ایران کا معاشی نظام مکمل طور پر خام تیل کے ایکسپورٹ پر منحصر ہے۔اس میں ہندوستان کو چھوڑ کر دیگر ممالک نے امریکہ کے دباؤ میں آکر ایران سے خام تیل کی خریداری بند کردی تھی۔ان حالات کی وجہ سے ایران کشمکش میں مبتلا تھا۔پھر امریکہ کے صدر براک اوبامہ کی خود اس کے ملک میں اس کی مقبولیت کم ہورہی تھی۔اس پر طرہّ یہ کہ دو سال بعد امریکہ کے الیکشن ہونے جارہے ہیں۔اوبامہ اب الیکشن میں شریک نہیں ہوسکتا، مگر اس کے پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینا ہے۔
امریکی پارلیمنٹ میں ان کے پارٹی کی سیٹیں کم ہوگئی ہیں۔ان حالات میں انھیں عالمی سطح پر کوئی قرار داد بنا کر انھیں وقار بحال کرنا تھا۔اسی وجہ سے وہ مسلسل ایران سے معاہدہ کرنے کیلئے دباؤ دیا جارہا تھا۔ان حالات کی وجہ سے امریکہ نے بھی اسرائیل کو ناراض کرنے کی نوبت پیش آئی۔ایران کوئی نیوکلیئر بم نہ بنائے ، اس لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی ایران پر اپنا دباؤ بنارہے تھے۔جس کی وجہ سے ایران کو یورپین ممالک سے معاہدہ کیے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔گزشتہ ۹۹دنوں سے اس تعلق سے سوئیزرلینڈ میں تبادلہ خیال جاری تھا۔بالآخر اس پر مہر ثبت کی گئی ۔یوروپین ممالک کے امور خارجہ کے اہم ذمہ دارفیڈرکا مانگیرینی اور ایران کے وزیر خارجہ محمدجاوید ظریف نے اس معاہدہ کا اعلان کیا۔
جوہری توانائی کا معاہدہ ۳۰؍جون تک حتمی شکل اختیار کرلے گا۔امریکہ اور ایران میں ایک سرد جنگ جاری تھی۔ان دونوں ممالک کی شدید رسہ کشی کی وجہ سے ہی اس طرح کا معاہدہ کرنے کی نوبت پیش آئی۔ایران اپنے جوہری منصوبہ میں یورینیم کے پاور کو ۵فی صد کم کیا جائے گا۔اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کا استعمال ایران کے اندرون ملک تک ہی محدود رہے گا۔جوہری توانائی کی تحقیق فوجی کارروائی کے مقصد کیلئے نہ کی جائے ایسی پابندی ایران کیلئے مشکل کن ثابت ہوگی۔مگر اس کے علاو ہ ان کے پاس دوسرا کوئی متبادل ہی نہ تھا۔اپنے مرکزی مشرقی ملک کے سنی دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے بھلے ایران کی خارجہ پالیسی ناکام ثابت ہورہی ہومگر امریکہ کو بھی ااپنے قتدار کا توازن برقرار رکھنے کیلئے ایران کی ضرورت پیش آئے گی۔
اسرائیل کے صدر بینجامین نیتیا نہوکی امریکہ پر جو تنقید کی ، اس کا جائزہ لیا جائے توہمیں سمجھ میں آئے گا کے اپنے دوست اسرائیل کو ناراض کرکے ایران سے معاہدہ کرنے کو ترجیح دے رہا تھا ، یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے۔امریکہ جسے سنی عقیدہ کے مخصوص لوگوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے ، ان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے ۔ اب امریکہ سنی عرب ممالک کے خلاف ایران کا استعمال کیسے کرنا ہے اس پراپنی منصوبہ بندی کررہا ہے۔معاشی پابندی کی وجہ سے ایران کی معاشی حالت بالکل کمزور ہوتی جارہی تھی، اس وجہ سے اب وہ اسرائیل کو کچھ نقصان پہنچائے ایسے ایران کے حالات نہیں ہیں، اس کا امریکہ کو اندازہ ہے۔امریکہ کی نظر میں جو سنی جہاد کرنے والے ہیں ، ان کے خلاف ایران کے شیعہ عقیدہ والوں کا استعمال کیسے کرنا ہے، اس پر غور و خوض جاری ہے۔خیر ایران نے حالات کے رُخ کو سمجھ کر واقعی قابل تعریف فیصلہ کیا ہے۔اب دیکھنا ہے امریکہ کی موسیقی پر کون کون رقص کرتا ہے۔
جواب دیں