عراق امریکی سازشوں کے نرغے میں!

گویا کہ تین دہائیوں سے عراق جنگ کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ تشویش تو یہ ہے کہ آج بھی عراق میں تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں حکومت مخالفین نے موصل پر حملہ کرکے اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔اس حملے کے دوران بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں۔بھیانک تباہی کے باعث 5؍لاکھ لوگ اس علاقے سے ہجرت کرچکے ہیں۔عراقی حکومت ان سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کررہی ہے اور وہ عام لوگوں کو بھی مسلح کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ داعش کو پسپاکیاجاسکے ۔ 
سوال یہاں یہ ہے کہ آخر آگے بڑھنے اور پیچھے ڈھکیلنے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کب تک عراق کے عوام اس طرح کے حملوں کی زد میں آکر اپنی جانیں گنواتے رہیں گے؟ کب تک وہ اپنے گھروں کو چھوڑکر ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے رہیں گے؟فی الوقت عراق کی جو صورت حال ہے ، اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں عراق کے باشندوں کو غیر یقینی صورت حال سے نجات مل جائے گی۔ عراق گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اس قدر پیچھے چلا گیا ہے کہ اس کی تلافی کے لئے اب کئی دہائیاں کیا، کئی صدیاں چاہئیں۔عراق کی ترقی کا سوال تو ابھی دور دور تک نہیں ہے کیوں کہ ابھی تو عراق کا بنیادی ڈھانچہ ہی تباہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال لوگوں کے تحفظ کا ہے۔ عراق میں عدم سلامتی کا جو عالم ہے ، جس طرح لوگ خطرات سے دوچارہیں، جس طرح لوگ ہلاک ہورہے ہیں، جس طرح اپنی جان بچانے کے لئے انہیں گھر سے بے گھر ہونا پڑرہا ہے، وہ سب سے زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ کیوں کہ سلامتی وتحفظ کے بغیر ہر ترقی ادھوری ہے بلکہ بے معنی ہے۔ جب زندگی ہی غیر محفوظ ہو تو ترقی کاکیا مطلب ہے؟ ابھی تو عراق امن وامان سے خالی ہے، بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط کرنے یا عراق اور عوام کو ترقی یافتہ بنانے کا سوال تو بعد میں آئے گا۔
عراق کی تباہی اور بربادی کی اگر بنیادی وجوہات تلاش کی جائیں گی تو یقیناًان میں ایک وجہ امریکہ کی عراق میں بے جامداخلت سامنے آئے گی۔اول1990کی پوری دہائی میں امریکہ نے عراق پر اقتصادی پابندیوں کو لگائے رکھا، اس کے بعد 2003میں ایسا حملہ کیا کہ عراق کا سارا نظام دربرہم ہوکر رہ گیا ۔ صدام حکومت کا بالکلیہ خاتمہ ہوگیا، نظم ونسق کا نام ونشان مٹ گیا، آنافاناً عراق پچاسوں سال پیچھے چلا گیا۔مزید حالات کو خراب کرنے کے لئے اس نے اپنی فوجوں کو وہاں تعینات رکھا، حالانکہ کہایہ گیا کہ امریکی فوجوں کووہاں کے حالات قابو میں رکھنے کے لئے چھوڑاگیاہے ، لیکن امریکی افواج کی موجودگی میں بھی عراق کی سرزمین باشندگان ملک کے خون سے تربہ تر ہوتی رہی۔ جب امریکہ نے یہ دیکھ لیا کہ اب عراق تباہی کی دلدل میں اس طرح دھنس چکاہے کہ مدتوں تک بھی اس سے نہ نکل سکے گا تو امریکہ نے اپنی افواج کو وہاں سے واپس بلالیا۔عراق کو اپنی سازشوں کے چنگل میں جکڑے رہنے دینے کے لئے اس نے حکومت کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی جو امریکہ کے حامی اور اس کے رہین منت تھے۔ امریکہ کی فوجیں بے شک وہاں سے چلی گئی تھیں، بظاہر امریکہ کی مداخلت بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی ،مگر امریکہ کے زیر سایہ تشکیل پانے والی عراق سرکار نے اپنی حکومت کی گاڑی کو اپنے آقا کے اشاروں پر چلایا ۔کچھ بعید نہیں کہ عراق کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد اسی لئے اس حکومت سے نہ صرف ناراض ہوگئی بلکہ اس کے خلاف اس نے مورچہ بھی کھول دیا-
جن لوگوں نے بھی عراقی حکومت کے خلاف محاذ سنبھالا یقیناًان کی تعداد ابتدا میں بہت زیادہ نہیں ہوگی ، مگر چوں کہ عراق کے عوام اپنی حکومت کی امریکہ نوازی سے نالاں تھے، اس لئے حکومت مخالفین کی تحریک میں شامل ہوتے گئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی تعداداور طاقت اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ انہوں نے عراق کے مختلف علاقوں میں کہرا م مچادیا اور موصل جیسے شہر کو اپنے زیر نگیں لے لیا۔فی الوقت حکومت مخالفین عراق کی موجودہ حکومت بے بس نظرآرہی ہے اور اس کی افواج ان کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عراقی وزیر اعظم نورالمالکی نے امریکہ کے صدر برایک اوبامہ کی انتظامیہ سے خفیہ طورپر سنی باغیوں پر حملے کا مطالبہ کیا ہے۔یہ اطلاع نیویارک ٹائمس نے امریکی افسران کے حوالے سے دی ہے۔سینئر افسران کے حوالے سے وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق عراق نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ سے القاعدہ کے جنگجوؤں پر طیاروں اور ڈرونوں سے حملے کرائے گا۔ وزیر اعظم نورالمالکی کی امریکہ سے عراق میں مداخلت کی اس درخواست سے جہاں یہ پتہ چلتاہے کہ اس وقت نورالمالکی کی حکومت باغیوں کے مقابلے میں کمزور پڑرہی ہے ، وہیں دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ عراق کی موجودہ حکومت پوری طرح سے امریکہ نواز ہے اور اسی کے اشاروں پر رقصاں بھی۔
اس واقعہ کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ عراق کے موجودہ حکمران قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ایک بار پھر عراق کو ایسی طاقت کے حوالے کردینا چاہتے ہیں جوگذشتہ دوصدیوں سے اس ملک اور اس کے عوام پر اپنے ظلم واستبداد کو جاری رکھے ہوئے ہے اور کسی نہ کسی بہانے عراق کے گرد شکنجہ کسے ہوئے ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ 2003میں عراق پر حملے سے پہلے امریکہ نے کہاتھا کہ عراق کی سا لمیت اور امن واستحکام کے لئے صدام سے نجات ضروری ہے اور اس نے یہ بھی کہاتھا کہ عراق کے پاس مہلک جراثیمی ہتھیار ہیں۔ ان دونوں ایشوز کو اٹھاتے ہوئے اس نے عراق پر چڑھائی کردی اور صدام حکومت کا خاتمہ کرڈالالیکن اس کے باوجود امریکہ اپنی دونوں باتوں میں سچاثابت نہیں ہوا۔نہ عراق میں امن واستحکام قائم ہوا اور نہ ہی عراق کے پاس مہلک جراثیمی ہتھیار پائے گئے۔کون نہیں جانتا کہ 2003کے بعد سے آج تک آخر کونسا ایسا وقت گزرا ہے کہ جو کشیدگی سے خالی ہو، کون سا ایسا مہینہ یا ہفتہ بیتا ہے جس میں وہاں بم دھماکے نہ ہوئے ہوں ۔ اگر صدام حکومت عراق کے عدم استحکا م اور عدم سلامتی کی وجہ تھی تو پھر صدام حکومت کے خاتمے اور صدام کو تخت�ۂدار پر لٹکائے جانے کے بعد بھی آج تک عراق میں امن قائم کیوں نہیں ہوا؟ایسے ہی جن مہلک جراثیمی ہتھیاروں کا دعوی امریکہ کررہا تھا وہ ایک دہائی کے بعد بھی عراق کی سرزمین پر کیوں دریافت نہیں ہوئے ، جب کہ ایک عرصہ تک امریکی فوجیں عراق کے چپہ چپہ پر دندناتے پھرتی رہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے یہ محض ایک پروپیگنڈہ تھا تاکہ اسے عراق پرچڑھائی کرنے کے بعد بین الاقوامی تنقید کا سامنا نہ کرنے پڑے اور دوسری جانب عراق کے عوام کی حمایت بھی اسے حاصل ہوجائے۔اسی کے ساتھ اس کا یہ مقصد بھی حاصل ہوجائے کہ بالواسطہ طورپر ایک مدت تک عراق پر اسے بالادستی حاصل رہے تاکہ وہ عراق کے قدرتی ذخائر ووسائل سے فائدہ اٹھاتا رہے۔ایسا لگتا ہے کہ عراق کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کے سامنے اب یہ تمام حقائق واضح ہوگئے ہیں ، اس لئے وہ موجودہ حکومت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔بہتر یہ ہوتا کہ عراق کی حکومت اپنے عوام کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے عوام کے مزاج وخواہش کے مطابق امریکہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتی ۔ عراقی حکمرانوں کو یہ بات ذہین نشین رکھنی چاہئے کہ عراق میں بہت خون خراب ہوچکاہے ، اب انہیں خون خرابے سے بچانے کے لئے موثر اور مثبت کوششیں کرنی چاہئیں ۔ساتھ ہی امریکہ کو دوبارہ سے عراق میں نہیں آنے دینا چاہئے۔ کیوں کہ ایک اگر ایک بار پھر یہ غلطی کی گئی توپھر امریکہ سے عراق کو کب چھٹکارا ملے گا ، کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ممکن ہے کہ اس بہانے امریکہ خود عراق میں دوبارہ سے مداخلت چاہتا ہو اور وہ ازخود مداخلت کا الزام اپنے سر لینے کی بجائے عراقی حکومت سے مطالبہ کروانا چاہتا ہو تاکہ وہ دنیا کی نگاہوں میں بجائے حملہ آور کے ہیرو بن جائے ۔ عراق کے عوام اور حکمرانوں کو گہرائی کے ساتھ اس بابت گہرائی سے سوچناچاہئے اور صرف عراق کے حکام اور عوام کو نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے باشندوں اور حکومتوں کو عراق کے حالات سے سبق لینا چاہئے۔یہ تاریخ اسلام کا المناک واقعہ ہے کہ مسلمان اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے اپنے دشمن کو خود مدعو کررہے ہیں۔ 

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے