انسانیت کا اخلاقی زوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                                    تحریر :  عطاء الرحمن القاسمی،شیموگہ
                                            صدر مدرسہ انصارالعلوم،بنگلور

        مشیت ِ خداوندی نے جب دنیا کو آباد کرنے کا ارادہ کیا تو دنیا کا نظام سنبھالنے،دنیا کی ساری چیزوں پر کنٹرول کرنے کے لئے اپنی مخلوقات میں سے انسان کو اپنا نائب منتخب کیا۔جو انسان کے لئے بے انتہا اعزاز و اکرم اور شرف و فضیلت کی بات ہے،چنانچہ سب سے پہلے اس پروگرام کی ابتداء حضرت ِ آدم و حوّا علیہم السلام کو دنیا میں بھیج کر کیا،ان دونوں کو دنیا میں اتارے جانے کے بعد ہی دنیا کی ہر چیز وجود میں آئی اس سے پہلے دنیا میں کسی بھی چیز کا وجود نہ تھا،نہ گھاس پوس،نہ درخت و پہاڑ،نہ چرند و پرند،نہ جن و انس،نہ شہر و آبادیاں،نہ سیّارات و سواریاں،نہ گھوڑا گاڑیاں،نہ پھل و میوے،نہ اناج و غلّہ،نہ صنعت و حرفت،نہ تجارت و زراعت اور نہ عمارت و مدنیّت غرض یہ کہ دنیا ایک ویران جگہ تھی،یہ حضرت آدم ؑ و حوّا ؑ کے قدو م ِ بابرکت ہی کا طفیل ہے کہ ساری دنیا کی چیزیں دھیرے دھیرے وجودمیں آئیں۔
خدا اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ:۔
    اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آباد کرنے کے لئے انسانوں کو اپنا نائب بنا کر دنیا کے تمام اُمور کو سونپنے کا ارادہ کیا تو اپنے اس پروگرام کو آسمانوں اور عرش ِ خداوندی پر آباد فرشتوں کے سامنے رکھا اور یہ کہا کہ میں نے دنیا کو بنانے،انسانوں کو آباد کرنے اور دنیا میں انسان کو اپنا خلیفہ مقرر کرنے،دنیا کا سارا نظام قیامت تک کے لئے انسان کے ذمہ کرنے کا ارادہ کیا ہے،جوں ہی اس پروگرام کو سننا تھا فرشتوں کو بڑا تعجب ہوا،حیرت زدہ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے رب العامین ہم رات دن آپ کی اطاعت گزاری اور فرما ں برداری اور بندگی میں مصروف ہیں،ہم سے کیا کوئی غلطی و کوتاہی سرزد ہوگئی کہ آپ انسان جیسے جھگڑالو اور دنیا میں خون خرابہ اور ہر طرح کے فسادات مچانے والے کو اپنا خلیفہ بنانے جارہے ہیں،آپ کے ہر حکم کی تعمیل کرنے کے لئے ہم تیار ہیں،لہٰذا اس دنیاوی نظام کو بھی ہم سنبھال لیں گے،تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تشفی بخش جواب دیا کہ”جس حقیقت کو میں جانتا ہوں وہ تم لوگ نہیں جانتے“۔(البقرہ)
    یہاں فرشتوں کے آمادہ نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر رحم کیا اور دنیا کے نظام کو انسانوں کے حوالے کیا،دنیا کی تمام مخلوقات میں بالا دستی انسان ہی کو اللہ تعالیٰ نے عطاکی،خدا نخواستہ اگر انسان کو اللہ تعالیٰ جنات کے تابع کردیتا،حاکمیت جنات کو عطا کردیتا اور انسان کو جنّات کا غلام و محکوم بنادیتا تو انسانوں کے لئے بہت بڑا مسئلہ بن جاتا،دنیا جب تک قائم رہے گی انسان کے لئے بہت بڑی آزمائش کا سبب بن جاتا اور انسان کو طرح طرح کی تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا، انسان پر خدائے ارحم الراحمین کا بے انتہا فضل و کرم ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنا کر ساری دنیا کا نظام انسان ہی کے ہاتھوں تھما دیا۔
    اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا کا نظام چلانے، امن و امان قائم رکھنے،خدا کی مرضی 
۲
پر قائم رہنے کا مکلف بنایا ہے،کیا انسان اس نظام ِ امانت کو مکمل ذمہ داری کے ساتھ نبھارہا ہے؟دنیا کی دولت اور اقتدار ملنے پر انسان آج آپے سے باہر ہوگیاہے،اپنی حاکمیت اور آمریت کے ذریعہ انسان کودنیا سے ختم کردینے کا پکّا ارادہ کرلیا ہے،کیا جس خدا نے انسان کو دنیا میں بالا دستی عطا کی ہو،تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ یہی انسان دوسرے انسانوں کو کھاجائے،پیہم ان کا تعاقب اور پیچھا کرے،خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ساری دنیا میں بد اخلاقیوں اور ظلم و زیادتیوں کو ہر طرح سے روا رکھے،انسانیت کو دنیا سے مٹا نے اور اپنا آمرانہ و ظالمانہ نظام قائم رکھنے کے لئے اپنی ساری توانائی اور مال و زر مہلک ترین ہتھیار بنانے پر خرچ کرے؟اس سے بدترین اخلاقی زوال اور کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا کے یہ سر پھرے وقت کے فرعون وہامان انسانوں کی آبادیوں کو اپنے مزائیل و مہلک ترین ہتھیارکے ذریعہ کھنڈ رات میں تبدیل کردیں،کیا خدا نے انسانوں کو ختم کردینے اور طرح طرح کی تکلیفوں اور پریشانیوں کو انسانوں پر مسلط کردینے کا ان ظالم و جابر حکمرانوں کو مکلف بنایا تھا؟یا انسانوں کو راحت و آرام اور چین و سکون  پہچانے  کے لئے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا؟
    آج کے جابر و ظالم حکمران خدا کی مخلوق کے درپے آزار بنے ہوئے ہیں، خاص کر ان سب کا نشانہ مسلمان ہیں،کیا مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ خدا کی وحدانیت اور اُس کے آخری رسول ؐ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق دنیا میں زندگی گزار نا چاہتے ہیں،سیاسیات،اقتصادیات اور صنعت و تجارت غرض دنیا کا کوئی بھی کام ہو، کوئی بھی مقصد ہو،اسلام کے تابع ہوکر کرنا چاہتے ہیں،رسول اللہ ﷺ پر جاں نثار صحابہ کی مقدس جماعت پر مسلمان اپنا مکمل اعتماد و اعتقاد رکھتے ہیں،وہ اصحابِ نبی ؐ جنہوں نے اپنے اعلیٰ اخلاق و بلندکردار اور تقویٰ و ورع کی بنیاد پر آدھی دنیا پراسلامی حکومت قائم کی تھی،جن کے سامنے وقت کی سوپر پاور طاقتیں جھک گئیں،ان کی دولت سے اسلامی بیت المال بھر گئے،اس کے باوجود صحابہ کرام نے کفایت شعاری اور قناعت پسندی سے کام لیا،اسلامی بیت المال کا غلط و بے جا استعمال نہیں کیا،انتہائی دیانتداری کامظاہرہ کیا،تومسلمان ایسی مقدس جماعت کے ساتھ اپنا اعتقاد رکھتے ہیں،اُن سے محبت رکھتے ہیں اور ان کو مَرجع سمجھتے ہیں،اُن کے ہر عمل اورہرادا کو زندگی گزارنے کے لئے نمونہ اور آیڈیل سمجھتے ہیں،کیا مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ دنیا کو اپنے حُسن ِعمل اور حُسن ِ کردار سے امن و سلامتی کا گہوارا بنایا؟صحابہ نے آدھی دنیا پر حکمرانی اس شان سے کی کہ آج تک دنیا کے کسی بھی باطل مذہب کے ماننے والوں نے اُس کی مثال دنیا کے سامنے پیش نہیں کی،حقیقت میں انبیاء کرام اور اُن پر ایمان لانے والوں نے دنیا میں عدل و انصاف اورامانت و دیانت کے ذریعہ دنیا کے نظام ِ سیاست و سیادت کو پوری کامیابی کے ساتھ اس طرح سنبھالا کہ اللہ کا خلیفہ اور اللہ کا نائب بننے کا صحیح حق ادا کردیا۔ 
دنیا دار حکمرانوں کا اخلاقی زوال:۔
    اب اس کے بعد جن باطل مذاہب کے متبعین نے دنیا کا نظام جیسے ہی اپنے ہاتھ میں لیا،دنیا کے امن و سلامتی کو تہہ و بالاکردیا،ملکی خزانوں کو لوٹا،سرکاری دولت کا استحصال کیا اور بد اخلاقی یہاں تک بڑھ گئی کہ خود رعایا اور عوام کو ہلاک و برباد کرنے کی سازشیں رچائی گئیں،دنیا کے جو شہراور علاقے،ترقیات کے بام ِ عروج تک پہنچے کہ جن کی فلک بوس عمارتیں و خوش نگاہ رونق کدے،وسیع وخوب صورت شاہراہیں اورآنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے خوش نماو دیدہ زیب پارک و بغیچے جو جنت نشاں اور فردوس ِ بریں کا منظرپیش کرتے ہیں،اُن کو آنِ واحد میں اُن ظالم طاقتوں نے کھنڈرات اور ویرانوں میں بدل دیا،کیا ایسی من مانی و بداخلاقی کا اختیار انہیں کس نے دیا؟کیا اللہ کی نیابت آبادیوں کو برباد کرکے،انسانوں کو موت و ہلاکت تک پہنچاکر کی جائے گی؟کیا خدا نے انسانوں کو دنیا کی ہر چیز تابع و مسخّر اسی لئے کیا تھا کہ نام و نہاد دنیا کے بے ایمان ظالم حکمران اپنی من مانی بے جا زیادتی کا مظاہرنہتّے انسانوں پر کریں؟کیا یہ اخلاقی زوال نہیں ہے کہ انسان خود انسان کو ہلاک کرنے لگے،جب کہ انسان جیسی اعلیٰ مخلوق جس کو خداوند ِ قدوس نے اپنی ساری مخلوقات میں مکرم و محترم،اشرف وافضل ترین مخلوق بنایا ہے،کہیں قرآن ِ کریم میں انسانوں کو احسن ِ تقویم کے خطاب سے نوازا ہے اور سب سے بڑھ کر انسان کی شرافت و کرامت یہ ہے کہ خدا کی آخری کتاب قرآن ِ کریم کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں نہ پہاڑوں پر نہ زمینوں پر نہ درختوں پر،نہ پتھروں پر،نہ سمندروں پراور نہ دشت وبیاباں پر اُتارا بلکہ یہ امانت قرآن ِ کریم کمزور و نا تواں اور علم و آگہی سے نا واقف انسان پر نازل کیا۔جس سے انسانوں کی شرافت وافضلیت ساری مخلوقات کے مقابلہ میں عیاں ہوگئی،اللہ تعالیٰ انسان کو دنیا میں اپنا نائب بناکر اور قرآن ِ کریم جیسی مقدس اور آخری کتاب انسانوں پر نازل فرماکر انسان کی عظمت کو دوبالا کیا۔مگر وہ انسان جس کی سَرشت ہی فتنوں،جس کی طبعیت ہی مکاریوں اور سازشوں کی عکّاسی کررہی تھی،ایسے بے ایمان سرپھروں نے انسانیت کو ہلاکت کے دہانے پر لاکھڑا کیا،لاکھوں کروڑوں انسان اب تک لقمہ ئ اجل بن گئے،افسوس کا مقام ہے کہ ان ظالم حکمرانوں کے ذہنوں اور نگاہوں نے بوڑھوں،عورتوں،بچوں،معزوروں،نوجوانوں،لاچاروں اور مریضوں پر بھی ترس نہ کھایا،یہ توبے ایمان وظالم حکمرانوں کی بد اخلاقی کا زوال ہے۔
سماجی شعبوں میں بد اخلاقی کا زوال:۔
    حیرت و تعجب اُن لوگوں پر بھی بہت ہے، جو اپنے سماج و معاشرے میں بھی انسانیت کے اخلاقی زوال میں بری طرح ملوث ہیں،ہمارے سماج کا وہ کون سا شعبہ ایسا ہے جو اس اخلاقی زوال کا شکار نہیں،کہیں اولاد اپنے والدین کی ایسی خطرناک نافرمانی میں مبتلا ہے کہ جس سے اعلیٰ اخلاق وہ بلند کردار شرم سار ہیں،کہیں شوہر وں کے اخلاقی زوال کا یہ عالم ہے کہ جہاں انسانیت عاری نظر آتی ہے،کسی جگہ عورتوں کی زیادتی اوراخلاقی گراوٹ اس درجہ ہے کہ نکاح جیسا اسلامی پختہ عقد اور مضبوط بندھن جو سینکڑوں اور ہزاروں کے مجمع میں منعقد ہوتا ہے اور اس بندھن کا تعلق میاں بیوی کی موت تک قائم رہتا ہے،ایسے مضبوط بندھن کو بلا کسی سبب محض حیوانیت اور نفسایت کے خاطر آج کل ناعاقبت اندیش وناجائز ہوا و حوس کی بھوکی عورتیں جن کو خدا کا،آخرت کا، شرافت و انسانیت اور سماج کا کوئی پاس و لحاظ نہیں اخلاقی زوال کا اپنے شوہروں کے ساتھ اس طرح مظاہرہ کررہی ہیں کہ انسانیت شرم سے پانی پانی ہوکر رہ گئی،اس پر مزید انتہائی دکھ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ عصمت و عفت کو برسر ِ عام معمولی قیمت کے بدلے فروخت 
۴
کرنی والی ان عورتوں کے ماں باپ اورر شتہ دار ہی تائید اور ہمت افزائی کا خطرناک جرم کررہے ہیں،اور یہ سب خدا کے نزدیک بے شک مجرم ہیں،جس سے مسلم سماج و  معاشرہ حیرت زدہ ہے العیاذ باللہ۔کہیں سسرالی رشتے آپس میں اخلاقی زوال کا شکار ہیں مثلاً کہیں ساس یا سسر نرم مزاج رکھتے ہوں تو وہاں پر بہو کی مظالم کی طویل فہرست ہے،کہیں بہو نرم اخلاق و اعلیٰ کردار کی خوگر ہے تو سسرال نے اپنے مظالم کے سارے تیور استعمال کرتے ہوئے بری طرح اپنے شکنجوں میں پھانس کر بہو کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے اس طرح ہمارے سماج کے ہر شعبے کسی نہ کسی طرح انسانیت سوز حرکتوں اور انسانیت کے اخلاقی زوال میں بری طرح مبتلا ہیں۔
معاملات میں اخلاقی زوال:۔
    ہمارے معاملات میں بھی اخلاقی زوال بڑے ہی عروج پر ہے،جس نے امانت و دیانت کا جنازہ نکال دیا ہے،معاملات میں اخلاقی زوال کی انتہا یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ اگر کسی نے روپئے پیسوں کا معاملہ کیا اور وقت پر دیانت داری کے ساتھ واپس لوٹادیا تو ایسے متدین شخص کے بارے میں سماج یہ کہتا ہے کہ یہ بے وقوف و نادان ہے،اس کے مقابلے میں جو بد دیانتی کرتے ہوئے کسی کا حق مارے یا کسی کی ناجائز طور پر زمینیں ہڑپ لے، ایسے مجرم شخص سے ہمارا سماج خوف کھاتا ہے،بجائے اس کو صحیح بات سمجھانے کے اس کا رُعب و دبدبہ اُلٹا سماج پر غالب رہتا ہے،یہ بھی اخلاقی زوال ہے کہ آدمی دولت مند ہوجائے چاہے و حرام وناجائز طریقہ سے ہی کیوں نہ ہو،اُس کو سماج بڑی عزّت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور ایسے مال داروں کی وجاہت سماج پر طاری رہتی ہے،معاف کیجئے گا معاملات میں انتہا ئی درجہ کی کمزوری ہمارے مسلم معاشرے میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے،یتیموں مسکینوں اور کمزوروں کی جائیداد و اموال ہڑپ لینے کے واقعات پورے مسلم سماج میں بہت تیزی کے ساتھ گشت کررہے ہیں،مگر انسانیت وشرافت کو بالائے طاق رکھ کر اس جرم میں لوگ بڑی جرأت مندی کے ساتھ مبتلا ہیں اور خود ہی من گھڑت تاویلات گھڑھ لیتے ہیں۔یہی حال شادی بیاہ میں ہے کہ بے پردگی و بے حیائی کا ماحول پوری آب وتاب کے ساتھ نقطہ ئ عروج پر ہے،عورتیں اپنا لباس و زیوارت کی نمائش کرتی ہیں،بے تکلف مردوں اور نوجوانوں کے درمیان عورتوں کا اُٹھنا بیٹھنا اور گزرہوتا ہے اور بہت سی انسانیت سوز حرکتوں کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
معاشرے میں اخلاقی زوال کی سطحیت:۔
    ہمارے معاشرے میں اخلاقی زوال بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب انسانوں کو ذلیل کرکے اس سے تفریح حاصل کی جاتی ہے،یعنی انسان کی تکلیف سے دوسرا انسان خوش ہوتا ہے،دوسرے کی راحت پر حاسد بن جاتا ہے،انسان کی سطحیت کا مزاق اُڑایا جاتا ہے،افسوس ناک بات یہ ہے کہ انسانیت جتنی پست سطح پر ہوتی ہے اتنی ہی آسودگی اور تفریح ہوتی ہے،یہ فلم اور پکچر اور اُن کی اسٹوریاں،یہ ناول اور افسانے،یہ عریاں و ہیجان آمیز تصویریں اور فحش گانے کیوں ہماری تفریح کا سامان ہیں؟کیا ان تمام میں انسانیت کو ذلیل شکل میں نہیں دکھایا جاتا؟کیا یہ آدم وحوّا علیہم السلام کے بیٹوں اور بیٹوں کو جو ہمارے بھائی اور بہنیں ہیں 
۵
اُن کو ایسی شکل میں پیش نہیں کرتے جو انسانیت کے لئے باعث ِ ننگ و عار اور باعث ِشرمسار ہیں؟کیا ہم کو ان تصویروں،کھیلوں،ان فلموں ناولوں اورموبائیل و انٹرنیٹ میں انسانیت کی ذلت ورسوائی نظر نہیں آتی؟پھر ہماری طبعیت میں کیوں اشتعال ونفرت پیدا نہیں ہوتی؟ہم ان بے حیائیوں کو کس طرح گورا کرتے ہیں؟جب کوئی سوسائٹی اخلاقی حیثیت سے معیاری اور اعلیٰ ہوتی ہے تو ایسی سوسائٹی کا کوئی فرد کسی فر د کی ذلّت برداشت کرنا تو دور کی بات اُس کے متعلق کسی بد اخلاقی کے کسی واقعہ کا سننا بھی گورا نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ ہمارے پورے سماج سے اخلاقی زوال کو دور فرمائے اور ہمیں اعلیٰ اخلاق وبلند کردار کا خوگر بنائے۔آمین

٭٭٭
      
     مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

       
 

 

«
»

بنت حوا کی خودکشی کا ابن آدم ذمہ دار!! …. عائشہ ،جہیز، شریعت، ہم اور ہمارا معاشرہ

یہ دنیا ہزاروں رنگ بدلتی ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے