یادرہے کہ یہی ٹونی بلیئرتھے جنہوں نے اسلام کوایک دہشت پسند مذہب تعبیر کرتے ہوئے کہا تھاکہ اگراس کا قدم نہیں روکاگیا تویورپ میں اس کا دائرہ بہت جلدپھیل جائیگا۔پھرایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پرعالم اسلام کوتاخت وتاراج کرنے کا سلسلہ شروع کردیاگیا۔افغانستان کے بعدعراق ،پاکستان ،شام اورپھرعراق۔دنیا کوا?ج جارج ڈبلیوبش اورٹونی بلیئرسے پوچھناچاہئے کہ عراق میں امن قائم کرنے کیان کے وعدوں کاکیاہوا؟۔یہ تو واضح ہی ہے کہ عراق میں جاری خانہ جنگی کابراہ راست فائدہ امریکہ کوحاصل ہوگا۔اس جنگ سے عراق وایران کوکچھ ملنے والانہیں ہے کیوں کہ یہ آگ جس نے لگائی ہے وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپورکوشش میں مصروف ہے۔بیرونی طاقتیں ہربارمسلم ممالک میں ٹکراو?کی صورت پیداکرکے طرفین سے مٹھی گرم کرتی رہی ہیں لیکن بہت کچھ لٹانے کے باوجود مسلم ممالک کے سربراہان کے ہوش ٹھکانے نہیں لگے ہیں۔
میں اس میں کسی تذبذب کا شکارنہیں ہوں کہ عراق میں جاری کشت وخون مسلکی جنون کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ اقتدارکی ہوس پوراکرنے کی مذموم کوشش ہے لیکن کچھ طاقتیں اسے شیعہ سنی تصادم قراردے کرایک بارپھرمسلمانوں کے دوطبقوں کوباہم لڑانے کی سازش رچ رہے ہیں۔یہ کوشش بین الاقوامی سطح سے لے کرقومی سطح تک ہورہی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اسے سنی دہشت گرداورشیعہ کے درمیان جاری جنگ کہہ رہاہے جبکہ بی جے پی لیڈرسبرامنیم سوامی نے تویہاں تک اعلان کردیاکہ اس جنگ میں ہندووں کوشیعہ کا ساتھ دینا چاہئے کیوں کہ شیعوں کا رویہ ہندووں کے تئیں نرم ہوتاہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں عراق کی مددکرنی چاہئے اوراسرائیل سے دوستی نہیں توڑنی چاہئے۔مجھے سبرامنیم کی اس دریادلی پر بے ساختہ ہنسی آگئی کیونکہ وہ مسلمانوں کے خلاف زہراگلنے کیلئے جانے جاتے ہیں ،کبھی انہوں نے مسلمانوں کوووٹ دینے کیحق سے بھی محروم کردئے جانے کا مطالبہ کیاتھا اس وقت انہوں نے شیعہ سنی کی تفریق بھی نہیں کی تھی پھرآج ان کے فکرمیں اچانک تبدیلی کسی گہری سازش کا نتیجہ ہوسکتاہے۔کہیں ایساتونہیں کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی اگ بھڑکانے کی تیاری چل رہی ہے اورمسلمانوں کو کمزورکرنے کیلئے شیعہ کے ساتھ دوستی اورسنی کے ساتھ دشمنی کا دکھاواکیاجارہے۔
برسوں پہلے ہم نے ایک کہانی پڑھی تھی۔ تین آدمی گناکے ایک کھیت سے گنا توڑکرکھاتے ہوئے پکڑیگئے۔کسان تنہاہونے کی وجہ سے ان کو چوری کا سزادینے سے قاصرتھا۔اسیایک تدبیر سوجھی۔اس نے ان تینوں سے اس کاگھراوراسکی ذات پوچھی۔ پھرایک طرف مخاطب ہوکرکہنے لگا ’ یہ ان دونوں میں توایک میرے گاؤ ں کے قریب کا ہے اوردوسرامیری ذات کا ہے اس لئیاس نے گناتوڑلیالیکن تم نہ تومیرے گاو ں کے ہواورنہ ہی میری ذات کے ہو۔اس کے بعددونوں چوراورمالک نے مل اس کی جم کرپٹائی کی اورآگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دورجاکرکھیت مالک نے ایک کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ تو میری ذات کاہے اس لئے میرا کھیت اس کا کھیت ایک ہی جیسا ہے لیکن تم تومیرے گاوں کے بھی نہیں ہونہ ہی میری ذات کے ہوپھرتم نے میرے کھیت سے چوری کیوں کی جب کھیت مالک اس کوٹھکانے لگاچکاتوتیسرے کی جانب مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ تم میری ذات کیہوتوکیا میرے کھیت سے چوری کروگے ؟چوں کہ چورتنہابچ گیاتھا اس لئے اس کا بھی حشراس کے دیگردوستوں کا ہوا۔
یہ فقط ایک کہانی نہیں ہے بلکہ عصرحاضرمیں مسلمانوں کیلئے درس عبرت ہے۔گجرات میں جب قتل عام ہواتووہاں یہ نہیں دیکھاگیا کہ کون شیعہ ،کون سنی ہے بلکہ بنام مسلم جوسامنے آیااسے مشق ستم بنایاگیا، گھروں اور دکانوں کوجلاتے وقت شیعہ اورسنی کا خیال نہیں رکھاگیا۔ سبرامنیم کی ہمدردی کوگہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ گجرات میں بھی ہندووں نے بھورا(شیعہ) کویہ اعتماددلایاتھاکہ ہمیں تم سے کوئی غرض نہیں بلکہ سنیوں سے نبٹنا ہے لیکن آج شواہدمنافقانہ پالیسی کا پول کھول رہے ہیں۔سبرامنیم کواگرواقعی انسانیت کا درد ہے توانہیں شیعہ سنی کی تفریق کرنے کے بجائے انسانی لہوکی حفاظت کی بات کرنی چاہئے۔خون توخون ہی ہے خواہ وہ کسی کا ہو،اس کا رنگ لال ہی ہوگا ہمیں بلا تقریق مذہب مظلوموں کا ساتھ دیتے ہوئے انصاف کا تقاضہ پورا کرنا چاہے۔ مسلک ومذہب اورقبائل کی دیوارکے پس پردہ اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کا موقع ڈھونڈناموقع پرستی اورخودغرضی ہے۔
عالم عرب میں کبھی جہادتوکبھی مسلکی تشددکے نام پرخانہ جنگی کابازارگرم ہے ،افغانستان ،شام ،مصر،پاکستان اورعراق گزشتہ کئی برسوں سے زبردست خانہ جنگی کے شکارہیں حالاں کہ وہاں مسلک کینام پرجاری رقص ابلیسی کا تعلق کسی بھی نہج سے اسلامی جہادسے نہیں ہے۔مسلم ممالک میں پھوٹنے والی خانہ جنگی کو بڑی چالاکی سے اہل مغرب نے بہارعرب کا نام دیدیا۔مسلم سربراہان کوظالم اورعوام کومظلوم قراردیتے ہوئے عوام سے جھوٹی ہمدردی کا اظہارکرکے عوام کے ہاتھوں میں مہلک ہتھیارتھمادئے۔ اسی ہمدردی کا نتیجہ تھاکہ شام میں مہلک گیس نے سیکڑوں بچوں کوتڑپاتڑپاکرموت کے گھات اتاردیا اوریہ بھی اسی منافقت کی دَین ہے کہ آج جنگ زدہ ممالک سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی تعدادبڑھتی جاری ہے۔ پہلے میانمارمیں مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کیا گیا اوریہ ا?گ سری لنکاتک پہنچ گئی جہاں انتہاپسندبودھوں کے ذریعہ مسلمانوں پر ظلم وتشددکا سلسلہ جاری ہے۔جمہوریہ افریقہ کوبھی مسلمانوں سے پاک کرنے کی تحریک شروع کردی گئی اورسیکڑوں مسلمانوں کوتہہ تیغ کردیاگیا لیکن حیرت اس بات پرہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کی اس منظم سازش کوعالمی میڈیااورانصاف کے علمبرداراہل مغرب نے کبھی دہشت گردی سے تعبیرنہیں کیا۔
دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پردہشت گردی کوفروغ دینے کا سلسلہ جاری ہے اورپوری دنیا اس کی لپیٹ میں آتی جارہی ہے۔ایسے ہولناک ماحول میں اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے مقصدکوپوراکرتیہوئے دنیا کوجنگ کی آگ میں کودنے سے بچائے۔صرف زبانی مذمت سے حالات کنٹرول ہونے والے نہیں اس لئے اقوام متحدہ کو سخت فیصلہ لینا ہوگا۔ سب سے پہلے امریکہ اوراس کے اتحادی کو لگام لگانا ضروری ہے کیوں کہ ا?ج عراق ،افغانستان ،پاکستان اورشام میں جوخون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اس کی بنیاد سابق امریکی صدرجارج ڈبلیو بش اوربرطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئرنے رکھی تھی۔جنگی جرائم قانون کے تحت ان دونوں جنگی مجنوں کے خلاف مقدمہ چلاناچاہیے۔لیکن اقوام متحدہ جس طرح امریکہ کی کٹھ پتلی بنتا جارہاہے ا س کے پیش نظرمجھے امیدقوی ہے کہ اقوام متحدہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گا جس سے امریکہ ناراض ہو۔اقوام متحدہ کی بے بسی تواسی وقت سامنے آگئی تھی جب ہزارمخالفتوں کے باوجودامریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔جنگ وجدال کی تاریخ شاہدہے کہ جنگ کبھی کسی مسئلہ کا حل نہیں نکال سکی ہے ،جب بھی کہیں امن کا سویراقائم ہوا ہے۔ اس میں باہمی گفتگواورآپسی صلح پسندی نے ہی اہم کردارنبھایاہے ا س کے باوجود آج قومی وبین الاقوامی سطح پرہرچھوٹے بڑے مسئلہ کوحل کرنے کیلئے جنگ کا بازارگرم کردیاجاتا ہے اورپھرپلک جھپکتے ہی خداکی زمین انسانوں کے لہوسے لالہ زارنظرآنے لگتی ہے۔
جواب دیں