حصول اقتدار کی جنگ میں مسلمان شامل نہیں ہیں عبدالغفار صدیقی پارلیمانی انتخابات نزدیک آرہے ہیں۔شہریوں کی دھڑکنوں میں اضافہ ہورہا ہے۔امت مسلمہ کی خواہش ہے کہ موجودہ سرکار تبدیل ہوجائے ۔اللہ تعالیٰ ظالموں سے نجات عطا فرمائے ۔اس کے لیے وہ دعا بھی کررہے ہیں اور دعوے بھی ۔وہ کہہ رہے ہیں کہ ۔’’دیکھنا! […]
پارلیمانی انتخابات نزدیک آرہے ہیں۔شہریوں کی دھڑکنوں میں اضافہ ہورہا ہے۔امت مسلمہ کی خواہش ہے کہ موجودہ سرکار تبدیل ہوجائے ۔اللہ تعالیٰ ظالموں سے نجات عطا فرمائے ۔اس کے لیے وہ دعا بھی کررہے ہیں اور دعوے بھی ۔وہ کہہ رہے ہیں کہ ۔’’دیکھنا! یہ انڈیانام کا گٹھ بندھن مودی جی کو دھول چٹادے گا ۔‘‘ کوئی کہتا ہے :’’ آج نہیں تو کل یہ لوگ (موجودہ سرکار) چلے جائیں گے ۔‘‘کسی کی زبان پر ہے :’’جب نمرود اور فرعون نہیں رہے تو یہ کیا رہیں گے ؟‘‘۔یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ۔البتہ یہ کوئی بتانے کو تیار نہیں کہ ظالموں سے نجات کے لے وہ خود کیا کوششیں کررہا ہے ؟تبدیلی اقتدار کے لیے اس نے اپنی کیا منصوبہ بندی کی ہے ؟اس سوال پر وہ کہتے ہیں :’’ اللہ بہت بڑا ہے ،وہی سب کچھ کرے گا ۔‘‘بلا شبہ اللہ سب سے بڑا ہے ۔وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔وہ چاہے تو سب کو اہل ایمان بنادے ،وہ چاہے تو شیطان بھی توبہ کرکے مقربین میں شامل ہوجائے ۔لیکن اللہ تعالیٰ اپنی ’سنت ‘ کے مطابق کام کرتا ہے اور اس نے یہ بات کہہ دی ہے کہ ’’تم اللہ کی سنتوں میں کوئی تبدیلی نہ پائوگے ۔‘‘(الفتح ۔23)۔واضح رہے کہ عربی زبان میںسنت کا مطلب ’طریقہ،قانون ،اصول اور ضابطہ ‘ ہے۔ دنیا دارالاسباب ہے ۔یہاں حرکت میں برکت کا قانون نافذ ہے ۔یہاں اپنے آپ وہی ہوتا ہے جسے ہم فطرت کہتے ہیں ۔دنیا میں کچھ کام وہ ہیں جن کو کرنے کی ذمہ داری اللہ کی ہے ۔مثال کے طور پرموسمی تبدیلیوں کا عمل ،بارش،گرمی اور سردی کی زیادتی اور کمی وغیرہ ۔یعنی ہمارے بس میں یہ نہیں ہے کہ ہم بارش برسادیں ،یا زبردستی سورج نکال دیں ،یا دن کو رات میں تبدیل کردیں ،یہ سب کچھ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور اس کے اس نظام میں بھی کوئی بڑی تبدیلی ہم نہیں دیکھتے ۔لیکن اس دنیا کے بیشتر کام وہ ہیں جن کو کرنے کے لیے اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ۔انسان کو ہاتھ پیر ہلانے پڑتے ہیں ۔کھانے کے لیے ،نہانے کے لیے ،قضائے حاجت کے لیے ،اٹھنے ،بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے لیے ،نسل انسانی کی بقا کے لیے غرض وہ ایسا کونسا عمل ہے جس میں انسان کو حرکت نہیں کرنی پڑتی ۔بجلی کا بلب خراب ہونے پر خود نہیں بدلتا ،سائکل کا پنکچر خود نہیں لگتا ،کپڑے خود نہیں سل جاتے ،کھانا خود نہیں پک جاتا ۔ان سب کاموں میں ہم ہاتھ ہلاتے ہیں ،حرکت کرتے ہیں ،جسے ہم ’’عمل ‘‘کہتے ہیں ۔یعنی یہ چھوٹے موٹے کام وہ ہیں جن میں جب تک ہم ہاتھ نہ لگائیں تو انجام کو نہیں پہنچ سکتے ۔لیکن ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں اسلام کا علم لہرائے ،اسلامی نظام قائم ہوجائے ،باطل مٹ جائے ،مودی جی اپنے گھر چلے جائیں ۔بی جے پی کا بستر گول ہوجائے اور اس کام میں ہمیں کوئی عمل نہ کرنا پڑے ۔تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔جب جملہ پیغمبروں کو اپنے دور کے فراعنہ کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے میدان عمل میں آکر جد و جہد کرنا پڑی تو ہم کیا ہیں ؟جب دنیا میں ہر گروہ کو حکومت میں آنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے تو پھر ہمارے لیے اللہ کا قانون کیوں بدلے گا ۔یہ دنیا ہے ۔یہاں خیر ہویا شر ،حق ہویا باطل اسے اقتدار میں آنے اورحکمرانی کرنے کے لیے مادی اسباب اور فطری قوانین کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے ۔ اقتدار کی کشمکش ہمیشہ رہی ہے اور تاقیامت رہے گی ۔اس میں فتح کا دارومدار دو چیزوں پر رہا ہے ۔ایک اخلاقی قوت اور دوسرے مادی اسباب ۔اخلاقی قوت کا لفظ جب ہم بولتے ہیں تو اس میں عام انسانی اخلاق کا شمار پہلے ہوتا ہے اور ایمان پر مبنی اخلاق کا بعد میں ۔اگر دو ایسے گروہ برسرپیکار ہوں جو اللہ پر ایمان نہ رکھتے ہوں تو ان میں عام انسانی اخلاق اور مادی اسباب کے میدان میں جو طاقت ور ہوگا وہ کامیاب ہوجائے گا ۔ان دونوں اشیاء میں بھی اخلاق کی اہمیت زیادہ ہے ۔اگر کوئی گروہ اخلاقی قوت سے مالا مال ہو تو کم مادی وسائل سے بھی کامیابی حاصل کرسکتا ہے ۔اگر برسرپیکار گروہوں میں سے ایک گروہ اہل ایمان کا ہو ،ایمان پر مبنی اخلاق سے مزین ہو تو اس کی کامیابی سو فیصدیقینی ہے ۔اسی بات کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :’’ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو ۔‘‘ (آل عمران۔139)یہاں ایمان سے مراد صرف زبانی ایمان نہیں ہے ،بلکہ اس ایمان سے ہے جس کی پشت پر ایمان پر مبنی عمل اور اخلاق کی طاقت موجود ہو۔سورہ ’العصر‘ میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے کہ ’’خسارے سے محفوظ وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے ،جنھوں نے عمل صالح کیا ،ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کی ۔‘‘اسی بات کو سورہ نور کی آیت 55میں کہا گیا :’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘سورہ روم آیت 47میں تو یہاں تک کہہ دیا گیا :’’ اہل ایمان کی مدد کرنا ہم پر ان کا حق ہے ۔‘‘ اقتدار میں آنے کے لیے اخلاقی صفات میںسے جو صفت سب سے زیادہ ضروری ہے وہ ’عدل ‘ ہے ۔جو قومیں بے لاگ انصاف کرتی ہیں ۔