ذوالقرنین احمد
چندر روز سے انٹرنیٹ سروس بند ہونے کی وجہ سے جو پریشانی ہورہی ہے۔ اس سے یہ احساس ہوا ہے کہ ۵ مہینے سے کشمیر کی عوام پر کیا بیت رہی ہوگی۔ آج یہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے زریعے ملنے والی سہولیات انسان کی ضرورت بن چکی ہے۔ بلکل ایسے لگتا ہے۔ زندگی ٹھہر گئی ہے۔
ایک بات یہ بھی محسوس ہورہی ہے کہ انسان اب اپنے آپ کا نہیں رہا اسے کوئی اور ہی آپریٹ کر رہا ہے۔ جسے ہم انٹرنیٹ کہتے ہیں۔ اسی طرح خاندانی نظام میں دوریاں شدید طور پر بڑھ رہی ہے۔ جس کا احساس تک نہیں ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کی ایسی دھون ہر ایک پر سوار ہے جس میں نہ میں بچا ہوں نہ آپ بچے ہیں۔
جو افراد شادی شدہ ہے انہیں اس بات پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اب شادی کے بعد صرف بیوی ہی نہیں اسکے ساتھ ایک اسمارٹ فون بھی ساتھ آرہا ہے۔ نئی نسل کے بچے اسمارٹ فون کے عادی ہورہی ہے۔ یو ٹیوب، گیم، وغیرہ اسکول میں داخل ہونے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر موجود مواد سے متاثر ہورہ ہیں۔
اور ایسے میں بچوں کو موبائل نا دینے پر وہ کھانا نہیں کھا کر اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں۔ پھر والدین موبائل دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس سے جو دوریاں ایک مشترکہ خاندان میں پیدا ہوگی اسکے اثرات بہت زیادہ خطرناک مرتب ہوگے۔ کیونکہ شوہر دن بھر جاب، نوکری، یا مزدوری کیلے جاتا ہے اور جب گھر پہنچتا ہے تو موبائل میں مصروف ہوجاتا ہے۔ بیویاں گھر کے کام کاج کو نپٹا کر سوشل میڈیا کی طرف دوڑ پڑتی ہے۔ بچے اسکول میں رہتے ہیں۔ اسکول سے آنے کے بعد وہ بھی موبائل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہر گھر میں ایک سے زائد موبائل ہے کہی کہی تو میاں بیوی کے علاوہ گھر کے بچوں کیلے الگ ایک موبائل فون ہوتا ہے۔ جس میں وائی فائی شروع ہوتا ہے۔ جو توجہ بیوی بچوں کو شوہر کی طرف سے ملنے چاہے انکی تربیت کی فکر کرنی چاہے انکے حرکات و سکنات پر توجہ ہونی چاہیے وہ انھیں مل ہی نہیں پارہی ہیں۔ جو ان بچوں کا اور بیوی کا حق ہے۔ اور بیویاں کو وہ توجہ نہیں مل پاتی ہے۔ جو محبت شوہر سے ملنی چاہئیے جو اسکا حق ہے۔ جب وہ نہیں ملتی ہے تب وہ اپنا وقت ٹک ٹاک ، یو ٹیوب، وہاٹس ایپ فیس بک میں گزارنے لگتیں ہے۔ اور اسطرح دوریاں پیدا ہوتی ہے۔ اور کہی اور غیروں کی جھوٹی تعریفوں کو سمیٹنے میں لگ جاتی ہے۔ اور دھیرے دھیرے وہ اپنے شوہروں سے بھی دور ہونے لگتی ہے۔ بچے بھی کہی اور اپنایت تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ کسی فلم کے ہیروں ہیروئن، یا کوئی دنیاوی مادہ پرست شخصیت کو اپنا رول ماڈل بنا لیتا ہے۔ اسی طرح شوہروں کو بھی جو توجہ بیویوں کی طرف سے ملنی چاہئیے وہ نہیں مل پاتی ہے۔ اور وہ بھی کہی اور دل لگیں کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اور پھر سگے رشتوں کو بھی انکے پاس ٹائم نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ کمیونیکیشن گیپ کی وجہ سے ایک خاندان پوری طرح سے منتشر ہوجاتا ہے۔ جسکے نتائج کبھی طلاق کے روپ میں سامنے آتے ہیں تو کبھی بیویوں کی طرف سے شوہر کی عدم توجہی کی وجہ سے الگ ہونے کے معاملات پیش آتے ہیں۔ یا پھر جھوٹے عشق معشقہ میں پڑ جاتے ہیں۔ جس میں ایک نہیں دو خاندان منتشر ہوتے ہیں۔ اس میں معصوم بچوں کی زندگیاں الگ برباد ہوتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ موبائل فون کو اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنے ایک بے جان شئے کی ہوتی ہے۔ اسے انسان سے بڑھ کر محبت کریں گے اور وقت دیں گے تو یہ انسانی حقوق کے پامالیوں کا زریعہ بنے گا۔ یہ معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کا سبب بنے گا جیسے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ گزرے دور میں اگر مدتوں کے بعد کوئی دوست ملتا تھا تب اسکے ساتھ وقت بتایا جاتا تھا۔ بات چیت کی جاتی تھی ساتھ میں گھومنے کا پروگرام بنایا جاتا تھا۔ کھانے کی دعوت دی جاتی گھر پر بلایا جاتا تھا۔ کوئی مہمان آتے تو ان کے آگے پیچھے رہ کر ان کیلے لوازمات کا انتظام کیا جاتا تھا۔ گھر میں بڑوں کے سامنے باتیں کرنے اور اناپ شناپ بولنے سے بھی پرہیز کیا جاتا تھا۔ انکے سامنے خاموشی سے بہت احترام کے ساتھ بیٹھ کر انکی باتیں دھیان سے سنیں جاتی تھی۔ لیکن آج کا خاندانی نظام اور معاشرہ پچھلے 20، 25 سال پہلے کے معاشرے کو فراموش کرچکا ہے۔ بچوں پر شفقت کا ماحول بچا ہے نہ بچوں کے اندر بڑوں کا احترام رہا ہے۔ ٹک ٹاک، یو ٹیوب دیکھ کر یہ آنے والے مستقبل کے رہبر و رہنما، اخلاقی اقدار کو فراموش کر چکے ہیں۔ ایسے ایسے جوابات پلٹا کر منہ پر والدین اور بزرگوں کو دیے جاتے ہیں۔ جس کے جواب میں خاموشی اختیار کرنا مجبوری کہلاتی ہے۔
یہ موبائل زحمت بھی ہے اور رحمت بھی ہے۔ زحمت کہ بہت سارے مسائل اوپر پیش کیے جا چکے ہیں۔ رحمت اس لیے ہے کہ جو کام کیلے مہینوں لگ جاتے تھے اب وہ چند لمحوں میں انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ پہلے پیغام پہنچانے کیلے قاصد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر بھیجا جاتا تھا، جس میں سفر کی پریشانیوں کا سامنا ہوتا تھا۔ پیغام پہنچنے کیلے لمبا عرصہ لگ جاتا تھا۔ اور سوال کا جواب آنے میں بھی ایسے ہی طویل وقت درکار ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی منازل کو طے کرتے ہوئے دور تک پیغام پہنچانے کا آلہ تو دریافت کرلیا لیکن اس انسان نے اسی آلہ میں گم ہو کر قریبی تعلقات کو ہی فراموش کردیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے اہل خانہ کی طرف توجہ دی جائے۔ انکے ساتھ وقت بتایا جائے۔ ان سے بات کرنے کیلے وقت نکالا جائے۔ خاندانی نظام میں بڑ رہی دوریوں کو مٹانے کیلے ایسے پروگرام رکھے جائیں کہ کمیونیکیشن گیپ کو ختم کیا جاسکے۔ یہ دھیرے دھیرے بڑنے والی دوریاں مستقبل کیلے بہت خطر ناک ثابت ہوگی چاہے آپ اپنے بیوی بچوں کی تمام ضروریات کو پورا کر رہے ہو یا انہیں دنیا کے تمام لوازمات مہیا کر رہ ہو لیکن اگر ان سے محبت پیار کا معاملہ نہیں کیا گیا تو یہ بڑے نقصان کا سبب بنے گا، کیونکہ انہیں ضروریات زندگی سے زیادہ تمہاری محبت تمہارے اعتماد تمہارے حوصلے کی ضرورت ہے۔ ورنہ پھر پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
04جنوری 2020
جواب دیں