انساں کے قول و فعل میں بڑھتا ہوا تضاد!

 

تحریر: جاوید اختر بھارتی

یہ ضروری ہے کہ ہم حق بولیں، حق سنیں اور حق پر عمل کریں یہ خصوصیت سب میں ہونی چاہئے چاہے دین کی تبلیغ ہو، چاہے سیاسی و سماجی تحریک ہو، چاہے انفرادی و اجتماعی گفت و شنید ہو اور چاہے مختلف تقاریب ہو ہر حال میں سچائی پر قائم رہنا لازمی ہے اور اسی سے عوامی اعتماد و مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے اور جب عوامی اعتماد حاصل ہوگا تو مشن کو تقویت حاصل ہوگی اور منزل مقصود بھی حاصل ہوگی اس کے برعکس راستہ اختیار کرنے سے بدنامی بھی ہوگی اور ناکامی بھی ہوگی کام میں مصروف رہنا نہ تو کامیابی ہے اور نہ ہی منزل ہے بلکہ یہ مراحل ہیں اور کوشش ہے ہاں ہدف کو پورا کرلینا کامیابی ہے اس لئے کہ ہدف ایک مقصد ہوتا ہے، ایک منزل ہوتی ہے آج سیاستدانوں کو لوگ ووٹ تو دیتے ہیں مگر ان کا ادب و احترام نہیں کرتے کیونکہ آج کے سیاستدان جھوٹ کا پلندہ اپنے کاندھے پر لئے رہتے ہیں، لوکل مسائل پر آپسی پنچایت پر اب لوگ یقین نہیں رکھتے کیونکہ آج کے دور میں پنچایت میں بھی منہ دیکھ کر بات ہونے لگی ہے، آج کے دور میں عوامی مسائل پر مبنی تحریکوں سے بھی لوگ گھبراتے ہیں کیونکہ وہاں بھی سچائی کا فقدان نظر آتا ہے مسائل حل کرانے سے کہیں زیادہ اپنا قد اونچا کرنے کا شوق بھی ہوتا ہے اور خواہش بھی ہوتی ہے بھلے ہی پورے سماج کا قد نیچا ہوجائے دینی مجالس کا شعبہ بھی اس سے بچا نہیں اس کا بھی اتنا برا حال ہے کہ نام منبر رسول کا دیا جاتا ہے اور ادب واحترام کو بالائے طاق رکھ کر فن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے شادی بیاہ کو بھی آج وہ رنگ دیدیا گیا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ نصف ایمان کہا جائے یا نمائش کا میدان کہا جائے-

آئیے سالانہ تقاریب کابھی جائزہ لے لیا جائے ہر سال دنیا بھر میں یوم مزدور منایا جاتا ہے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دن بھی مزدور ملک و بیرون ملک میں پتھر کی توڑائی کرتے ہیں، سکالے پر لٹکے رہتے ہیں،لو کے تھپیڑے کھاتے ہوئے دھوپ کی تمازت جھیلتے ہوئے خون پسینہ بہاتے رہتے ہیں اور جو لوگ یوم مزدور مناتے ہیں وہ عالیشان بنگلے میں رہتے ہیں اور مہنگی مہنگی کاروں سے چلتے ہیں اسے جھوٹ کہا جائے یا مزدوروں کی غربت کا مذاق اڑانا کہا جائے،، ہر سال یوم خواتین بھی منایا جاتا ہے اور اس دن بھی خواتین اینٹ بھٹوں پر کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں فٹپاتھ اور جھگی جھونپڑیوں میں زندگی گزارتی ہوئی نظر آتی ہیں یعنی نہ مزدوروں کو گلے لگایا جاتا ہے اور نہ ہی خواتین کے حالات کو سدھارنے کے لئے کچھ کیا جاتا ہے یہ عادت یہ بیماری تقریر و تحریر میں بھی نظر آتی ہے قول و فعل کا تضاد تو اب انسانوں کے روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنتا جارہا ہے اسی لئے تو خواتین آج بھی جہیز کی بھینٹ چڑھ تی ہیں دس روپے کے صابن اور ایک روپے کی ماچس ڈبی پر خواتین کی چھوٹے کپڑوں والی تصویر چھاپی جاتی ہے یوم خواتین منانے کامطلب تو یہ ہونا چاہئے کہ خواتین کو عزت و قار کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے کارآمد حکمت عملی تیار کیا جائے مگر ایسا تو کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا

 کہا جاتا ہے کہ بیٹی زحمت نہیں رحمت ہے مگر عملی طور پر زحمت ہی ہونے کا اظہار کیا جاتا ہے، زبانی طور پر کہا جاتا ہے کہ جیسے بیٹی ویسے ہی بہو مگر عملی طور پر عموماً یہی نظریہ سامنے آتا ہے کہ بیٹی بیمار ہے تو بخار ہے اور بہو بیمار ہے تو مکار ہے جبکہ ہر بہو کسی نہ کسی کی بیٹی ہی تو ہے،،

بلکہ اب تو جھوٹ اور مکر و فریب کو چالاکی سے تعبیر کیا جانے لگا نہ زبان کا وقار پوری طرح باقی رہا نہ قلم کا وقار پوری طرح باقی رہا جبکہ زبان و قلم دونوں کے وقار اور معیار کو بچانا ضروری ہے یعنی زبان کٹنے نہ پائے اور قلم بکنے نہ پائے،، آئیے آج کے دور میں میڈیا کے حالات پر بھی نظر ڈالا جائے

«
»

حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندویؒ: بحیثیت انسان

بدلتا ہندوستان اور مسلمانوں کا خوفناک مستقبل‎‎

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے