تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
کیا اجودھیا تنازعہ میں انصاف ہوگا؟کیا قانون جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے،وہ حق وصداقت کو دیکھ پائے گا؟ اس قسم کے سوال اس لئے بھی اٹھ رہے ہیں کہ بابری مسجد کیس میں قدم قدم پر ناانصافی ہوئی ہے۔ایک تاریخی مسجد کا تالا کھولنے کی اجازت دے کر انصاف کا راستہ بندکردیا گیا تھا۔ اس سے پہلے رات کے اندھیرے میں مسجد کے اندر بت رکھے گئے تھے اور انتظامیہ نے انھیں نکالنے سے بھی انکار کردیا تھا تب بھی ناانصافی ہوئی تھی۔6 دسمبر1992 کوجب بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تھا اور تب سے آج تک ملزموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی تب بھی ناانصافی کی گئی تھی۔ چندسال قبل جب الہ آباد ہائی کورٹ نے اس حق ملکیت کے کیس کو تقسیم کا کیس بناکر فیصلہ سنایا تھا تب بھی ناانصافی کی گئی تھی اور اب سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت مکمل کرچکا ہے تب انصاف پسند لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات کا اٹھنا لازمی ہے۔ بابری مسجد کیس میں فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ نومبر میں ہرحال میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آجائے گا۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے واضح کردیاہے کہ نومبر کے وسط میں کورٹ اپنا فیصلہ دے گا۔
کیا مندر کے حق میں فیصلہ ہوچکا؟
اجودھیا کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا آئے گا؟ اس سلسلے میں سب سے زیادہ یقین کے ساتھ بھارتی میڈیا دعویٰ کر رہا ہے کہ ہرحال میں مندر بن کر رہے گا۔نیوز چینلوں کے اینکر بھگواتنظیموں کے ترجمانوں سے آگے نکل کر دعوے کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے نیتاؤں کی طرف سے بھی اشارے ملنے لگے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ناسک میں تقریر کرتے ہوئے اشارہ دیدیا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کا وقت آچکا ہے۔وزیرداخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پر بھروسہ رکھیں، بی جے پی لیڈر سمبت پاترا کہہ رہے ہیں کہ اب جلد ہی رام مندر کا خواب حقیقت کا روپ لینے والاہے، جب کہ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے تو رام مندر کی تعمیر کی تاریخ کا بھی اعلان کردیاہے۔ان کے مطابق مندر کی تعمیر اسی سال 6 دسمبر سے شروع ہوگی۔(جس تاریخ پر بابری مسجد شہید کی گئی تھی)ان اعلانات کے بعد کیا کسی کو شک ہے کہ سپریم کورٹ اجودھیا تنازعے میں کیا فیصلہ دینے والا ہے۔ ادھر یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو اس سلسلے میں سیکورٹی سے متعلق تمام تیاریاں بھی شروع کردی ہیں۔ سنگھ پریوار کے لوگ ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ اگر مندر کے حق میں فیصلہ آیا تو مانیں گے اور نہیں آیا تو نہیں مانیں گے لیکن اب اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ پر بھروسہ رکھو، رام مندر عنقریب تعمیر ہوگا تو اس سے بہت کچھ اشارہ مل جاتا ہے۔
مسلمانوں کو کورٹ پر بھروسہ
تاریخی شواہد کے مطابق بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی ہے لہٰذا کورٹ میں کیس کی پیروی کرنے والے مسلمان کہہ رہے ہیں کہ عدالت شواہد کی بنیاد پر فیصلے دے گی مگر اجودھیا کیس میں مسلمان ابتدا سے خاموش ہیں اور ان کا وہی رویہ ہے جو کسی شکست خوردہ اور مایوس قوم کا ہونا چاہئے۔ وہ کورٹ کا فیصلہ ماننے کی بات کہہ رہے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔حالانکہ اب سوال صرف اجودھیا کا نہیں رہا بلکہ کاشی متھرا سمیت ملک کی تیس ہزار سے زائد تاریخی مسجدوں کا بھی ہے جن پر بھگواوادیوں کا دعویٰ رہاہے۔کیا مسلمان،دلی کی جامع مسجد،مسجدقوۃ الاسلام، اجمیرشریف کی مسجد ڈھائی دن کا چھونپڑہ، درگاہ خواجہ معین الدین چشتی، ممبئی کی حاجی ملنگ کی درگاہ،جون پوری کی اٹالہ مسجد سمیت ہزاروں تاریخی مساجد اور درگاہوں کو مندر بنانے کی اجازت دینے کو تیار ہیں؟ کیونکہ رام مندر کا ایشو ختم ہوتے ہی اب ان مساجد ودرگاہوں پر سیاست شروع ہوگی۔اب یہاں بھی آستھا کے نام پر وہ سیاسی کھیل شروع ہوگا جس نے بی جے پی کو دوسیٹوں سے ایوان اقتدار کی بلندیوں تک پہنچانے کا کام کیا ہے۔
مندر کی تعمیر کب شروع ہوگی؟
ہندتووادی جماعتوں کی طرف سے کبھی یہ نہیں کہا گیا تھا کہ کورٹ کا فیصلہ ان کے لئے قابل قبول ہوگامگر حالیہ ایام میں ان کا لہجہ بدلا ہے جس نے شکوک وشبہات میں اضافہ کیا ہے۔ بھاجپا نے ہرحال میں رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کر رکھا ہے مگر گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے ناسک میں وزیر اعظم نریندر مودی نے رام مندر کے تعلق سے واضح اشارہ دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کو اس پر فیصلہ لینے کی اجازت دیں۔ ہمیں سپریم کورٹ، آئین اور عدلیہ پر اعتماد کرنا چاہئے۔ادھر ہندتوادی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے رانچی میں منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ ’رام مندر سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو سب کو قبول کرنا ہوگا۔ کسی کی خواہش پر سپریم کورٹ نہیں چلتا۔ یہ اپنے انداز میں کام کرتا ہے۔‘سپریم کورٹ کیا فیصلہ دے گا؟ اس سلسلے میں دوسرے کئی بھاجپا نیتاؤں کے بیانات نے صاف کردیا ہے۔بی جے پی کے سینئر رہنما سمبت پاترا نے کلکتہ میں کہا ایودھیا میں رام مندر جلد ہی حقیقت بننے والاہے کیونکہ یہ ان کی پارٹی کا مرکزی ایجنڈا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد حالات معمول پر رہیں اورکسی قسم کی بدامنی پیدا نہ ہو، اس کے لئے یوپی میں تمام طرح کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک مٹینگ کے دوران کہا کہ رام مندر کے فیصلے کے بعد، ان لوگوں پر گہری نظر رکھنی چاہئے جو ہوش کھو بیٹھیں اور مایوسی میں کچھ کریں۔ یوگی کے اس بیان کا مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
فیصلہ یا خانہ پری؟
سپریم کورٹ کا فیصلہ شواہد کی بنیاد پر ہوگا یا ملک کے اکثریتی طبقہ اور حکمراں طبقے کو کو خوش کرنے کے لئے؟ یہ سوال برمحل ہے۔ اصل میں جب رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں بھاجپا نیتاؤں کی طرف سے اعلانات آرہے ہیں اور تمام تیاریاں بھی مکمل ہوچکی ہیں تو اب سپریم کورٹ کا فیصلہ محض خانہ پری سالگتا ہے۔ جو آئینی بنچ اس مسئلے پر فیصلہ لینے جارہی ہے اس کی صدارت چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کر رہے ہیں جب کہ بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس ایس اے بوبڑے،جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ،جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیرشامل ہیں۔
کیس میں گڑبڑکی کوشش ہورہی ہے؟
اجودھیا کیس میں کہیں کچھ گڑبڑکی کوشش تو نہیں ہورہی ہے اور اندرون خانہ کوئی کھیل تو نہیں چل رہاہے؟ یہ سوال ان دنوں کئی اسباب سے اٹھ رہاہے۔جب سے بابری مسجد اوررام مندر کا معاملہ گرم ہے تب سے یہ تنازعہ چل رہاہے کہ بھگوان رام کہاں پیدا ہوئے تھے۔ تقریبا ہر ایک نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ اسی مقام پر پیدا ہوئے جہاں بابری مسجد ہے یا کہیں اور؟اس سلسلے میں گزشتہ دنوں پہلی بار،ایک مسلم پارٹی کی طرف سے یہ مانا گیا کہ بابری مسجد کے باہر ’رام چبوترہ‘پر بھگوان رام نے جنم لیا تھا۔اس سے پہلے جمعیت علماء ہند کے وکیل راجیو دھون کہہ چکے ہیں کہ تنازعہ تو رام کی پیدائش کی جگہ کے سلسلے میں ہے کہ وہ کہاں ہے؟ پوری متنازعہ زمین جائے پیدائش نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ ہندو فریق دعوی کرتے ہیں۔ کچھ تو متعینہ مقام ہوگا۔ پورا علاقہ جائے پیدائش نہیں ہوسکتا ہے۔ظاہرہے کہ اس قسم کے بیانات اپنے ہی کیس کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں۔اس کے بعد یوپی سنی وقف بورڈ نے مصالحتی کمیٹی کے ذریعے اپنا دعویٰ واپس لینے کی بات بھی کہہ دی۔ شیعہ وقف بورڈ تو بہت پہلے مسجد کی زمین مندر کو دینے کی بات کورٹ میں کہہ چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں ہی بورڈ حکومتی ادارے ہیں اور وہی حکومت کی زبان ہی بولینگے مگر کیس کے دوران کئی بار یہ محسوس ہوا کہ کچھ نہ کچھ اندرون خانہ کھیل چل رہا ہے۔ بعض مسلم فریق ہی اپنے کیس کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ بہرحال اب انجام جو بھی ہو، جو فیصلہ ہونا تھا سو ہوچکاہے۔بس اعلان ہونا باقی ہے۔ اس کیس پر ساری دنیا کی نظر ہے اور اس بہانے ہمارا نظام انصاف بھی دنیا میں موضوع بحث آئے گا۔ یہ وہ موقع ہے جب ہماری عدلیہ انصاف کے تقاضوں کو مکمل کر دنیا کو بتاسکتی ہے کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔وہ الیکشن کمیشن نہیں ہے جو حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ عدلیہ آزاد ہے اور آزاد رہے گی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں