اس گھر کو آگ لگ گئی……………….

اپنے مطالبات کو تسلیم کرانے کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ اپنے ادارے پر کیچڑ اچھالی جا رہی ہے، اپنے قائد کو مافیا ڈان کہا جا رہا ہے اور ہم خاموش ہیں۔ کیا محض اس لئے کہ اس شخص کی بے عزتی کی جارہی ہے جس کے خلاف ہم نے محاذ کھول رکھا ہے؟ کیا ہمیں یہ بھی یاد نہیں کہ چند فرقہ پرست اور فاشسٹ طاقتیں ہمارے ادارے کی نیک نامی پر قد غن لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں اور ہم ہیں کہ اپنے چند معمولی مطالبات کے لئے پہلے دھرنے مظاہرے کا اسٹیج تیار کرتے ہیں اور پھر ایسے باہری عناصر کو دعوت دیتے ہیں جو یہاں آنے اور ہم پر کیچڑ اچھالنے کے لئے پر تولے کھڑے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اگر وائس چانسلر اپنی بچیوں سے خطاب کرتے ہوئے کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو گھر کے اندر کی بات قومی سطح کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ اگر اپنی قوم کی ترقی کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی خامیوں کی جانب ان کی نشان دہی کرادیتے ہیں تو ان کے خلاف ملک بھر میں بیانات کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔
تمام علی گڑھ برادری کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ’’ مافیا ڈان‘‘ کہا جانا وائس چانسلر کے با وقار عہدے کی بے حرمتی ہی نہیں بلکہ اے ایم یو کی شبیہہ کو عالمی سطح پر داغدار کرنے کی ناپاک سازش ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ ملتِ اسلامیہ کا طرۂ امتیاز ہیں اور تمام ملت ان پر اس لئے فخر کرتی ہے کہ ملت کا مستقبل ان کے زیرِ سایہ پروان چڑھتا ہے ایسے میں ان اساتذہ نے یہ کیسے برداشت کرلیا کہ باہری عناصر یہاں آکر اے ایم یو کی شبیہہ کو داغدار کریں اور ا س کے ذمہ داران پربے بنیاد الزامات لگاکر اے ایم یو کا مذاق اڑائیں۔ ہمیں ہر حال میں ا س بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی عالمی سطح کاشہرت یافتہ ادارہ ہے جس کے فارغین دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس ادارہ کے اعلیٰ افسر پر بے بنیاد الزامات عائد کئے جانے سے ان تمام ہی سابق طلبا کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرس ایسو سی ایشن ( اموٹا)اور وائس چانسلر کے درمیان کسی بات پر اختلاف ممکن ہے لیکن اس قسم کے اختلافات، مطالبات کو تسلیم کرانے کے لئے دھرنے، مظاہرے، ہڑتالیں ہمارے داخلی معاملات ہیں جن میں کسی بھی قیمت پر باہری عناصر کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دانش گاہِ سرسید ایک عالمی شہرت یافتہ ادارہ ہے جس کا اپنا ایک تاریخی کردارہونے کے ساتھ اس کی اپنی روشن روایات بھی ہیں جو شر پسند عناصر کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتی رہتی ہیں اور وہ اے ایم یو کو بدنام کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اکثر اپنے ہی مذکورہ شرپسندوں کو اس قسم کے مواقع مہیا کرادیتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں اور ہم پر کیچڑ اچھال کر ہمارے ترقیاتی عمل میں رکاوٹ ڈالیں جیساکہ پروفیسر نندتا نارائن کے معاملہ میں ہوا ہے۔ یہاں ایک اور قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ فیڈ کوٹا کی صدر پروفیسر نندتا نارائن خود ایک استاد ہیں، پروفیسر کے باوقار عہدے پر فائز ہیں اور اب تک نہ جانے کتنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرچکی ہیں اس حقیقت کی روشنی میں ملک کی سینئرا ستاد ہونے کے ناطے ان کا ایک باوقارادارے کے وائس چانسلر کو مافیا ڈان قرار دینا نہ صرف اے ایم یو اور علی گڑھ برادری بلکہ ان کے استاد کے عہدے کی بھی عظمت کے خلاف ہے اور موصوفہ کی قابلیت، اہلیت اور تدریسی رہنمائی پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ ان کے بیان کے بعد بہت لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہوں گے کہ کیا اساتذہ اس قسم کی زبان بھی استعمال کر سکتے ہیں جو سماج کے درجہ چہارم طبقہ کے افراد بھی استعمال کرتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہوجاتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرس ایسو سی ایشن ( اموٹا)کے ذمہ داران میں ایک بھی استاد ایسا نہیں جس کی صلاحیت، لیاقت، قابلیت، اہلیت اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قلبی وابستگی پر انگلی اٹھائی جا سکے پھر یہ سوال تا دمِ تحریر ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ اموٹا کے ذمہ داران نے اسی وقت پروفیسر نارائن کے مذکورہ بیان پر افسوس کا اظہارکیوں نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قابلِ احترام وائس چانسلر ملک کے مسلمانوں کی توقعات کا مرکز ہوتے ہیں اور اے ایم یو کی تاریخی روایات اور یہاں کی عظیم الشان تہذیب و ثقافت کے پیشِ نظر کسی بھی حالت میں وائس چانسلر کے باوقار عہدے کی عظمت کو ٹھیس پہونچایا جانا اے ایم یو کے ا ساتذہ، طلبأ ،سابق طلبأ اورملازمین کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے جسے سرسید کے چمن سے قلبی وابستگی رکھنے والا ہر گزہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ باوقار اموٹا کویہ حق ہے کہ وہ اپنے مطالبات کو وائس چانسلر کے روبرو رکھے لیکن ایسی صورتِ حال میں اموٹا ہی نہیں اے ایم یو کی تمام باڈیز اور اے ایم یو سے وابستہ ایک ایک شخص کو اس بات کاخصوصی طور پر خیال رکھنا چاہئے کہ باہری عناصرہمارے داخلی معاملات کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں جس کی وہ تاک میں لگے رہتے ہیں۔
اے ایم یو میں اموٹا کے ذریعہ چل رہی تحریک نے ادارہ کا برا چاہنے والوں کے لئے کافی مواد مہیا کرادیا ہے لہٰذا اساتذہ برادری اور اموٹا کے ذمہ داران کی یہ ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے منصب کے شایانِ شان اس ادارہ کے وقار اور عظمت کا خیال رکھتے ہوئے خود پروفیسر نندتا نارائن کے ذریعہ استعمال کی گئی غیر اخلاقی زبان اور اے ایم یو کے وائس چانسلر کو مافیا ڈان کہے جانے پرافسوس کا اظہار کریں، پروفیسر نارائن کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کریں اور دنیا کو دکھادیں کہ ہمارے مسائل ہمارے ادارے کی عظمت سے بڑھ کر کبھی نہیں ہوسکتے اور ہم کسی بھی قیمت پر ادارہ کا برا چاہنے والوں کو ان کی ناپاک سازشوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور اے ایم یو کے ترقیاتی عمل میں وائس چانسلر کے ساتھ بھر پور تعاون کریں گے۔ 
وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ پروفیسرنندتا نارائن کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے اور ان کے خلاف عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی شرپسند کی اتنی ہمت نہ ہوسکے کہ وہ اے ایم یو کی عظمت پر انگلی اٹھائے۔ ویسے پروفیسر نندتا نارائن بھی ایک ا ستاد ہیں اور بہتر یہی ہوگا کہ وہ خود اپنا احتساب کرتے ہوئے اپنے بیان کے لئے وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ ( ریٹائرڈ) اور اے ایم یو برادری سے معافی مانگ لیں تاکہ کسی استاد کے خلاف قانونی چارہ جوئی جیسی ناپسندیدہ کارروائی سے بچا جا سکے۔

«
»

ملک نے عامر کو شہرت ‘تو عامر نے اپنی صلاحیتیں دی

یوٹیوب سرویس جن ملکوں میں پابندی(بلاک) لگائی گئی ہے وہاں کے لوگ بھی اب فکروخبر کے ویڈیوز سے استفادہ کرسکتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے