ہمارے قومی اخبارات اور چینلوں کو یہ توفیق ہوتی ہی نہیں کہ وہ ملک کی آبادی کے پانچویں حصے کے اس نوع کے مسائل کو ہائی لائٹ کریں اور اربابِ حل و عقد کی توجہ اُن کے حل کی جانب مبذول کرائیں،جوکہ اصولی طورپر ان کی ذمے داری بھی ہے اوران کا کام بھی۔
البتہ اس کے بر عکس اگر کوئی ایسا معاملہ ہو، جس سے مسلمانوں کی شبیہ خراب ہورہی ہو،ان کے دامن پر داغ لگتے ہوں،تو ایسی صورت میں یہی میڈیا اپنی بھر پور توانائی کا استعمال کرکے رائی کو پہاڑ کی شکل دے دیتا ہے اور ’ملزم‘کو ’مجرم‘بنادینے سے بھی نہیں چوکتا۔مسلمانوں کے تئیں پولیس کے متعصبانہ رویے سے حقیقت پسند غیر مسلم افراد بھی واقف ہیں۔کہیں کوئی بم دھماکہ ہو،تشددکی واردات ہو،پولیس کی مستعدی کا شکار فوری طورپر مسلم نوجوان ہوتے ہیں اور میڈیا پولیس کے مفروضے کو حقیقت کا رنگ دینے میں اتنی عجلت،بے صبری اور بددیانتی و غیر ذمے داری سے کام لیتا ہے کہ اس کی رنگ آمیزی سے نہ صرف یہ کہ ملزم کی امیج بطورایک مجرم کے ابھرآتی ہے بلکہ ایک فردِواحد کا کردہ یا ناکردہ گناہ پوری ایک قوم کا گناہ بن جاتا یا بنادیا جاتا ہے۔میڈیاکا یہ عمل ایک بار نہیں بارباردیکھنے میں آچکاہے اوروقفے وقفے سے آتابھی رہتا ہے۔ملک میں جہاں کہیں بھی کوئی بم دھماکہ ہوا،پولیس نے اس کے تار فوراً مسلم نوجوانوں سے جوڑ دیے اور باقی کی کسر ہندی و انگریزی کے نیوز چینلزاور اخباروں نے پوری کردی۔یہاں تک کہ مساجد اور قبرستانوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے لیے بھی مسلمان ہی گرفتار کیے جاتے رہے اور قومی میڈیابارباراپنی غیر ذمے داری اور جانب داری و تعصب کا ثبوت دیتے ہوئے بے قصور اور ستم رسیدہ مسلم نوجوانوں کے تار بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑتارہا،ایسی تنظیموں سے جن میں سے بیشتر کا وجودآج تک مشکوک ہی ہے کہ آیاوہ موجودہ بھی ہیں یا محض پولیس اور میڈیا کے تخلیق کردہ نام ہیں۔
میڈیا کے تعلق سے عام ہندوستانی مسلمانوں کی سوچ یہی ہے اور اِس سوچ کو اُس وقت اور تقویت پہنچتی ہے،جب وہی مسلم نوجوان،جسے دہشت گردی کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیاتھا اور میڈیا نے اسے بطورایک مجرم پیش کیا تھا،برسوں کی قید و بند کی صعوبتیں گزارنے کے بعدجب عدالت کے حکم سے باعزت بری ہوتا ہے،تو میڈیا کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔جس شخص کی گرفتاری پراس نے کئی کئی دن تک خبریں چلائی تھیں،اب اس کی باعزت رہائی پر ایک چھوٹی سی خبر بھی شائع کرنے گریزکرتا ہے۔چوں کہ قومی میڈیا کے ذریعے یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے؛اس لیے مسلمانوں کا عمومی رجحان اس کے بارے میں جوہے،اُسے غلط بالکل بھی نہیں کہا جاسکتا۔
میڈیاکے اِسی دوہرے رویے کی ایک مثال حال ہی میں اُس وقت دیکھنے کوملی،جب گزشتہ ہفتے ایک دن کے فرق سے مسلمانوں کے لیے دو خوش کن خبریں آئیں۔پہلی یہ کہ۲۰۰۶ء میں رونما ہونے والے ممبئی ٹرین دھماکہ معاملے میں۱۱؍برسوں کے بعد۹؍مسلم نوجوانوں کو ممبئی کی ایک عدالت نے باعزت بری کردیا اور پھر دوسرے ہی دن گجرات کی راجدھانی احمدآباد کی ایک میٹروپولیٹن عدالت نے مہاراشٹرہی کے اورنگ آباداسلحہ ضبطی کیس کا سامنا کررہے تین مسلم ملزمین کو ملک سے دشمنی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات سے با عزت بری کرتے ہوئے انھیں مقدمہ سے ڈسچارج کردیا۔ ان ملزمین پر یہ الزام تھا کہ وہ ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکرِ طیبہ کے رکن تھے۔لیکن گجرات اے ٹی ایس نے میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں ازخود ایک عرض داشت داخل کرکے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے ؛کیوں کہ فروری۲۰۰۶ء میں جس وقت ان ملزمین کے بارے میں ملک سے غداری کرنے کا انکشاف ہواتھا،اس سے چھ ماہ قبل سے ہی یہ لوگ مہاراشٹرکی جیلوں میں مقید تھے۔
تویہ ہے اس ملک کی پولیس اور میڈیاکاطریقِ کارکہ جو شخص یا اشخاص کسی واقعہ کے رونماہونے کے وقت کسی دوسرے الزام کی وجہ سے جیلوں میں بند تھے، انھیں ہی ایک اور واردات کا ملزم بنادیاگیا اور میڈیا نے پولیس کی اس جھوٹی کہانی میں وہ رنگ آمیزی کی کہ ان ناکردہ گناہوں کے ملزمین کولشکرِطیبہ تک کا رکن قراردے ڈالا اور اپنے لاکھوں کروڑوں ناظرین و قارئین تک یہ پیغام پہنچادیا کہ فلاں فلاں مسلم نوجوان غدارِ وطن ہیں،دہشت گرد ہیں؛لیکن پھر جب یہی غدارِ وطن اور دہشت گرد عدالت سے باعزت بری ہوگئے،تو انھوں نے اپنے قارئین و ناظرین کو یہ اہم اطلاع دینے سے قصداً گریز کیا اور یہ غلط تاثر برقراررکھا کہ دہشت گردی اور مسلمانوں کے درمیان کوئی نہ کوئی تعلق ضرورہے۔
دہشت گردی سے مسلمانوں کا تعلق جوڑنے کی پولیس اورمیڈیاکے ایک طبقے کی یہ’اَدا‘ان کے لیے انتہائی اذیت ناک ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج سیکڑوں مسلمان کسی نہ کسی فرضی الزام کی وجہ سے ملک کی مختلف جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور ہیں،ان جیلوں میں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اوران کا کریراوران کی زندگی کے قیمتی ایام تباہ و برباد کردیے جاتے ہیں،یہ تو اس اذیت کا ایک پہلو ہے اور دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ، جس کا اثران بے قصورگرفتارشدہ مسلمانوں کے خاندان اور اہلِ خانہ پر ہی نہیں؛بلکہ ان کی پوری قوم پر پڑتاہے۔کیوں کہ پولیس اور میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کا لیبل ان بے قصوروں کے خاندان پر ہی نہیں پورے ملک کے مسلمانوں پر بھی چسپاں کرنے کی انتہائی منظم کوشش کی جاتی ہے۔یہ کس قدر بھیانک سچائی ہے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمان تعلیم و ترقی اور قانون و حکمرانی کے تمام تر شعبوں میں اپنی آبادی سے بہت ہی کم ہیں،لیکن دوسری طرف جیلوں میں ملک گیر سطح پر ان کی نمایندگی ان کی اس ملک میں آبادی کے تناسب سے تقریباً دوگنا ہے۔مسلمانوں کے تئیں پولیس اور انتظامیہ کے متعصبانہ رویے کی اس سے زیادہ واضح دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو عدالتوں سے انصاف ملنا لائقِ خیر مقدم ہے اور باعثِ اطمینان بھی۔گزشتہ۵؍ستمبرکو سپریم کورٹ نے اُن تمام قیدیوں کو رہا کرنے کاحکم دیا ہے جو عائد الزامات کے تحت زیادہ سے زیادہ سزاکی نصف مدت جیلوں میں کاٹ چکے ہیں۔اس سے ملک بھر میں ایک اندازے کے مطابق دولاکھ سے بھی زیادہ زیر سماعت قیدیوں کی رہائی ممکن ہوسکے گی۔اس وقت ملک بھر میں تین لاکھ۸۱؍ہزارقیدی جیلوں میں بند ہیں،جن میں سے دولاکھ۵۴؍ہزار قیدی زیرِ سماعت ہیں۔سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے ججوں سے کہا ہے کہ وہ ایسے زیر سماعت قیدیوں کی شناخت کے لیے،جنھوں نے عائد الزامات کے تحت مقررزیادہ سے زیادہ سزاکا نصف حصہ جیلوں میں گزاردیاہے،جیلوں میں جائیں اور جس قدر جلد ممکن ہوسکے،ان کی رہائی کو یقینی بنائیں۔
اس عدالتی حکم سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا کیوں کہ مسلمان قیدی ہی زیادہ تعداد میں جیلوں میں بند ہیں۔فی لاکھ مسلم آبادی کے تناسب سے اس وقت زیرِ سماعت مسلم قیدیوں کی تعداد۸ء۳۸فیصدہے،جبکہ اسی تناسب سے ہندوقیدیوں کی تعداد۴ء۲۱فیصد ہے۔یہ اعدادو شمارملک گیر سطح کے ہیں۔ریاستی سطح پر توبعض جگہوں میں یہ تناسب اور بھی زیادہ ہے،مثلاً سب سے زیادہ مہاراشٹرمیں۸ء۱۱فیصدہندوقیدیوں کے مقابلے میں مسلم قیدیوں کی تعداد۴ء۵۸فیصد ہے،مدھیہ پردیش میں۹ء۲۷فیصدہندوقیدیوں کے مقابلے میں مسلم قیدیوں کی تعداد۶ء۵۳فیصد ہے،اسی طرح راجستھان اور اترپردیش میں علی الترتیب غیر مسلم زیرِ سماعت قیدیوں کی تعداد۹ء۲۰فیصداور۵ء۲۸فیصدکے مقابلے مسلم زیرِ سماعت قیدیوں کی تعداد۴ء۴۸فیصد اور۸ء۴۷فیصدہے۔
یہ اعداد و شمار بھی پولیس اور انتظامیہ کے مسلم مخالف رویہ کی دلالت کرتے ہیں۔اب جبکہ عدالتی کارروائیوں کے نتیجے میں بے گناہ مسلم ملزمین بری ہونے کے امکانات روشن ہوئے ہیں اوراگلے دنوں میں اگرایسا ہوتا ہے،تواس سے زخم پوری طرح مندمل تو نہیں ہوں گے،البتہ ان کاکچھ مداواضرورہوسکے گا۔
جواب دیں