نقی احمد ندوی
اس دنیا میں انبیائے کرام کے علاوہ بہت سی ایسی عظیم الشان ہستیاں گزری ہیں اور آج بھی موجود ہیں جنھوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا اور ایسے انسانی مسائل و مشکلات پر کام کیا جن میں ہندو مسلم، سکھ عیسائی، کالے گورے اور عربی اور عجمی کی کوئی تفریق نہیں۔ کسی نے ماحولیات کو اپنا مشن بنایا تو کسی نے سماج کے دبے کچلے اور غریب و نادار لوگوں کی نصرت و معاونت کو تو کسی نے تعلیم اور صحت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور ایسے عظیم الشان کارنامے انجام دیے جن کو تاریخ نے سنہرے لفظوں سے لکھا۔
انہیں عظیم شخصیتوں میں پاکستان کے عبد الستار ایدھی کا بھی نام آتا ہے،
کسی یتیم کو سہارا چاہیے یا کسی بے نام بچے کو والد کانام، کسی مریض یا بیمار کو دوا چاہیے یا بھوکے اور بے گھر لوگوں کو کھانا، گھروں سے نکالے گئے بوڑھے اور معذور لوگ ہوں یا بیوائیں اورغریب و لاچار خواتین، شہر میں کوئی لاوارث اور متعفن لاش پڑی ہو یا سڑک کے حادثہ میں کوئی زخمی، سبھی کے لیے ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں اور ایدھی فاؤنڈیشن بلا کسی معاوضہ اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ساتوں دن اور چوبیس گھنٹہ بالکل مستعد اور تیار ہے۔
اس وقت ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس دو ہوائی جہاز، ایک ہیلی کاپٹر، اٹھارہ سو گاڑیوں پر مشتمل ایمبولینس، اٹھائیس ریزکیو بوٹس موجود ہیں جو بلا تفریق مذہب و مسلک پورے پاکستان میں انسانی خدمت میں مصروف ہیں۔ 18یتیم خانے اور شیلٹر ہومز جہاں یتیموں، بیواؤں، ضعیف العمر افراد اور بے گھر لوگوں کو رکھا جاتا ہے، جن کی تعداد آٹھ ہزار پانچ سو سے زائد ہے۔ لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے دس ایکٹر پر مشتملقبرستان ہے۔ بیک وقت تیس لاشوں کو رکھنے کے لیے مورچری ہے۔ ابھی تک 23320 بچوں کو ایدھی فاؤنڈیشن نے بے اولاد لوگوں کو گود دیا ہے۔ ایدھی سنٹرس کے سامنے جھولے لگائے گئے ہیں اور وہاں پوسٹر لگا ہوا ہے کہ آپ اپنے بچوں کو قتل نہ کریں میرے جھولے میں ڈال کر چلے جائیں۔ ہر مہینے250 سے 350لاوارث لاشوں کی ایدھی فاؤنڈیشن پورے عزت و اکرام کے ساتھ تدفین کرتی ہے۔
2005سے 2012ء تک 58261لاوارث لاشوں کی تدفین عمل میں آئی ہے۔ اس کے علاوہ بشمول میٹرنیٹی اور کینسر کے مختلف ہسپتال مختلف شہروں میں چل رہے ہیں۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کی مفت ایمبولنس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس مانی جاتی ہے۔ اور یہ سب صرف ایک شخصیت ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کا کمال ہے جو اپنی ماں کی خدمت کی خاطر اپنی تعلیم بھی پوری نہیں کرپائے تھے۔
ڈاکٹر عبدالستار ایدھی 1928ء میں ہندوستان کے گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چلے گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔
ان کی عمر محض 11سال تھی تو ان کی والدہ کو فالج کا مرض لاحق ہوگیا۔ انھوں نے اپنی والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے علاج معالجے سمیت ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ اپنی والدہ کی خدمت میں شب و روز مشغول ہونے کے باعث وہ ہائی اسکول کی تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکے، ان کی والدہ کا جب انتقال ہوا تو ان کی عمر صرف 19سال تھی۔ ماں کی طویل بیماری کو دیکھ کر عبدالستار ایدھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں ایسی لاکھوں کروڑوں مائیں ہوں گی جو ان کی والدہ کی طرح بیمار ہوں گی اور ان میں سے کتنوں کی تیمار داری کرنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ اسی سوچ نے ان کے دلمیں انسانوں کی بے لوث خدمت کا ایسا شدید جذبہ پیدا کیا کہ انھوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردی۔
چنانچہ 1951ء میں ایک کرایہ کے کمرہ میں ڈسپنسری قائم کرکے لوگوں کا مفت علاج کرنا شروع کیا، 1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی، جس پر ایدھی نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت ادویات فراہم کیں۔ اس موقع پر مخیر حضرات نے دل کھول کر ایدھی کی مدد کی، امدادی رقم سے انھوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری قائم تھی اور وہاں زچگی کے لیے سینٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے ایک اسکول کھولا اور یہیں سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ہوا کراچی کی فلو وبا کی بعد ایک بزنس مین نے ان کو بیس ہزار کا ڈونیشن دیا جس سے انھوں نے ایک ایمبولنس خریدی، اس ایمبولنس کو وہ خود ہی چلایا کرتے تھے۔ ہسپتال، ایمبولنس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بینک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے لیے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے۔
عبدالستار ایدھی نے تقریباً دو ہزار سے زائد تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھایا ہے اور ان کی تدفین کی ہے۔ انھوں نے پوری زندگی مردوں کا لباس پہنا، وہ جوتے بھی مردوں کا ہی استعمال کرتے تھے، عام طور پر مرنے والے شخص کی چیزیں لواحقین استعمال نہیں کرتے لیکن عبدالستار ایدھی وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے اس روایت کو توڑ دیا کہ مرنے والے کی اشیاء کا استعمال نحوست کا سبب ہے۔
دنیا کی سب سے بری رضاکارانہ ایمبولنس آرگنائزیشن کے چلانے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ انسانیت کی خدمات پر پاکستان کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند دی۔ 1980ء کیدہائی میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشانِ امتیاز دیا، بین الاقوامی سطح پر 1986ء میں فلپین نے ان کو رومن میگسے ایوارڈ دیا، 1993میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا۔ 1988ء میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کی خدمت کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ کئی ملکی وغیر ملکی اعزازات سے نوازے گئے۔ مزید برآں پاکستان نے 50روپئے کا، ایک ہزار کا یاد گاری سکہ عبدالستار ایدھی کے نام سے جاری کیا۔ (1)
عبدالستار ایدھی نے 88سال کی عمر پائی، وفات سے قبل انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی دونوں آنکھیں ضرورت مندوں کو عطیہ کردی جائیں۔(1)
عبدالستار ایدھی نے جہاں سماج کے کمزور طبقے، غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، یتیموں اور بوڑھے اور بے گھر افراد، نفسیاتی مریضوں اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن بنایا تو ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی نے بچوں کی دنیا کو روشن کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ مسٹر کیلاش ستیارتھی بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم تنظیم ”بچپن بچاؤ آندولن“ کے روح رواں اور کئی عالمی تنظیموں کے بانی اور ممبر ہیں جو ملالہ یوسف زئی کی شراکت کے ساتھ 2014ء میں امن نوبل انعام بھی حاصل کرچکے ہیں۔ بلا شبہ عبد الستار ایدھی کی زندگی سبھی لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
قیس بن سعد اور سہل بن حنیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں قادسیہ میں تھے۔ ایک جنازے کا گزر ہوا تو وہ دونوں کھڑے ہوگئے، ان سے کہا گیا یہ جنازہ یہیں کے لوگوں کا تھا (یعنی مسلم کا جنازہ نہیں تھا)، تو ان دونوں نے کہا کہ ایک جنازہ کا آنحضورﷺ کے سامنے گزر ہوا تو آپ (عزت میں) کھڑے ہوگئے، آپؐ سے کہا گیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے تو آپؐ نے فرمایا: ”کیا وہ انسان نہیں۔“ (مسلم شریف)
رسول اقدس ﷺ کی زندگی انسانیت کے لیے وقف تھی، آپ کی بعثت مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی بے لوث محبتِ انسانیت، رحم و کرم، عفو ودرگزر اور انسانوں کے دنیاوی واخروی نجات کے لیے انتھک جدوجہد اور مساعی پر مشتمل تھی۔ اس بنیاد پر ہر مسلمان اور خاص طور پر وارثینِ نبوت کا یہ فرض ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کا نصب العین انسان اور انسانیت کی خدمت کو بنائیں۔
انہیں عظیم شخصیتوں میں پاکستان کے عبد الستار ایدھی کا بھی نام آتا ہے،
کسی یتیم کو سہارا چاہیے یا کسی بے نام بچے کو والد کانام، کسی مریض یا بیمار کو دوا چاہیے یا بھوکے اور بے گھر لوگوں کو کھانا، گھروں سے نکالے گئے بوڑھے اور معذور لوگ ہوں یا بیوائیں اورغریب و لاچار خواتین، شہر میں کوئی لاوارث اور متعفن لاش پڑی ہو یا سڑک کے حادثہ میں کوئی زخمی، سبھی کے لیے ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں اور ایدھی فاؤنڈیشن بلا کسی معاوضہ اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ساتوں دن اور چوبیس گھنٹہ بالکل مستعد اور تیار ہے۔
اس وقت ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس دو ہوائی جہاز، ایک ہیلی کاپٹر، اٹھارہ سو گاڑیوں پر مشتمل ایمبولینس، اٹھائیس ریزکیو بوٹس موجود ہیں جو بلا تفریق مذہب و مسلک پورے پاکستان میں انسانی خدمت میں مصروف ہیں۔ 18یتیم خانے اور شیلٹر ہومز جہاں یتیموں، بیواؤں، ضعیف العمر افراد اور بے گھر لوگوں کو رکھا جاتا ہے، جن کی تعداد آٹھ ہزار پانچ سو سے زائد ہے۔ لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے دس ایکٹر پر مشتملقبرستان ہے۔ بیک وقت تیس لاشوں کو رکھنے کے لیے مورچری ہے۔ ابھی تک 23320 بچوں کو ایدھی فاؤنڈیشن نے بے اولاد لوگوں کو گود دیا ہے۔ ایدھی سنٹرس کے سامنے جھولے لگائے گئے ہیں اور وہاں پوسٹر لگا ہوا ہے کہ آپ اپنے بچوں کو قتل نہ کریں میرے جھولے میں ڈال کر چلے جائیں۔ ہر مہینے250 سے 350لاوارث لاشوں کی ایدھی فاؤنڈیشن پورے عزت و اکرام کے ساتھ تدفین کرتی ہے۔
2005سے 2012ء تک 58261لاوارث لاشوں کی تدفین عمل میں آئی ہے۔ اس کے علاوہ بشمول میٹرنیٹی اور کینسر کے مختلف ہسپتال مختلف شہروں میں چل رہے ہیں۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کی مفت ایمبولنس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس مانی جاتی ہے۔ اور یہ سب صرف ایک شخصیت ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کا کمال ہے جو اپنی ماں کی خدمت کی خاطر اپنی تعلیم بھی پوری نہیں کرپائے تھے۔
ڈاکٹر عبدالستار ایدھی 1928ء میں ہندوستان کے گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چلے گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔
ان کی عمر محض 11سال تھی تو ان کی والدہ کو فالج کا مرض لاحق ہوگیا۔ انھوں نے اپنی والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے علاج معالجے سمیت ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ اپنی والدہ کی خدمت میں شب و روز مشغول ہونے کے باعث وہ ہائی اسکول کی تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکے، ان کی والدہ کا جب انتقال ہوا تو ان کی عمر صرف 19سال تھی۔ ماں کی طویل بیماری کو دیکھ کر عبدالستار ایدھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں ایسی لاکھوں کروڑوں مائیں ہوں گی جو ان کی والدہ کی طرح بیمار ہوں گی اور ان میں سے کتنوں کی تیمار داری کرنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ اسی سوچ نے ان کے دلمیں انسانوں کی بے لوث خدمت کا ایسا شدید جذبہ پیدا کیا کہ انھوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردی۔
چنانچہ 1951ء میں ایک کرایہ کے کمرہ میں ڈسپنسری قائم کرکے لوگوں کا مفت علاج کرنا شروع کیا، 1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی، جس پر ایدھی نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت ادویات فراہم کیں۔ اس موقع پر مخیر حضرات نے دل کھول کر ایدھی کی مدد کی، امدادی رقم سے انھوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری قائم تھی اور وہاں زچگی کے لیے سینٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے ایک اسکول کھولا اور یہیں سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ہوا کراچی کی فلو وبا کی بعد ایک بزنس مین نے ان کو بیس ہزار کا ڈونیشن دیا جس سے انھوں نے ایک ایمبولنس خریدی، اس ایمبولنس کو وہ خود ہی چلایا کرتے تھے۔ ہسپتال، ایمبولنس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بینک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے لیے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے۔
عبدالستار ایدھی نے تقریباً دو ہزار سے زائد تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھایا ہے اور ان کی تدفین کی ہے۔ انھوں نے پوری زندگی مردوں کا لباس پہنا، وہ جوتے بھی مردوں کا ہی استعمال کرتے تھے، عام طور پر مرنے والے شخص کی چیزیں لواحقین استعمال نہیں کرتے لیکن عبدالستار ایدھی وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے اس روایت کو توڑ دیا کہ مرنے والے کی اشیاء کا استعمال نحوست کا سبب ہے۔
دنیا کی سب سے بری رضاکارانہ ایمبولنس آرگنائزیشن کے چلانے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ انسانیت کی خدمات پر پاکستان کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند دی۔ 1980ء کیدہائی میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشانِ امتیاز دیا، بین الاقوامی سطح پر 1986ء میں فلپین نے ان کو رومن میگسے ایوارڈ دیا، 1993میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا۔ 1988ء میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کی خدمت کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ کئی ملکی وغیر ملکی اعزازات سے نوازے گئے۔ مزید برآں پاکستان نے 50روپئے کا، ایک ہزار کا یاد گاری سکہ عبدالستار ایدھی کے نام سے جاری کیا۔ (1)
عبدالستار ایدھی نے 88سال کی عمر پائی، وفات سے قبل انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی دونوں آنکھیں ضرورت مندوں کو عطیہ کردی جائیں۔(1)
عبدالستار ایدھی نے جہاں سماج کے کمزور طبقے، غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، یتیموں اور بوڑھے اور بے گھر افراد، نفسیاتی مریضوں اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن بنایا تو ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی نے بچوں کی دنیا کو روشن کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ مسٹر کیلاش ستیارتھی بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم تنظیم ”بچپن بچاؤ آندولن“ کے روح رواں اور کئی عالمی تنظیموں کے بانی اور ممبر ہیں جو ملالہ یوسف زئی کی شراکت کے ساتھ 2014ء میں امن نوبل انعام بھی حاصل کرچکے ہیں۔ بلا شبہ عبد الستار ایدھی کی زندگی سبھی لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
قیس بن سعد اور سہل بن حنیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں قادسیہ میں تھے۔ ایک جنازے کا گزر ہوا تو وہ دونوں کھڑے ہوگئے، ان سے کہا گیا یہ جنازہ یہیں کے لوگوں کا تھا (یعنی مسلم کا جنازہ نہیں تھا)، تو ان دونوں نے کہا کہ ایک جنازہ کا آنحضورﷺ کے سامنے گزر ہوا تو آپ (عزت میں) کھڑے ہوگئے، آپؐ سے کہا گیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے تو آپؐ نے فرمایا: ”کیا وہ انسان نہیں۔“ (مسلم شریف)
رسول اقدس ﷺ کی زندگی انسانیت کے لیے وقف تھی، آپ کی بعثت مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی بے لوث محبتِ انسانیت، رحم و کرم، عفو ودرگزر اور انسانوں کے دنیاوی واخروی نجات کے لیے انتھک جدوجہد اور مساعی پر مشتمل تھی۔ اس بنیاد پر ہر مسلمان اور خاص طور پر وارثینِ نبوت کا یہ فرض ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کا نصب العین انسان اور انسانیت کی خدمت کو بنائیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
14نومبر 2020 (ادارہ فکروخبر )
جواب دیں