لیکن اس کی یہ کوشش بہت سطحی ہوتی ہے اور انٹر نیٹ کی تہوں میں محفوظ معلومات اس سے دور رہ جاتی ہیں۔ کچھ برقی صفحات ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سرچ انجن نہیں جانتا کہ وہ کیا ہیں۔ ایسے ویب صفحات چند تکنیکی طریقے اپنانے کی وجہ سے سرچ انجن سے پوشیدہ رہ جاتے ہیں اور گوگل سرچ پر بھی ظاہر نہیں ہوتے ۔ پوشید ویب میں شمولیت اختیارکر لیتے ہیں۔ وہ صفحات بھی پوشیدہ ویب میں شمار کئے جاتے ہیں جویوزر نیم اور پاسورڈ کے بغیرنا قابل دید ہوتے ہیں۔بہت سارے افراد اس کے تکنیکی مباحث سے نا واقف ہیں کہ سرچ انجن کا طریقۂ کار کیا ہے اور یہ ہمارے لیے کیسے زیادہ کار آمد ہو سکتا ہے۔ان میں سے زیادہ تر افراد عام فہم استعمال کو پسند کرتے ہیں اور اس پہلو سے بے بہرہ ہوتے ہیں کہ کس طرح انہیں معلومات مزید بہتر فراہم ہوں۔ ان کی تلاش کے لیے روبوٹ اور اسپائڈر پروگراموں کا سہارا لیا جاتا ہے۔جن کی فعالیت پوشیدہ ویب کے مد نظر رکھ کر تیار کی جاتی ہے۔انہیں حصوں میں تقسیم کرکے خفیہ مواد کو قابل رساں بنایا جاتا ہے ۔اوّلین اسپائڈر پروگرام کے ذریعہ ان کی فہرست تیار کی جاتی ہے۔ جس کے بعد محفوظ معلومات تک آسان رسائی کو ممکن بناتا ہے اور آخری مرحلے میںیہ قابل دید ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں ، بہت سی لائبرریوں کے ڈیٹابیسیز جہاں سرچ انجن کی راست رسائی نہیں ہوپاتی انہیں بھی پوشیدہ ویب کہتے ہیں۔کیوں کہ لائبریری کے منتظمین کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کی معلومات جو لوگ مستفید ہو سکتے ہیں وہ ان مواد کی طے شدہ قیمت ادا کر کے ہی انہیں حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن بہت ساری لائبریریاں ایسی بھی ہیں جو کسی بھی فیس کے بغیر رجسٹریشن کے ذریعہ معلومات فراہم کرتی ہیں ۔ایسے ڈیٹا بیسیز جن تک رسائی کے لیے قیمت ادا کرنی ہوتی ہے وہ استعمال کنندگان کا خیال رکھ کر تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ طلبا کے لیے اہم ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔ان پر اہم جرنل اور دیگر خاص مواد کو یکجا کردیا جاتا ہے ۔جو عام سرچ کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر گوگل ، یاہو یا دیگر سرچ انجن عام معلومات کی تلاش کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کتاب یا کسی خاص مضمون کے کچھ چیزوں کو عام ویب پر جگہ دی جاتی ہے جبکہ ان کی تفصیلات کو خفیہ ویب کا حصہ بنایا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تفصیلات تک آسانی سے رسائل ممکن نہیں ہوتی ۔ایسا بھی نظریہ ہے کہ جہاں معلومات کثیر تعداد میں فراہم کی جاتی ہیں انہیں پوشید ویب جگہ دی جاتی ہے ۔محققین کے لیے پوشیدہ ویب بہت سود مند ہوتی ہیں کیونکہ اس سے حقیقی پہلوؤں کی راہ دیکھاتی ہے بلکہ حقیقت کو واضح بھی کردیتی ہے، یعنی گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے نہ کہ سطحی طور پر ۔
سولیوین نے 2008میں شائع اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ جنرل سرچ انجن کی تیاری عام معلومات کی فہرست تیارکرنے کی غرض سے تیار کیے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جو معلومات ، اطلاعات کو خفیہ رکھا جاتا ہے انہیں پوشیدہ ویب میں داخل کر دیا جاتا ہے اور سطحی طور پر سرگرداں سرچ انجن اس کواپنی فہرست میں شامل نہیں کر پاتے۔بہت سارے عام سرچ انجنوں کو بھی اب اس قا بل بنانے کی کوششیں تیز ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کریں ۔مثال کے طور پرگوگل کے سرچ انجن کی بہتر سے بہتر کار گردگی کے لیے مسلسل جدیدسے جدیدتر بنانے کا عمل جاری ہے لیکن ابھی بھی وہ پوشیدہ ویب تک رسائی حاصل کرنے سے دور ہے ۔اب اس پہلو کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ پوشیدہ ویب کی اہمیت و افادیت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔پوشیدہ ویب کی اہمیت کا تکنیکی پہلو یہ بھی ہے کہ ویب ڈیٹا بیس ہمیشہ صارفین کو گمراہ کرتاہے اور یہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا ہے کہ ویب سائٹ پر موجود مواد صداقت پر مبنی ڈیٹا بیس ہے ۔سرچ انجن ڈیٹا بیس میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن ڈیٹا بیس پر موجود مواد کو ڈائنامک طور پر تیار کر تا ہے ۔یہ ایک تکنیکی خصوصیت ہے کہ جب صارف کسی چیز کو متلاشی ہوتا ہے ۔
پوشیدہ ویب کا سائزعام ویب سے تقریباً پانچ سَو گنازیادہ ہے۔ اس کو ویب ہیکرز، سائنسدان، غیرقانونی ادویات فروش، انقلاب پسند، سرکاری اہلکار، پولیس، اغواکار، ریسرچر ،خفیہ اطلاعات فراہم کرنے والے افراداور ماہر سماجیات استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تخریبی امورکے بجائے تعمیری امور میں یقین رکھتے ہیں لیکن سائبر قوانین اور حکومت کی سخت روی کے باعث وہ ایسا کرنے سے مجبورہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی ملک کی حکومت وہاں کی عوام پر زیادتی کررہی ہو اور وہاں میڈیا پر بھی پابندی ہو، ایسے میں زمینی حقائق کو دْنیا تک پہنچانے کا ذریعہ صرف پوشیدہ ویب ہے۔ کیونکہ حکومتی ادارے عام ویب صفحات پرسخت نگرانی رکھتے ہیں۔پوشیدہ ویب دراصل انٹرنیٹ سرور کا ایک نجی حصّہ ہوتا ہے جس کے ذریعے خفیہ معلومات کو مخفی طریقے سے قابلِ رساں بنایا جاتا ہے۔ پوشیدہ ویب کے استعمال کی ایک عام فہم مثال ویکی لیکس کے انکشافات ہیں۔ ویکی لیکس کے انکشافات کا زیادہ تر حصّہ پوشیدہ ویب پر گذشتہ کئی برسوں سے موجود ہے۔ عرب دْنیا میں احتجاجات اور انقلابات بھی پوشیدہ ویب پر موجود بلاگز اور فورمز کا نتیجہ ہیں۔اس کی سب سے بڑی خصوصیت ناواقفیت ہے۔ اس کو استعمال کرتے ہوئے صارف اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر کاروبار اور معلومات کا تبادلہ کرسکتا ہے۔ نیزاْس صارف کی شناخت تک پہنچنا حکومت کیلئے صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔گوگل نے اب پوشیدہ ویب تک رسائی کی کوشش شروع کردی ہے۔ لیکن یہ ایک دشوار ترین عمل ہے ۔2005میں پوشیدہ ویب کی تلاش کے لیے یاہو(Yahoo)نے بھی کوشش کی تھی لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ۔
1995 میں ایڈنبرگ یونیورسٹی کے ایک طالب علم این کلارک نے کمپیوٹر سائنس کے لیے اپنے تحقیقی مقالے میں شناخت کے انکشاف کے بغیر انٹرنیٹ کے استعمال کے نئے طریقے کی تجویز پیش کی۔ درحقیقت اْس کا خیال تھا کہ وْہ ایک ایسا سافٹ وئیر بنائے گا جس کے ذریعے لوگ انٹرنیٹ پرمخفی رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی معلومات کا آزادانہ تبادلہ کرسکیں گے۔ کلارک کے اساتذہ اس کے خیال سے متفق نہیں ہوئے۔ لیکن وہ اپنی اس منزل مقصود کی جانب یقیں محکم ،عمل پیہم کے ساتھ رو بہ سفر رہا اور سن2000میں اپناتیارکردہ سافٹ وئیر اس نے پیش کیا۔ تب سے اس سافٹ وئیر کی بیس لاکھ سے زائد کاپیاں ڈاؤنلوڈ کی جاچکی ہیں۔جب صارف پوشیدہ ویب کے کسی وسیلے تک رسائی حاصل کررہا ہوتا ہے تو وہ وسیلہ دراصل کئی دوسرے صارفین کے کمپیوٹرز سے ہوتا ہوا صارف تک پہنچتا ہے، یعنی ایک تقسیم شدہ طریقے سے معلومات کا تبادلہ ہورہا ہوتا ہے اور اس طرح صارف کے کمپیوٹر کی شناخت کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ پوشیدہ ویب تلاش کرنے کے دو مقبول طریقے ٹور(Tor) اور آئی ٹو پی اینانیمس نیٹ ورک(I2P Anonymous Network ) ہیں۔خلاصہ یہ کہ پوشیدہ ویب جہاں خیرخواہوں کو کچھ اچھا کرنے کا ایک ذریعہ فراہم کرتا ہے وہاں یہ بدکاروں اور بدخواہوں کیلئے ایک خفیہ اور موزوں پناہ گاہ بھی ہے۔
انٹر نیٹ کی گہرائیوں میں بے شمار اطلاعات محفوظ ہیں اور عام سرچ انجن کی نظروں سے اوجھل ہیں ۔جنہیں معیاری سرچ انجن کے ذریعے ان تہوں میں غوطہ زنی کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔جب تک یہ صفحات لوگوں کی رسائی سے دور ہیں ان کے وجود کو بھی قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ اب تک انٹر نیٹ پر 30لاکھ سے زائد پوشیدہ ویب سائٹوں کی موجودگی درج کی گئی ہے ۔ 2006میں ان تعداد صرف 14ہزارتھی ۔کچھ ویب صفحات انجانے میں یا تکنیکی خرابی کے باعث عام ویب سے اوجھل ہوکر خفیہ ویب میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ایک سائنسی جنرل میں پوشیدہ ویب کے تعلق سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کچھ ویب صفحات اس لیے بھی پوشید ہ ویب میں شامل ہو گئے چونکہ انہیں کسی بھی سرچ انجن کے ساتھ رجسٹر ڈ نہیں کیا گیا ۔کچھ ویب سائٹوں کو معینہ مدت کے لیے خفیہ رکھا جاتا ہے اور مدت پوری ہونے کے بعد وہ عام صارفین کے لیے قابل استعمال ہوتی ہیں ۔
2001میں سب سے پہلے ڈیپ ویب (Deep Web)کی اصطلاح برگ مین (Bergman) کی تحقیق میں سامنے آئی ۔جنہیں کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا مثلاً متحرک مواد، غیر منسلک مواد ،ذاتی ویب ، متعلقہ ویب اور اسکرپٹ مواد وغیرہ۔انٹر نیٹ پر معلومات فراہم کرنے والے سافٹویئرکو کرالرز(Crawlers)کی اصطلاح دی گئی ہے جو نہ صرف انٹر نیٹ کی سطح پر گردش کرتا رہتا ہے بلکہ کچھ نئی اطلاعات موصول ہونے پر اسے درج بھی کر لیتا ہے۔
پوشیدہ ویب کی تلاش کے لیے اب تیزی سے کام ہونے شروع ہوئے ہیں ۔گوگل کے ساتھ ساتھ دوسری کمپنیوں نے بھی اس جانب توجہ مبذول کی ہیں ۔یہاں تک کہ پوشیدہ ویب کی تلاش کے صحیح متبادل پیش کرنے کے لیے کمرشیل سرچ انجن کی تیاری میں مصروف ہیں ۔موجودہ وقت میں پوشیدہ یا خفیہ ویب کو معلومات کا ایک اہم ذریعہ تسلیم کیا جا رہاہے۔جس طرح معلومات فراہم کرنے کے لیے مطبوعہ ذرائع کے ساتھ ساتھ ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن، سی ڈیز، ڈی وی ڈیز اور انٹرنیٹ ویب سائٹ اور اب پوشیدہ ویب اس ترقی یافتہ عہد کی اہم کڑی ہے ۔پوشیدہ ویب پائی جانے والی معلومات کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ حقائق پر مبنی ہوتی ہیں ۔جو طلبا ، استاتذہ اور محققین کے لیے اہم ہیں ۔(
جواب دیں