عارف عزیز(بھوپال)
یہ ناانصافی بلکہ ظلم ہے کہ بے قصور لوگوں کو حصول انصاف میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ وہ سالوں جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ تب کہیں جاکر انہیں رہائی ملتی ہے اور وہ بے قصور قرار دئے جاتے ہیں۔ لیکن کبھی یہ نہیں خیال کیا جاتا کہ جس جرم کے بارے میں انہیں جیل میں رکھا گیا وہ بے بنیاد تھا اور اس کے نتیجے میں ان کی زندگی کے قیمتی سال برباد ہوگئے وہ اب کیسے واپس ملیں گے۔ کیا سماج میں انہیں پہلے والا مقام و مرتبہ مل پائے گا؟ کیا باعزت طور پر بری قرار دینے سے اُن میں گزرے سالوں کے درد کا مداوا ہوجائے گا؟ کیا اس شخص کے افراد خاندان نے جن پریشانیوں کو جھیلا ہے، ان کے قلب و ذہن پر جو زخم لگے ہیں، کیا وہ بھر جائیں گے؟ ایسا قطعی نہیں ہوتا، اس بے قصور کا پورا خاندان سالوں کی اذیت سہتے سہتے پوری طرح برباد ہوجاتا ہے۔ معاشی و معاشرتی اور سماجی لحاظ سے وہ پوری طرح تباہ ہوجاتے ہیں اور باعزت بری ہونے کے باوجود بے چارہ سماج میں اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں شاید ہی کامیاب ہوپاتا ہے۔ ویسے بھی اس تعلق سے پہلے بھی کئی مرتبہ مباحثے ہوچکے ہیں لیکن کبھی کسی منطقی نتیجہ پر نہیں پہنچا جاسکا۔ آج بھی یہ مسئلہ ویسے کا ویسے ہی برقرار ہے۔ چند دن قبل جن افراد کو ملک کے خلاف غداری کے الزامات کے تحت مقدمہ کا سامنا تھا، عرصہ دراز بعد باعزت بری ہوگئے۔ اس سے قبل مختلف بم دھماکوں اور فرقہ وارانہ فسادات کے الزامات میں گرفتار کئی نوجوانوں (جن میں اکثریت مسلم نوجوانوں کی تھی) کو ۰۱ تا ۵۱ سال کی قید و بند کے بعد باعزت بری کیا گیا۔ اس تعلق سے آندھرا پردیش (متحدہ) حکومت نے کچھ اخلاقی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ریاست کے چند ایسے نوجوانوں کو برات کے بعد زندگی گزارنے کے لئے مدد کا اعلان کیا تھا لیکن ملک کی کئی ریاستوں میں ایسے نوجوان آج بھی اپنی ناکام زندگی کا بوجھ ڈھو رہے ہیں۔ کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انہیں نہ ہی کوئی روزگار (نوکری) دینے کو تیار ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں سماجی لحاظ سے عزت و تکریم مل پاتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا کہ ”انصاف رسانی کے عمل میں بھی کچھ نقائص موجود ہیں۔ لازمی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب ہوگا کہ کسی بھی ملک و سماج کی خوشحالی و ترقی کے لئے عدلیہ کا ہر دباؤ سے آزاد ہونا ضروری ہے اور خود ہمارے ملک کے دستور میں بھی عدلیہ کو ترجیحی مقام دیا گیا، کیوں کہ اس شعبہ پر عوام کا کامل بھروسہ ہی ملک اور حکومت کی بقاء کا ضامن ہے۔ بصورت دیگر سماج میں انتشار اور طبقاتی کشمکش قتل و غارت گری عام ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں حالات ابھی اس قدر بدتر نہیں ہوئے ہیں لیکن عدلیہ کے تئیں عوام کا یقین متزلزل ضرور ہورہا ہے، اگر عاجلانہ طور پر اس جانب توجہ نہیں دی جاتی تو انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں َ انصاف کے حصول میں تاخیر کے لئے سپریم کورٹ نے حکومت کی لاپرواہی اور مناسب انفراسٹرکچر کی کمی کو ذمہ دار قرار دیا۔ اس تعلق سے سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان ایک سے زائد مرتبہ تلخ بات چیت بھی ہوئی۔ خاص کر ہائی کورٹ کے ججوں کی تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت کے درمیان متنازعہ سرخیوں کی زینت بنتا رہا ہے۔ لیکن حکومت کے ذمہ داروں کی اِس مسئلہ سے اَن دیکھی جاری ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
28جون2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں