انسانوں کی تعداد نہیں صفات مطلوب ہیں

اس کے برعکس اقلیت کے دل میں یہ ہول سماجاتا ہے کہ تعداد کی کمی کے بعد اب اس کے لئے عزت ووقار کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے جس طرح اکثریت کے سامنے مردم شماری کے اعداد وشمار ہوتے ہیں۔ اسی طررح اقلیت کے پیش نظر بھی صرف اپنی قلت کا ریکارڈ ہوتا ہے اکثریت اگر اپنی کثرتِ تعداد پر نازاں ہے تو اقلیت اپنی قلتِ تعداد سے ہراساں ہے ۔ دونوں ہی کثرت وقلت کے اس سطحی تذبذب میں گرفتار ہیں جب کہ انہیں اس کے پسِ پشت جھانک کر گہرے حقائق تک پہونچنے کی فکر کرنا چاہئے۔ 
اگر وہ ذرا بھی غور کریں تو انہیں واضح طور پر محسوس ہوگا کہ حضرتِ انسان کائنات میں جملہ مخلوقات سے اعلیٰ وافضل ہے اسے اشرف المخلوقات کا شرف حاصل ہے وہ اس دنیا میں خلافتِ الٰہی کے معزز منصب پر مامور ہے ساری کائنات اس کے تابع فرمان ہے لیکن غور کیجئے کیا انسان کو جو کچھ اس عالم میں عزت وشرف اور برتی وسربلندی حاصل ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اس کی تعداد دنیا کی دیگر مخلوقات کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔
اس سوال کے جواب میں کچھ زیادہ تفکر کی ضرورت نہیں سرسری نظر ڈالنے پر ہی یہ حقیقت کھل جائے گی کہ انسان اپنی تعداد کے اعتبا سے کوئی اہلیت نہیں رکھتا تمام مخلوقات عالم کا کیا ذکر ہے کسی ایک صنف سے بھی اس کی تعداد زیادہ نہیں زمین کے اوپر زمین کی سطح کے نیچے اور فضائے آسمانی پر آپ نظر ڈالیں تو انواعِ و اقسام کی بے شمار مخلوقات چہار طرف پھیلی دکھائی دیں گی۔ ان میں سے ایک ایک قسم ایسی ہے جو انسانوں کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ ہے لیکن اپنی تعداد کی کثرت اور اپنے افراد کی فراوانی کے باوجود قلیل تعداد مخلوق یعنی نوعِ انسانی کے ماتحت ہے اور بغیر کسی پس وپیش اس کی اطاعت میں مصروف ہے۔
اگر تعداد کی کثرت، برتری وسربلندی کا باعث ہوتی تو یہ زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی بے شما مخلوقات اس عالم پر ضرور حکمرانی کرتیں اور ان کی موجودگی میں انسان کبھی بھی عزت وسرفرازی کا مرتبہ حاصل نہ کرسکتاتھا، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج ہی نہیں ہمیشہ سے انسان ہی پوری کائنات پر حکومت کررہا ہے۔
تعجب ہے کہ اس قدر واضح حقیقت کے بعد بھی انسان اس غلط فہمی میں کیونکر مبتلا ہوگیا ہے کہ اس کی اکثریت کو اقلیت پر غالب آنا چاہئے حالانکہ جس کے دل میں انسانیت کا معمولی تصور بھی ہے وہ کبھی اس بھرم میں گرفتار نہیں ہوسکتا، وہ تعداد کے بجائے ان صفات پر غور کرنے کی کوشش کرے گا جن کی بدولت انسان اشرف المخلوقات کے معزز مرتبہ پر فائز ہے۔اگر یہ صفات اکثریت میں نہیں ہوگی تو وہ اپنی عددی برتری کے باوجود اقلیت کی اعلیٰ انسانی صفات پر ہرگز غالب نہیں آسکتی یہی قانونِ قدرت ہے۔ انسانوں میں خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں، ان کا امتیاز و برتری اس میں مضمر ہے کہ وہ دوسروں کے لئے کتنے مفید ومددگار ہیں۔ خصوصیت اپنی قوم اور فرقہ کے لئے ان کے دل میں ہمدردی کا کتنا جذبہ ہے اور وہ اس کا کس طرح مظاہرہ کرتے ہیں۔؟ اپنا اور اپنے جیسے دوسروں کا بھلا تو بعض جانوروں کے دل میں بھی ہوتا ہے، بات تو جب ہے کہ دوسروں کا بھلا پیش نظر رہے ۔ اور سب سے بڑی خیر اور بھلائی دنیاوی زندگی کے بعد آنے والی زندگی ہے جو موت کے بعد شروع ہوگی اس کی فکر خود کرنا اور دوسروں میں اس کا احساس پیداکرنا اصل کام ہے ۔(یو این این)

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے