انسانیت کو بھولا ہوا سبق یاددلانا

عارف عزیز(بھوپال)

انسانی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ابتداء میں دنیا کے سارے انسان ایک ہی جمعیت انسانی سے تعلق رکھتے تھے قدرتی اور سادہ زندگی بسر کرتے ان میں باہمی اختلاف اور کسی قسم کی بدگمانی نہیں تھی پھر ایسا ہوا کہ انسانی آبادی کی کثرت، ضروریات اور معیشت کی وسعت کے سبب طرح طرح کے اختلافات رونما ہونے لگے اور ان میں جب شدت پیداہوگئی تو اس نے افتراق وانتشار، ظلم وفساد کی صورت اختیار کرلی۔ ہر گروہ دوسرے کو شک وشبہہ کی نظر سے دیکھنے لگا، نفرت وظلم کی دیواریں اونچی ہونے لگیں زور آور کمزوروں کو کچلنے لگے اور انسانیت دم توڑنے لگی تو اللہ کی طرف سے الٰہی روشنی نمودار ہوئی اس طرح زمین پر پیغمروں کی دعوت واصلاح کا سلسلہ جاری ہوا ہر ملک اور ہر قوم میں رسول بھیجے گئے آخر میں پیغمبر اسلام تشریف لائے جنہوں نے خانہ کعبہ میں کھڑے ہوکر انسانی عزت، بھائی چارہ اور مساوات کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
    ”خداوندا! میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں“
    دوسرے موقع پر آپﷺ نے اپنے صحابی کرام ؓ سے کہا کہ ”جنت میں رحم دل انسان داخل ہوگا صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضورؐ ہم سب رحم دل ہیں آپؐ نے فرمایا نہیں ”رحم دل وہ ہے جو تمام مخلوق پر رحم کرے“
    ایک روایت میں ہے کہ ”زمین پر بسنے والوں سے محبت، رحمت اور شفقت کا برتاؤ کرو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تم پر مہربان ہوجائے گا“ اپنے بندوں پر خدا کی یہی مہربانی ہے ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے کھانے پینے اور دوا علاج وغیرہ کی ضرورتوں کو اپنی ضرورتیں قرار دے کر ان کی تکمیل پر دوسرے انسانوں کو نہایت انوکھے اور نرالے انداز میں ابھارا ہے ایک دوسری حدیچ مین بہترین انسان اس کو قرار دیا یا ہے جو دوسروں کے لئے نفع بخش ثابت ہو۔
    اسلامی تعلیمات کی رو سے درج ذیل سات انسانی حقوق کی رعایت سب کو کرنا چاہئے (۱) انسان اور انسانیت کا احترام (۲) انسانی جان کی حفاظت (۳) انسانی مال کی حفاظت (۴) انسانی عزت وآبرو کا تحفظ (۵) مذہب اور رائے کا احترام (۶) ضروریاتِ زندگی کا انتظام اور کفالت (۷) خواتین کے ناموس کا تحفظ۔
    یہ وہ انسانی حقوق ہیں جو پروردگار عالم اور اس کے رسول برحق ﷺ نے تمام انسانی برادری کو عطا کئے ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسلام کے اس تصور انسانی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے     ؎
آدمیت احترام آدمی
باخبر شو از مقام آدمی
    یعنی آدمیت انسان کے احترام کا نام ہے اس مقام انسانی سے باخبر رہو یہی تقریباً ہر مذہب کی روح ہے۔ تمام مذاہب میں اسی پر زور دیا گیا ہے اور کسی بھی مذہب میں انسانوں کے درمیان بیر رکھنا نہیں سکھایاگیا بلکہ سب نے احترام انسانیت کی تعلیم دی ہے اسلام میں تو یہ تعلیم سب سے واضح شکل میں ملتی ہے مگر افسوس کہ وقتی جوش وجذبات میں ہم اس کا لحاظ نہیں کرتے اور غلطی کا جواب غلطی سے دشمنی کا جواب دشمنی سے دینے میں لگ جاتے ہیں جبکہ آج کی سستی بلکتی اور مختلف تعصبات سے پر دنیا میں اس بات کی ضرورت ہے کہ انسان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو وہ کوئی بھی زبان بولنے والا ہو کہیں کا رہنے والا ہو، تہذیب وتمدن کے اعتبار سے کسی بھی مکتب فکر کا حامل ہو، کسی بھی جماعت، منصب اور عہدے سے تعلق رکھتا ہو، وہ سب سے پہلے اپنے انسان ہونے سے متعارف ہو، اس کی حقیقت اور حیثیت پر نظر رکھے وہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ کسی انسان کو اس کی ذات سے تکلیف نہ پہونچے۔
    انسان کے اس بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانے کے لئے عالموں، مصنفوں، دانشوروں، صحافیوں نے اپنے اپنے انداز سے روشنی ڈالی ہے اور آج بھی اس کی ضرورت کم نہیں ہوئی ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

30دسمبر2019(فکروخبر)

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے