر مودی پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے بیت الخلاء کی اہمیت کو اتنی شدت سے محسوس کیا اگر ان کی اس فکر مندی کو اتر پردیش میں نو عمر لڑکیوں کے ساتھ ہوئی دل سوز واقع کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو اس بات کی نشاندہی ہو جاتی ہے کہ کس طرح کے خطرے کا سامنے پورے ملک میں لڑکیوں و خواتین کو بیت الخلاء کی غیر موجودگی میں کرنا پڑرہا ہے ۔ یو این کی رپورت کے مطابق ہندوستان میں لگ بھگ 65فیصد دیہی آبادی آج بھی کھلے میں رفع حاجت کرتے ہے اور خواتین و لڑکیوں کو رات میں باہر نکلنے کو مجبور ہونا پڑتا ہے اس سے نہ صرف اس کی عزت و آبرو کو خطرہ محسوس ہوتا ہے بلکہ یہ ان کی حفاظت کے لئے بھی خطرہ ہے ۔
دیہی علاقوں میں آج بھی یہ اندھ وشواس پایا جاتا ہے کہ بیت الخلاء میں بھوت بستے ہیں آج کے مشینی دور میں اس طرح کی غلط فہمیوں کا ہونا ترقی یافتہ سماج
کے لئے ایک چیلنج ہے ۔جبکہ سرکار یونائیڈینشین کی مدد سے کھلے میں رفع حاجت کے مسئلہ سے ملک کو نجات دلانا چاہتی ہے ۔ کیونکہ اس کی وجہ سے خواتین و لڑکیوں کو تو خطرات لاحق ہیں ہی کئی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں جو مہا ماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ڈائریا ، پیچس ، مروڈ پیٹ در، بخار کچھ اچھا نہ لگنا وغیرہ۔
یہاں یہ بھی زکر کرتے چلیں کہ ہندوستان میں بھی کئی ایسے سماج ہیں جہاں عصمت دری کے واقعات نہیں ہوتے ۔بچیوں کو ماں کے پیٹ میں قتل نہیں کیا جاتا ۔ جہاں جرائم نام و نہاد ، مہذب یا تہذیب یافتہ سماج کے مقابلہ نا کے برابر ہیں تبت سماج ، آدی واسی سماج ، منی پور شمال مشرق کی باقی ریاستیں اس کی مثال ہیں ۔ جرم نہ ہو اس کے لئے بہتر قدروں والا سماج بھی بنانا ہوگا ۔
ہمارا سماج تیزی سے بازار کی گود میں جا رہا ہے ۔ وہ مغرب سے متاثر ہے جبکہ مغرب میں جو بدلاؤ آئے ہیں وہ تعلیم کے ساتھ آئے ہیں ۔ ہمارے یہاں جہالت کے ساتھ تیز رفتاری سے باہری فکرکو اپنانے کا جنون پروان چڑھ رہا ہے ۔ عوام جب ضروری مسائل پر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان لوگوں کا گھبرانا لازمی ہے جن کا کام ہی تقسیم کی سیاست کرنا ہے ۔ بدایوں کے واقعہ سے جو بیداری کی بات شروع ہوئی وہ جاری رہنی چاہئے ۔ بیدار ذہن لوگوں کو پورے ملک میں عورتوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک ہونا ہوگا تاکہ قانون کی حکمرانی قائم ہو انصاف میں تاخیر نہ ہو اس سے عورتیں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر سکیں گی ۔ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مردوں کو عورتوں کے تعلق سے اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا ۔ اس کی شروعات اپنے گھر سے کرنی ہوگی گھر میں عورت کی عزت کریں تو یقیناًباہر بھی عورت کو عزت دیں گے ۔ عورتیں محفوظ ہوں گی تبھی دیش کی حفاطت یقینی ہو سکے گی کیونکہ دیش کا مستقبل تو انہیں کی گود میں پلتا ہے جو سماج ان باتوں کو نہیں سوچتا اس کو کیا نام دوں ؟ ۔
جواب دیں