تحریر: ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتح پوری
اسلام اور انسانیت کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ اسلام انسانیت کا محافظ ہے۔ مذہبِ اسلام کی تعلیمات اور ہدایات کی ابتداء ہی انسانیت سے ہوتی ہے۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسانیت کے ناطے ہر آدمی کا ایک دوسرے پر کچھ حق ہے اور ہر آدمی ایک دوسرے کے لیے قدر، عزت اور پیار کے قابل ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
" أحبُّ الناس إلى الله أنفعهم للناس." (رواه الطبرانی في الأوسط و الصغير)
ترجمہ: اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا انسان وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچاۓ۔*اسی لیے اسلام کا یہ قانون ہے کہ مصیبت، پریشانی، بیماری، بھوک، پیاس یا کسی ناگہانی آفت کے موقعے پر ہر انسان کی مدد کی جائے گی۔ انسانوں پر رحم و مروت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم اسلام اس اسلوب میں دیتا ہے:
الراحمون يرحمهم الرحمن. ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء. (رواه الترمذي في جامعه)
ترجمہ: رحم کرنے والوں پر خداۓ رحمٰن رحم فرماتا ہے۔ تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔
اسلامی تعلیمات سے آشنا مسلمانانِ ہند نے کورونا وائرس کی مہاماری کے اس نازک دور میں انسانیت کے لیے جو خدمات پیش کی ہیں اور کر رہے ہیں وہ یقیناً لائق ستائش اور قابل تقلید ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے اس کردار سے انسانیت کے پہلو کو اجاگر کیا ہے اور مخلوق خدا کی بڑھ چڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور سچائی تو یہ ہے کہ اپنے اس عمل کے ذریعہ درحقیقت وہ انسانیت اور مذہب دونوں ہی کی خدمت کررہے ہیں۔ اس لیے ان کے اعمال کو دونوں نظریوں سے دیکھا اور سراہا جاسکتا ہے۔
ہندوستانی مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں بلا تفریق مذہب و ملت ہر غریب اور ہر حاجت مند کی مدد کر رہے ہیں، ان تک ان کی ضرورت کا سامان پہنچا رہے ہیں، راشن بانٹ رہے ہیں، یہاں تک کہ بدن چھپانے کے لیے کپڑے اور پیروں پر پہننے کے لیے چپل دے کر لوگوں کی ضرورت پوری کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کی بہت سی ملی تنظیمیں اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور لوگوں کو ہر قسم کی مدد مہیا کر رہی ہیں۔ صاحبِ ثروت مسلمان اپنے اپنے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے قائم کردہ ریلیف فنڈ میں عطیہ دے رہے ہیں اور وزیراعظم کے قائم کردہ ریلیف فنڈ میں بھی چندہ دے رہے ہیں۔ مدارس کے اساتذہ اور سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں سے اچھی خاصی رقم دے کر کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔
ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ بڑے شہروں میں کام کرنے والے مزدور جب کام بند ہو جانے کے سبب بڑی کس مپرسی کے عالم میں اپنے اپنے وطن واپس ہو رہے تھے تو مسلم آبادیوں میں پہنچنے پر مسلمانوں نے ان کا استقبال کیا، ان کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کا بندوبست کیا اور ہر طرح انھیں تسلی دی۔ *مسلمانوں کی محبت اور ان کا حسن سلوک دیکھ کر وہ غیر مسلم مزدور اس قدر متاثر ہوئے، کہ آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ سراونی، عارف پور، ہاپوڑ کے مسلمانوں کو اس حوالے سے بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ان کے گاؤں میں ہندو مزدوروں کے پہنچنے پر ان کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست کیا۔*
اکبر پور، یو پی کی رہنے والی گڑیا کی انسانی ہمدردی بھی دنیا نے دیکھی۔ اس گڑیا کا نام تحرین ہے، بشر خان کی بیٹی ہے۔ *اس چھوٹی سی بچی کے احساس ذمہ داری اور جذبہ قربانی کو ہمارا سلام کہ اس نے مہینوں سے اپنے گولک میں جو پیسے جمع کیے تھے، گولک توڑ کر اس نے سارے پیسے لیے اور پاس کی پولیس چوکی جا پہنچی اور وہاں کے عہدے دار امت سنگھ کو پیسے دیتے ہوئے بولی: لیجیے میرے ان پیسوں سے غریبوں کو کھانا کھلا دیجیے گا۔*
یہ ایک گڑیا ہی نہیں اس طرح کا ایثار کرنے والے بہت سے بچے ہیں جنھوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی جمع کی ہوئی پونجی غریبوں پر خرچ کر دی۔
دنیا کے سامنے ایسے مسلمان بھی آۓ جنھوں نے حج و عمرہ کے لیے برسوں سے جمع کی ہوئی پونجی کورونا وائرس کی اس مہاماری کے سبب ضرورت مندوں میں خرچ کر دی اور دنیا کو یہ بتایا کہ مسلمان کسی کو پریشان حال نہیں دیکھ سکتا اور اگر اس کے سماج میں کوئی حاجت مند ہے تو وہ اس کی حاجت براری کے لیے اپنی گاڑھی کمائی بھی دان کر سکتا ہے۔ جموں کشمیر کی خالدہ بیگم نے حج کے لیے جمع کیے ہوئے پانچ لاکھ روپے دان کر کے متعصب میڈیا اور چڈھی دھاریوں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا ہے جو کشمیریوں کو آتنکی کہتے نہیں تھکتے۔
ہم نے ایسے مناظر بھی دیکھے کہ مزدوروں سے بھری ہوئی بسیں جب کسی مسلم آبادی سے گزرتی ہیں تو اس آبادی کے مسلم نوجوان سڑکوں پر کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کھانے کے پیکٹ اور پانی کی بوتلیں ہیں، جیسے ہی کوئی بس قریب آتی ہے وہ اسے رکنے کا اشارہ کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان کھانے کے پیکٹ اور پانی کی بوتلیں تقسیم کرتے ہیں، جو بھی مانگتا ہے سب کو دیتے ہیں۔
واللہ ایسے نظارے دیکھ کر خوشی سے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور دل مچل کر کہتا ہے کہ اے قوم مسلم، بخدا تو ایک خوش قسمت قوم ہے، واللہ تو ایک غریب پرور قوم ہے، حقا، تو سب سے محبت کرنے اور ہر ایک کو پیار دینے والی قوم ہے۔ اللہ کی قسم، دنیا تجھے چاہے جتنا بدنام کرے، تیری اصل صورت کبھی مسخ نہ ہوگی اور دشمن لاکھ کوشش کر لے تیرا حقیقی رنگ کبھی نہ جاۓگا اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھنے والے تیرے حقیقی رنگ سے تیری سچائی ضرور پہچان لیں گے۔
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
فیض ہوگا جہاں میں عام مرا
خدمتِ خلق ہو گا کام مرا
مضمون نگار الجامعۃ الاشرفیہ،مبارک پور،اعظم گڑھ کے استاد ہیں ۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
12؍ اپریل 2020
جواب دیں