جن کی عدالتوں میں شاہ و گدا ،امیر و فقیر ،چھوٹا اور بڑا ،ہم مذہب یا مذہب مخالف سب برابر ہوتے ہیں وہ قومیں دنیا پر راج کرتی ہیں ۔جب تک ان کا نظام مملکت عدل پر قائم رہتا ہے ،ان کو باقی رکھاجاتا ہے اور جب وہ ظلم و سرکشی پر اتر آتی ہیں تو اس کے مقابلہ پر اس قوم کو لے آیا جاتا ہے جو عدل کرسکتی ہے ۔اگر بالاتفاق کوئی قوم یا گروہ ایسا موجود نہیں ہوتا جو عدل پر مبنی نظام چلا سکتا ہو تو پھرظالموں کی رسی دراز کردی جاتی ہے تاکہ وہ اُن لوگوں پر ایک عذاب کی صورت میںمسلط ہوجائیں جو خدا کی کتاب کے حاملین ہونے اور خدا پرایمان رکھنے کا زبانی دعویٰ کرر ہے ہوتے ہیں۔ موجودہ وقت میں ہمارے ملک میں جو گروہ اقتدار کے حصول کے لیے میدان میں جد و جہد کررہے ہیں ان میں بظاہر سب کے سب ہی نظام باطل کے علمبردارہیں یا اس کے حاشیہ بردار ہیں ۔ان گروہوں میں سے ایمان پر مبنی نظام سیاست کسی کے پاس بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ ایمان پر مبنی نظام نافذ کرے گا ۔ یہاں تو الکتاب قرآن نہیں بلکہ ’’آئین ہند ‘‘ ہے ۔ایسی صورت میں ظاہر ہے اسلام اور ایمان کی بنیاد پر ہار اور جیت نہیں ہوگی ۔بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ عام انسانی اخلاق اور مادی وسائل میں کون غنی ہے ۔وہ کونسا گروہ ہے جو بنائو کے کام زیادہ کرسکتا ہے ۔ہمارے یہاں بر سر پیکار گروہوں میں سے ایک جماعت وہ ہے جس کو نظام قدرت کے مطابق ایک طویل عرصہ (تقریبا 65سال )تک حکمرانی کا موقع ملا ۔اب قانون فطرت کے مطابق حکمراں گروہ کے عمل کا جائزہ لیا جائے گا ۔اس کی اخلاقی قوت کو تولا جائے گا ۔اس پہلو سے جب ہم اپنے وطن عزیز کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں بڑی مایوسی ہاتھ لگتی ہے ۔ہمارے سابقہ حکمرانوں نے اپنی عوام پر جو مظالم ڈھائے ہیں ،جو نا انصافیاں کی ہیں ،آئین ہند کی جو دھجیاں بکھیری ہیں ان سے کون صاحب ہوش واقف نہیں ہے ؟اسی کے نتیجہ میںایوان اقتدار میں آج اس کی جو حالت ہے وہ خود اس کے لیے باعث شرم ہے ۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ جو گروہ اقتدار میں ہے وہ کونسا کم ظلم کررہا ہے ؟ میں آپ کے اس سوال سے اتفاق رکھتا ہوں ۔لیکن ان کے ظالم ہونے کی بات ہمارے نزدیک ٹھیک ہوسکتی ہے اس لیے کہ ان کے مظالم کا نشانہ ہم ہیں ۔لیکن ان کے ہم مذہبوں کا ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟وہ تو ان کے اقدامات کو مبنی بر حق مانتے ہیں ۔ان کی اکثریت کے نزدیک تو جو ہورہا ہے وہ ٹھیک ہورہا ہے ۔عالیشان رام مندر کی تعمیر ،کشمیر سے 370کا خاتمہ ،پارلیمنٹ کی نئی عمارت سینٹرل وسٹا کی تعمیر ،یکساں سول کوڈ کی جانب پہل ،این آرسی کے نفاذ کی کوششیں ،مسلم پرسنل لاء بورڈ میں دخل اندازی ،کاونڑیوں پر پھولوں کی بارش ،نفرت کی تشہیروغیرہ میں سے ایسا کونسا عمل ہے جو ہمارے برادران وطن کے عقیدے و آستھا کے خلاف ہو ۔ان کے نزدیک موجودہ حکومت بہت اچھا کام کررہی ہے ،ملک میں ان ہی کی اکثریت ہے ۔ان کے مقابلہ پر گروہوں کا جو مجموعہ ہے ،وہ چوں چوں کے مربے کے سوا اور کیا ہے ؟ وہ ریاستوں میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،ان میں کوئی قدر مشترک نہیں ،ان کو جہاں جہاں اقتدار حاصل ہے وہاں ’عدل ‘ خودمظلوم ہے ۔مجھے بتائیے کونسی ایسی ریاست ہے جس کو مثالی ریاست کہا جاسکتا ہے ۔جس کو جہاں موقع ملتا ہے کمزوروں پر ظلم کرتا ہے ۔بدعنوانی میں ملوث ہوجاتا ہے ۔ان حالات میں مجھے نہیں لگتا کہ 2024کے انتخابی نتائج حیران کن ہوں گے ۔ مسلمانوں کی جہاں تک بات ہے تو بے چارے وہ اقتدار کی دوڑ سے باہر ہیں ۔انھوں نے سارا کاروبار زندگی بہ ہوش و حواس ،سوچ سمجھ کر ،دن کے اجالے میں اپنے ہاتھوں سے باطل کے حوالے کیا ہے ۔جنگ آزادی میں پیش پیش رہنے والی جمعیۃ العلماء نے سن ساٹھ کے عشرے میں باقاعدہ یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ ہم سیاست سے کنارہ کش ہوکر صرف دینی تعلیم کے میدان میں کام کریں گے ۔جب مسلمان اس جنگ کا حصہ ہی نہیں ہیں تو فتح و شکست کی بات ہی کیا کرنا ؟ان پر تو موجودہ اقتدار ایک عذاب ہے اور اگر خدا نخواستہ یہ اقتدار بدل کر گٹھ بندھن حکومت میں آتا ہے تو وہ بھی ایک عذاب ہی ہو گا ۔جس گروہ کے پاس روشنی ہو اور وہ خود اس روشنی سے مستفید نہ ہو اور نہ دوسروں کو مستفید ہونے کا موقع دے رہاہو تو اس گروہ پر اندھیروں کا ہی راج ہوگا ۔اس میں شکایت کیسی ؟پھر ذرا ایمان کا دعویٰ کرنے والا گروہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ اس کے پاس ’ایمان ‘کس معیار کا ہے اور’عمل صالح ‘ کے نام پر کیا سرمایہ ہے ۔اس کے اخلاق میں ’عدل ‘کی کیا کیفیت ہے ۔آبادی کے دس فیصد حصہ کا غیر شعوری نماز پڑھ لینا ،کچھ لوگوں کا داڑھی رکھ لینا ،ٹوپی لگالینا اور ہاتھ میں مالا لے کر اس پر خدا کا نام جپ لینا کیامطلوب عمل صالح ہے ۔خدا پر ایمان رکھنے والوں کے اخلاق میں جھوٹ ،چوری ،دھوکا ،فریب ،نشہ ،عیاری و مکاری کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اس وقت مسلم امت کے پاس یہی کل سرمایہ اخلاق رہ گیا ہے ۔چند ٹکوں میں خدا کو فروخت کردینے والے کس ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں ۔اگر ہم کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایمان پر مبنی اخلاق اور مادی اسباب و وسائل کے ساتھ میدان کارزار میں آنا ہوگا ۔اگر ہم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ثابت ہوئے تو اللہ کی سنت کے مطابق استخلاف فی الارض ہمیں عطا کیا جائے گا اور’’ اگر ہم منہ موڑیں گے تو اللہ دوسری قوم کو لے آئے گا اور وہ ہم جیسی نہیں ہوگی ‘‘(سورہ محمد38)
مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں