انسانوں کے قاتل، جانوروں کے سب سے بڑے محافظ

پدم وبھوشن لعل کرشن اڈوانی بی جے پی کے معزز لیڈر ہیں جنھوں نے رام جنم تحریک چلائی تھی اور اس دوران پورے ملک میں فسادات ہوئے تھے جن میں ہزاروں افراد کی جانیں گئی تھیں، بابری مسجد شہید ہوئی تھی اور ساری دنیا میں سینکڑوں مسجد اور مندر دنگوں میں مسمار ہوئے تھے۔مظفر نگر میں دنگے کرانے کے کئی ملزم اب بی جے پی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ملک کے متعدد فسادات کے ذمہ دار افراد آج بی جے پی اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے ارکان ہیں اور پارلیمنٹ واسمبلی تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔ وہ لوگ جن کی نظر میں انسانی جانوں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے آج جانوروں کے محافظ بن کر سامنے آرہے ہیں۔ہرن کے قتل پر ہمارے ملک میں سزا ہوجاتی ہے، مور اور دوسرے پرندوں کا قتل جرم کے دائرے میں آتا ہے۔گایوں کے ذبیحے پر پہلے ہی سے کئی ریاستوں میں پابندی ہے ۔ مہاراشٹر اور ہریانہ سمیت کئی ریاستوں میں بیل اور بچھڑے کو ذبح کرنے پر بھی پابندی عائد ہے جب کہ اب پورے ملک میں گائے ، بیل بچھڑے کو ذبح کرنے کے خلاف قانون لانے کی تیاری ہے۔ اس سلسلے میں وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے حال میں ایک بیان بھی جاری کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ انسانوں کو قتل کرنے اور قتل پر اکسانے والوں کو کب سزا ہوگی؟ میرٹھ میں ۲۸سال قبل انسانوں کو گنگ نہر کے قریب لاکر پی اے سی والوں نے پولٹری کی مرغیوں کی طرح کاٹا تھا مگر آج وہ عدالت سے رہائی پاچکے ہیں۔ رام مندر کی تحریک کے نام پر دنگے کراکر انسانی جانوں سے کھیلنے والے آج عزت مآب ہوچکے ہیں۔ گجرات میں خون کی ہولی کھیلنے کی چھوٹ دینے والے ملک کی تقدیر کے مالک ہیں اور آج انھیں لوگوں کو جانوروں کی فکر سب سے زیادہ ہے جنھیں انسانی جانوں کے اتلاف کے پر کوئی صدمہ نہیں ہوتا۔ اس پابندی سے ملک کی معیشت پر زبردست اثر پڑنے والا ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا مگر ان باتوں کی کسی کو پرواہ نہیں، انھیں اگر کسی بات کی فکر ہے تو آرایس ایس کے ایجنڈے کی۔مرکزی سرکار گائے، بیل اور بچھڑے کے گوشت پر پابندی لگانے کے لئے بل لانے کی تیاری میں ہے۔ کیا یہ بل ملک کے مفاد میں ہے یا آرایس ایس کے ایجنڈے کے تحت لایا جارہا ہے؟ کیا اس سے صرف مسلمانوں پر اثر پڑے گا یا عیسائی اور ہندو بھی متاثر ہونگے؟ کیا اس قانون سے جانوروں کا بھلا
ہوگا اور ملک کی معیشت میں اضافہ ہوگا یا اقتصادی طور پر نقصان پہنچے گا؟اس وقت یہ سوال اس لئے بھی اہم ہیں کہ اس مسئلے پر مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں کے اندر تشویش پائی جارہی ہے اور وہ اسے ملک مخالف ہی نہیں بلکہ عوام پر بوجھ کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں مہاراشٹر اور ہریانہ میں گائے، بیل اور بچھڑے کے ذبیحے اور گوشت کی فروخت وغیرہ پر پابندی لگادی گئی ہے جس کا مسلمانوں کی طرف سے کچھ خاص مخالفت نہیں کی گئی مگر عیسائیوں، دلتوں اور آدیباسیوں کے ساتھ ساتھ ہندووں کے روشن خیال طبقے نے مخالفت کی۔ کیرل میں سیاسی لیڈروں اور عام لوگوں نے بیف کھاکر اپنا احتجاج درج کرایا اور حکومت کو انتباہ دیا کہ وہ بیف پر پابندی نہ لگائے کیونکہ لوگ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں، یہ فیصلہ کرنا اس کا کام نہیں ہے۔ وہ عوام پر کھانے پینے کی عادات کو چھوڑ دے۔ اسی طرح بی جے کی حکومت والی گوا میں عیسائیوں کا احتجاج اس قدر بڑھا کہ خود حکومت کو پڑوسی ریاستوں سے گوشت منگواکر کولڈ اسٹوریج کے ذریعے فروخت کرانا پڑا۔ واضح ہوکہ گوشت کے کاروبار میں بھگوا مداخلت کے خلاف احتجاج کے طور پر یہاں کے بیف کاروباریوں نے ہڑتال کی تھی۔کلکتہ میں اس کے خلاف باقاعدہ بیف فسٹیول کیا جارہا ہے جسے احتجاج ہی ماننا چاہئے۔فلم اداکار رشی کپور نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ہندو ہیں اور بیف کھاتے ہیں،جس کا ان کے ہندو ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔غورطلب ہے کہ بھارت میں جہاں غیر مسلموں کا ایک طبقہ بیف کا شوق رکھتا ہے وہیں باہر سے آنے والے سیاح بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ فائیواسٹار ہوٹلوں میں اس کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ 
معیشت کے لئے نقصاندہ
بھارت میں بیف کھانے والوں کا طبقہ بہت بڑا ہے۔ بیف میں گائے، بیل اور بچھڑے کا گوشت شامل ہے۔ بھارت کی پندرہ سے زیادہ ریاستوں میں اس وقت بھی اِس گوشت پر پابندی ہے۔ ان میں اترپردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، دلی شامل ہیں۔ حال ہی میں ہریانہ اور مہاراشٹر میں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔اب ان ریاستوں میں گائے ، بیل، بچھڑے کے ذبیحہ پر پابندی ہوگی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ہریانہ میں دس سال اور مہاراشٹر میں سات سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ ان ریاستوں میں باہر سے گوشت لانے اور کھانے کی بھی اجازت نہیں ہے،حالانکہ گائے کے گوشت پر یہاں پہلے سے پابندی تھی مگر اب بیل اور بچھڑے کے گوشت پر بھی پابندی لگ گئی ہے۔ حالانکہ کرناٹک، کیرل، بہار، مغربی بنگال اورناتھ ایسٹ کی ریاستوں میں اب بھی گائے کے گوشت پر پابندی نہیں ہے۔ اب اگر مرکز نے اس کے خلاف کوئی قانون بنادیا تو پورے ملک میں بیف پر پابندی لگ جائے گی۔ اس پابندی کے باوجود بھینس کے گوشت پر پابندی نہیں ہوگی۔ حکومت کے فیصلے سے مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائیوں، آدیباسیوں، دلتوں اور ہندووں کے بعض طبقات میں مایوسی ہے۔ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ملک میں بیروزگاری بڑھے گی کیونکہ بھارت میں لاکھوں افراد کی روزی، روٹی کا تعلق بیف کے کاروبار سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت گوشت اکسپورٹ کرنے والے ملکوں میں سر فہرست ہے۔ علاوہ ازیں ملک کے غریب لوگوں کو کم قیمت میں ایسی غذا حاصل ہوجاتی ہے جس میں متعدد قسم کے وٹامنس پائے جاتے ہیں۔ 
کیرل میں پابندی کی مخالفت
کیرالہ میں ایک انوکھے جشن کا نظارہ دیکھنے کو ملا جہاں کھلے باورچی خانے میں بیف (گائے کا گوشت) پکایا گیا۔ اتنا ہی نہیں،
ہندوؤں اور مسلمانوں نے ساتھ بیٹھ کر بیف کھایا بھی۔ اس انوکھے احتجاج میں آئے لوگ مہاراشٹر میں بیف پر لگائے گئے پابندی کی مخالفت کر رہے تھے۔کیرل میں بیف کا مطلب گائے اور بھینس دونوں کا گوشت ہے اور یہاں بیف کھانا کوئی مذہب سے منسلک مسئلہ بھی نہیں ہے۔کیرالا میں بہت سے ہندو ایسے ہیں جو نہ صرف بیف کھاتے ہیں بلکہ یہ لوگوں کا پسندیدہ میٹ بھی سمجھا جاتا ہے۔
کیرالہ سی پی ایم یوتھ ونگ کے اجیت پی نے کہا، میں ایک ہندو ہوں۔میں بھی بیف کھاتا ہوں۔ مجھے اپنی پسند کی چیزیں کھانے کی آزادی ملنی چاہئے. اس لئے میں یہاں پروٹیسٹ کرنے آیا ہوں۔ اجیت اپنی ڈش محمد نام کے ایک شخص کے ساتھ شیئر بھی کر رہے تھے۔ محمد نے کہا، ہم دونوں کو ہی بیف کھانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کیرل کا کلچر ہے۔ ہم اگر کچھ کھانا چاہتے ہیں تو کوئی ہمیں کیسے روک سکتا ہے؟ بیف کو پسند کرنے والے سی پی ایم رکن اسمبلی پی شری رام کرشن نے کہا، میں بیف کھاتا رہونگا اور کیرالہ کے بہت سے لوگ بھی۔ابھی چند روزقبل ہی مہاراشٹر حکومت نے بیف کی فروخت اور تجارت پر پابندی لگا دی تھی۔ کوئی اگر بیف کھاتا ہے یا فروخت کرتا ہوا پکڑا گیا تو اسے پانچ سال کی جیل اور 10،ہزارروپے کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔اس فیصلے کے بعد مہاراشٹر کے ہزاروں بیف مزدوروں پر بے روزگاری کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ بیف پابندی کے خلاف سوشل میڈیا پر جم کر تنقید ہوئی ہے۔یہاں کے بیف تاجروں اور مزدوروں نے حکومت کے فیصلے کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔
گائے کا گوشت بیچنے والی بی جے پی سرکار
گزشتہ چند ماہ سے بیف کی کمی اور ایک ہفتے سے بالکل ختم ہونے کے بعد اب گوا کے لوگوں کی پلیٹ میں فریش بیف 14 مارچ سے ملنے لگا ہے۔ اس کے لئے ریاست کے لوگ گوا کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کو شکریہ کہہ رہے ہیں۔حالانکہ اس بھگوا پارٹی کے کارکن ملک میں جانوروں کے قتل کے خلاف ہیں۔گوکشی کے خلاف مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت قانون بنا چکی ہے اور اس کے نقش قدم پر چل کر ہریانہ کی بی جے پی حکومت نے بھی گؤ کشی پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ریاست گوامیں بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے وزارت برائے مویشی پروری پر بھاری دباؤ تھا کہ وہ ریاست کی مؤثر عیسائی آبادی کو بیف کی کمی سے فوری ریلیف دے۔ اب بی جے پی حکومت گوا میں بیف کی کمی پڑوسی ریاست کرناٹک اور مہاراشٹر کے ذریعہ پوری کر رہی ہے۔ اس کے لئے بی جے پی حکومت پرائیویٹ سیکٹر کے کولڈ اسٹوریج سے بھی مدد لے رہی ہے۔
گوا میں ہر دن بیف کی کھپت 30 سے ۵۰ٹن تک ہے۔گوا میٹ کمپلیکس دوسری ریاستوں سے بغیر ہڈی والا بیف لاکر کولڈ اسٹوریج کے ذریعہ بیچ رہا ہے۔ یہ اسٹوریج آل گوا کولڈ اسٹوریج آنرز ایسوسی ایشن کے رکن چلاتے ہیں۔ وزارت مویشی پروری جوکہ جانوروں کے تحفظ میں کام کرتا ہے مگر اس کے سامنے اس وقت مسئلہ کھڑا ہوگیا جب بیف کی کمی کے لئے بی جے پی کی قیادت والی حکومت سے لوگ غصے میں تھے اور اس سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کے لئے گائے کے گوشت کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔واضح ہوکہ 200 سے زیادہ بیف ٹریڈرز گوا میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جانوروں کے حقوق سے متعلق این جی او زانہیں مسلسل ٹارگیٹ کر رہی ہیں۔ریاست میں بیف کی کمی کے لئے ان تاجروں نے ایسے این جی اوز کو ذمہ دار ٹھہرایاجن کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے۔بیف تاجروں کی تنظیم کے چیئرمین
لدون موٹیرو نے کہاہے کہ ہم نے ریاست میں بیف ٹریڈرز سے دو ٹوک کہا کہ وہ اپنے اسٹور کو کھولیں نہیں تو کارروائی کی جائے گی۔ ہم نے انہیں ایک ہفتے کا وقت دیا تھا لیکن یہ حرکت میں نہیں آئے۔ اس کے بعد ہم نے پڑوسی ریاستوں سے بیف خرید کرریاست میں اپنے اسٹوریج کے ذریعہ فروخت شروع کیا۔ اس وقت گوا حکومت اپنے چین کے ذریعہ ریاست میں بیف فروخت کر رہی ہے۔ گوا کی کل آبادی میں عیسائی 26 فیصد ہیں اور ان کچن کے لئے بیف اہم ہے۔
آل ورلڈ جے شری رام گوسوردھن مرکز کی طرف سے گوا میں بیف پر پابندی عائدکرنے کے مطالبہ کے بعد سے یہاں سپلائی متاثر ہے۔ اس نے 2013 ء میں بامبے ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کر بیف پرپابندی عائدکرنے کی مانگ کی تھی۔ اتفاق سے اس وقت کے وزیر اعلی منوہر پاریکر اس مرکز کے مشیر تھے۔ جب بیف پابندی کے لئے کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تب پاریکر نے اس تنظیم سے خود کو الگ کر لیا تھا۔
ہریانہ میں گائے کی سیواکا قانون
ہریانہ میں انسانوں کی جانیں محفوظ ہوں یا نہ ہوں اور خواتین کی آبرو کی حفاظت میں سرکار خواہ ناکام رہے مگر گایوں کے تحفظ میں وہ پیش پیش نظر آرہی ہے۔ہریانہ میں گائے کا ذبیحہ اور گائے کی نسل کے گوشت کی فروخت اب نہیں ہوگی اور ایسا کرنے پر سزا ملے گی۔ ریاست ودھان سبھا میں گوونش افزودگی اور گو تحفظ بل 2015 کو منظور کر دیا گیا۔اس کے بعد اب ریاست میں گو ونش قتل ،اس کے گوشت کی فروخت، گائے کے گوشت سے بنی مصنوعات، دیگر ریاستوں میں گائے کاگوشت لے جانے پر پوری طرح پابندی ہوگی۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف اب اس قانون کتے تحت گرفتاری، جیل بھیجے جانے اور جرمانے جیسی سزائیں رکھی گئی ہیں۔بل کے تحت ریاست میں گائے نسل کے تحفظ کے علاوہ اس کی افزودگی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔یہاں گایوں کی ترقی، آوارہ گرد گایوں کی دیکھ ریکھ کے لئے گو شالائیں تعمیرکی جائیں گی۔اس قانون کے تحت گائے ذبح کرنے والوں کو دس سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
حکومت کے ذرائع کے مطابق کون سا گوشت کس جانور کا ہے اس کا تعین کرنے کے لئے ریاست میں مختلف مقامات پر جانچ سنٹر قائم کئے جائیں گے جہاں گوشت کا ٹیسٹ کرکے معلوم کیا جائے گا کہ کونسا گوشت کس جانور کا ہے۔ایک ریاستی وزیر نے کہا کہ اس وقت ریاست میں 400 گوشالا ئیں این جی او زکے مدد سے چلائی جا رہی ہیں۔ ان میں تقریبا 3000 گائے ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور میدانوں میں گھومنے والی آوارہ گایوں کی تعداد 1.5 ملین ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان گایوں کے لئے ریاست میں گوشالاؤں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔
ہریانہ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومت گائے کی بہبود کے لئے کام کرنے والی تنظیموں جیسے گوشالا، گوپوتراستھان، گوسنسد، گوکل گرام وغیرہ کو مالی اور ٹیکنیکل مدد مہیا کرائے گی۔ یہ تمام تنظیمیں گایوں کی حفاظت کے لیے کام کرتی ہیں۔ ایک ریاستی وزیر کے مطابق گایوں کی حفاظت کے لیے حکومت وہ ہر قدم اٹھائے گی جو کرنے کے قابل ہے۔

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے