ایران اور سعودی عرب دنیا کے درمیان جاری کشمکش مشرق وسطی کے لئے خطرناک

حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے جب حالات قابو سے باہر ہوگئے تو بحرینی حکومت نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی افواج کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ یوں علاقائی فوجیوں نے بحرین میں داخل ہو کر ایک مشترکہ آپریشن کرتے ہوئے ہفتوں سے جاری مظاہرین کا دھرنا ختم کردیا۔ اس آپریشن میں 200 سے زائد افراد کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اب یہاں اپوزیشن رہنماؤں اور بحرینی حکام کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔
دوسری طرف ایران نے بحرین میں مداخلت پر سعودی اور دیگر خلیجی افواج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایرانی مجلس شوریٰ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی نے خلیج کے علاقے میں سعودی عرب کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایرانی مجلس شوریٰ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی نے خلیج کے علاقے میں سعودی عرب کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت اس بات کا زیادہ احساس ہونا چاہئے کہ خلیج میں آگ سے کھیلنا اس کے مفاد میں نہیں۔ ایران نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی فوجیں بحرین سے واپس بلائے۔ اس پر سعودی حکومت کے ایک اہلکار کی طرف سے بیان سامنے آیا ہے کہ ایرانی شوریٰ کی کمیٹی نے خلیج میں سعودی مداخلت سے متعلق بیان بازی کے دوران اس ضمن میں تہران کی خطے میں مداخلت سے جو آنکھیں چرائی ہیں وہ قابل مذمت ہے۔ اہلکار نے کہا: ایران نے اچھی ہمسائیگی اور بین الاقوامی قوانین کو جس طرح دیوار پر دے مارا ہے وہ ایک کھلا راز ہے۔ خطے میں ایرانی مداخلت کی تازہ ترین مثال تہران کے سرکاری حلقوں سے منسلک اس جاسوسی نیٹ ورک کی ہے جو ایرانی مفادات کیلئے کویت میں سرگرم تھا۔ سعودی ذرائع کا کہنا ہے ایران سعودی عرب پر الزام تراشی کرتے ہوئے یہ بات بھول گیا کہ اسے مملکت بحرین میں مداخلت کا حق حاصل نہیں۔ اس لئے اسے یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ بحرین سمیت کسی بھی ملک کو اپنی مدد کیلئے علاقائی فوج بلانے سے روکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بحرین کے ایک شیعہ اپوزیشن لیڈر علی سلمان نے بھی ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحرین کے امور میں مداخلت نہ کرے۔
ایران اور عرب دنیا کے مابین بڑھتی ہوئی خرابی کا اثر کویت میں بھی دیکھنے کو ملا جب کویتی عدالت نے تین ایسے افراد کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے جو مبینہ طور پر کویت میں ایران کیلئے جاسوسی کر رہے تھے۔ ان تین افراد میں دو ایرانی اور ایک کویتی تھا۔ کویتی میڈیا کے مطابق مجرمان نے ایرانی پاسداران انقلاب کیلئے کویتی اور امریکی فوجی مقامات اور تنصیبات کی مانیٹرنگ اور ان کی تصاویر اتارنے کا اعتراف کیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے بعد کویتی حکومت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایران سے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کردیا۔ کویتی وزیرخارجہ الشیخ محمد الصباح نے کہا ہے کہ تہران کیلئے جاسوسی میں اگر کوئی ایرانی سفارتکار بھی ملوث ہوا تو اس کی ملک بدری میں پس و پیش سے کام نہیں لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کویت کی سلامتی سب سے زیادہ اہم ہے تاہم ایرانی حکومت نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ سزائے موت پانے والے افراد ایران کیلئے کام کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ کویت میں 45 ہزار سے زائد ایرانی روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہیں۔
عرب ٹی وی چینل العربیہ کی رپورٹ کے مطابق ایران کے اندر بھی عرب دنیا کے باحوالے سے منفی رویہ پایا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایرانی سرکاری ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں ایرانی شاعر مصطفی بادکوبہ ای نے عربوں کے خلاف خاصے سخت الفاظ استعمال کئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شہر ہمدان میں ایک سرکاری کلچرل ادارے میں ہونے والے پروگرام کے شرکاء میں سے ایک نے عربی کو اہل جنت کی زبان قرار دیا۔ اس پر مذکورہ بالا ایرانی شاعر آپے سے باہر ہوگیا۔ متعدد ایرانی ویب سائٹس نے بادکوبہ ای کی ایک ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں وہ عربوں کے الٰہ کے عنوان سے ایک فارسی نظم بھی پڑھتا دکھائی دیتا ہے جس میں عربوں پر کٹیلے طنز کئے گئے تھے۔ ایرانی شاعر جب اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا تو حاضرین نے اسے دل کھول کر داد دی تھی تاہم جنوب مغربی علاقے اہواز کے عرب باسیوں نے مصطفی باد کوبہ ای کے نازیبا الفاظ پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
العربیہ کی رپورٹ میں ایرانی امور کے عرب ماہر حامد الکنانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے عرب دشمنی نئی ایرانی حکومت کی بنیادی پالیسی ہے جس کے بعد سے عربوں پر دشمنانہ نظر رکھی جاتی ہے اور عربی کوفارسی کی ضد سمجھا جاتا ہے۔ عربی بولنے والے اہوازیوں کو شاعر اس وقت تک ایرانی ماننے کو تیار نہیں ہوتے جب تک وہ عربی زبان کی ہتک نہ کرے۔ یاد رہے کہ ایران میں عربوں کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں بنی سعد بنی قیم آل کثیر بنی طرف آل خمیس بنی لام اور بنی خالد جیسے مشہور قبائل کے لوگ بھی آباد ہیں۔
خطے میں امریکی مداخلت کے بعد ایران اور عربوں کے درمیان ایک خاموش ہم آہنگی بڑھ رہی تھی۔ بعض اوقات اس میں جوش و خروش بھی نظر آیا۔ بش دور کے آخری ایام میں ایرانی صدر محمود نژاد سعودی عرب کے دورے پر پہنچے تو ان کا جس انداز میں استقبال کیا گیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے جہاز کی سیڑھیوں میں جا کر ایرانی صدر سے معانقہ کیا اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی طرف سے یہ ان امریکی حکام کو ایک پیغام تھا جو مشرق وسطیٰ کو سعودی عرب اور ایران کی قیادت میں شیعہ اور سنی بلاکس میں منقسم کرنا چاہتے تھے۔ اس پر اس وقت کی امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کنڈولیزا رائس نے خاصی برہمی کا اظہار بھی کیا تھا۔ تاہم اب ایک ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ پر بعض عالمی طاقتوں کا کنٹرول کمزور ہو رہا ہے ایرانیوں اور عربوں کے درمیان کشیدگی کا یہ نیا پہلو انتہائی خطرناک محسوس ہو رہا ہے۔

«
»

قصہ در دسنانے پر مجبور ہیں ہم

ہماری وصیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے