انصاف کو آواز دو انصاف کہاں ہے

انھیں پولس نے خواہ مخواہ پھنسایا اور جھوٹے گواہوں ،ثبوتوں کی بنیاد پر سزا دلوائی ہے۔جتنے دن یہ کیس چلا ایسے معاملے بھی سامنے آئے، جب ملزموں نے کورٹ میں پولس زیادتی کی شکایت کی اور الزام لگایا کہ انھیں اقبال جرم پر مجبور کیا جارہا ہے۔ بہر حال اب ممبئی کی مکوکا کورٹ نے ممبئی ٹرین سلسلہ وار بلاسٹ کے لئے حال ہی میں 12افراد کو مجرم قرار دیا ہے اور ان میں سے 5کو موت کی سزاسنائی جب کہ باقی لوگوں کو عمر قید کی سزا دی۔ اس فیصلے پر الگ الگ لوگوں کی طرف سے مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ جہاں ایک طرف سزایافتگان اور ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انھیں انصاف نہیں ملا ہے اور اب وہ ہائی کورٹ جائیں گے تو دوسری طرف ممبئی پولس کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ مجرموں کو سزا دلاکر اس نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ 

کورٹ کا فیصلہ
9 سال پہلے 2006 میں ہوئے ممبئی لوکل ٹرین دھماکہ کیس میں 12 قصورواروں میں سے 5 کو موت کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ سات افراد کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔سزا سناتے ہوئے اسپیشل جج یتین ڈی شندے نے محمد فیصل شیخ، نوید، آصف خان، احتشام، کمال انصاری کو پھانسی کی سزا سنائی، وہیں تنویر احمد انصاری، محمد ماجد صفی، شیخ عالم ، محمد ساجد انصاری، مزمل شیخ، سہیل محمود خان اور ضمیر احمد شیخ کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔کیس میں عبدالواحد نام کے ایک ملزم کو عدالت نے پہلے ہی بری کردیا تھا، اس پر پاکستانی دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام تھا۔بتاتے چلیں کہ 11 جولائی 2006 کو ممبئی میں مغربی ریلوے کی مضافاتی ٹرینوں میں 11 منٹ کے وقفے پر سات دھماکے ہوئے تھے۔ اس واقعہ میں 189 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور 824 زخمی ہوئے تھے۔ ان دھماکوں کے بعد پولیس کے پاس کوئی بھی کلو نہیں تھا مگر اس نے تفتیش شروع کی اور مبینہ طور پر سیمی سے جڑے ہوئے کچھ لوگوں کو ملزم بنایا۔ اب کورٹ کے فیصلے سے ان لوگوں پر سازش رچنے، سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دھماکہ خیز مواد اور دیگر وسائل جمع کرنے اور پھر ٹرینوں میں بم رکھنے کے الزام ثابت ہوئے۔
پولس کا الزام 
پولس کی تفتیش میں کئی قسم کے دعوے کئے گئے ہیں۔ اے ٹی ایس نے لشکر طیبہ کے کمانڈر اعظم چیمہ کو اس سازش کا سرغنہ بتایا تھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ قصوروار ٹھہرائے گئے کچھ بھارتی پاکستان گئے تھے ۔وہاں حملے کو انجام دینے کی تربیت لی بعد میں ان کے ساتھ کچھ پاکستانی دہشت گرد بھی ہندوستان آئے۔ آخر کار ان سب نے مل جل کر ٹرین بم دھماکوں کو انجام دیا۔ 
ممبئی پولیس کا انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) 2006 کے سلسلہ وار ٹرین بم دھماکوں میں نہ صرف کورٹ میں مجرموں پر الزام ثابت کرنے میں کامیاب رہا، بلکہ ان میں سے 5 دہشت گردوں کو سزائے موت دلوانے میں بھی کامیاب رہا ہے۔پولس کی کہانی کے مطابق ان لوگوں نے 11 جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں سات زوردار دھماکے کئے، جن میں 189 افراد ہلاک اور 800 سے زائد مسافر زخمی ہوئے تھے۔لوکل ٹرین سلسلہ وار بم دھماکہ کیس کی تحقیقات اے ٹی ایس کو سونپی گئی تھی۔
انصاف ہوا؟
پولس کا ماننا ہے کہ اس کیس میں انصاف کیاگیا ہے اور دیر سے ہی سہی متاثرین کو کورٹ کے فیصلے سے راحت ملے گی۔ سابق اے ٹی ایس سربراہ کے سی رگھوونشی نے کہا کہ طویل وقت کے بعد متاثرین کو انصاف ملا ہے۔اس معاملے میں سرکار کی طرف سے بات رکھنے والے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر راجہ ٹھاکرے نے قصورواروں کو ’’موت کا سوداگر‘‘ بتایا۔ انھوں نے کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ 12 میں سے 8 قصورواروں کو پھانسی دی جائے اور 4 کو عمر قید۔ تاہم کورٹ نے دونوں فریقوں کو سننے کے بعد فیصلہ کیا۔اس معاملے میں اے ٹی ایس نے کورٹ میں 10 ہزار صفحات کی چارج شیٹ فائل کی تھی اور کل 2 ہزار گواہوں کی گواہی لی گئی۔ معاملے کی تفتیش میں چار سو سے زیادہ پولس اہلکاروں نے حصہ لیا تھا۔
وہ بے قصور ہیں؟
سزا سنائے جانے کے بعد سزا پانے والوں کا کہنا تھا کہ عدالت نے معاملے کی تہہ تک جانے کی کوشش نہیں کی۔وکیل دفاع نے کہا کہ اے ٹی ایس نے جو بھی گواہ پیش کئے ،وہ اس سے متاثر نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ابھی یہاں سے انصاف نہیں ملا ہے اس لیے وہ ہائی کورٹ جائیں گے۔ آصف خان نامی ایک سزایافتہ شخص کا کہنا ہے کہ مکوکا عدالت سے اسے یہی امید تھی، تاہم ہائی کورٹ سے اسے انصاف کی امید ہے۔ محمد علی نامی ایک ملزم کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی بے قصور ہے اور اسے امید ہے کہ ہائی کورٹ سے وہ بری کردیا جائے گا۔ جب کہ ڈاکٹر تنویر کے بھائی اشتیاق کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی بے گناہ ہے اور اے ٹی ایس کی طرف سے جو بھی دستاویز اس کے خلاف پیش کئے گئے ہیں وہ جعلی ہیں۔اس کیس میں بری ہونے والے واحد کا کہنا ہے کہ اسے سسٹم پر بھروسہ نہیں رہا۔ اس نے جیل کے اندر اپنی زندگی کے 9قیمتی سال بتائے ہیں۔اس نے یہاں جو کچھ دیکھا ہے، اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔ 
پریشر ککر میں چھپی تھی موت
جس کیس میں مکو کورٹ کا فیصلہ آیا ہے وہ کیا تھا؟ آئیے واقعے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ممبئی میں 11 جولائی 2006 کو شام 6 بجکر
منٹ سے لے کر 6 بج کر 35 منٹ کے درمیان ایک کے بعد ایک سات دھماکے ہوئے تھے۔ یہ تمام دھماکے ممبئی کے مغربی ریلوے کی لوکل ٹرین کے فرسٹ کلاس اپارٹمینٹ میں کئے گئے تھے۔ دھماکے کھار ماٹونگا، باندرا، کھار، جوگیشوری، بوریولی اور بھائندر کے پاس مضافاتی ٹرینوں میں ہوئے۔ دھماکوں کے لئے سات پریشر ککر بم کا استعمال کیا گیا، جنہیں ٹائمر کے ذریعے اڑایا گیا۔ بم آر ڈی ایکس، امونیم نائٹریٹ، فیول آئل اور کیلوں سے تیار کئے گئے تھے۔
پہلا دھماکہ: باندرا ۔ شام 6.23 منٹ پر 22 کی موت، 107 زخمی۔
دوسرا دھماکہ: ماہم ۔ شام 6.23 منٹ پر، 43 ہلاک، 96 زخمی۔
تیسرا دھماکہ: ماٹنگا۔ شام 6.24 منٹ پر 28 کی موت، 122 زخمی۔
چوتھا دھماکہ: میری روڈ ۔ شام 6.23 منٹ پر 31 کی موت، 122 زخمی۔
پانچواں دھماکہ: جوگیشوری ۔ شام 6.24 منٹ پر 28 کی موت، 115 زخمی۔
چھٹا دھماکہ: کھار سب وے ۔ شام 6.25 منٹ پر 9 ہلاک، 102 زخمی۔
ساتوا ں دھماکہ: بوریولی ۔ شام 6.28 منٹ پر 26 کی موت، 153 زخمی۔
انصاف کی آس باقی ہے
ہندوستان میں خون خرابہ جس قدر عام ہے اسی قدر عام ہے انصاف کا قتل۔ یہاں انصاف پر حاوی ہوتا ہے ذات اور مذہب اور سماجی ومعاشی حیثیت۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولس اصل مجرموں کو چھوڑ دیتی ہے اور بے قصوروں کو مشق ستم بناتی ہے۔ دہشت گردی کے معاملات میں مسلمانوں کو بغیر سوچے سمجھے اٹھالینا عام بات ہے۔ حالانکہ کئی معاملات میں وہ کورٹ سے بری ہوجاتے ہیں۔ تازہ مثال اکشردھام مندر معاملے کی ہے جس میں عمر قید اور پھانسی کی سزا پانے والے سپریم کورٹ سے بری کئے گئے۔اس کیس میں بھی اگر ایسا ہی ہو تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔اس معاملے میں اے ٹی ایس کی تحقیقات کتنی درست اور منصفانہ طریقے سے ہوئی؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ کورٹ کے سامنے بار بار ملزموں کی طرف سے پولس مظالم کی شکایتیں آتی رہی ہیں۔ ایک ملزم نے الزام لگایا تھا کہ تفتیش کے دوران اے ٹی ایس کے لوگوں نے اس کے عضوتناسل میں پین کی ریفل ڈال دی تھی۔ جب کہ دوسرے لوگوں نے بھی مار پیٹ کرنے اور جسمانی وذہنی اذیت کے الزامات پولس پر لگائے تھے۔ اے ٹی ایس افسران پر دباؤ ڈال کر بیان لینے کے الزامات بھی لگے۔ اسی کے ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حکومت اور پولس مسلمانوں کے معاملے میں تعصب سے کام لیتی ہیں۔ جس حکومت اور پولس کے زیر نگرانی یہ تفتیش ہوئی ہے اسی نے مالیگاؤں دہشت گردانہ حملے میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت اور سوامی اسیمانند کو راحت دینے کا کام کیا ہے۔ یہی حکومت اور انتظامیہ ہے جس کے تحت فرضی انکاؤنٹر کے مجرموں کو جیل سے نکال کر عزت واحترام سے اونچی کرسیوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ مہاراشٹر میں تو انصاف کے قتل کا یہ عالم ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹنے والے دنگوں میں سیاسی لیڈران کے ملوث ہونے کی بات جانچ کمیشن نے مانی مگر کسی ایک شخص کو بھی پولس کارروئی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جس ملک میں دنگوں کے مجرم اور قتل وخون کرنے
والوں کو انعام واکرام سے نواز جاتا ہو،وہاں انصاف کی امیدیں کم رہ جاتی ہیں مگر پھر بھی مسلمانوں کو اب تک جب بھی انصاف ملا ہے تو کورٹ سے ملا ہے اور اس معاملے میں بھی سزایافتگان کو کورٹ میں ہی اپنی بات رکھنی چاہئے۔ یہ مہنگا راستہ ہے مگر اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔

«
»

ایک اوردادری!

سیکولرزم کا راگ اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے