یوپی میں ہاشم پورہ کے فیصلے اور تلنگانہ کے انکاؤنٹر اور مہاراشٹر میں گؤ کشی پر پابندی کے ساتھ ساتھ سنجے راؤت اور سبرا منیم سوامی جیسے وقت کے ابو جہلوں اور ابو لہبوں کے زہریلے بیانات سے ہندؤوں کی اکثریت کہاں تک خوش ہوتی ہے یہ الگ موضوع ہے مگر مسلمان اپنی اس تکلیف سے چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی اس نا انصافی اور عصبیت کا حل ان کے اتحاد میں ہے اور ہماری اپنی سیاسی پارٹی ہونی چاہئے ۔کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ اب ہمارے احتجاج اور مظاہروں میں وہ شدت اور قوت نہیں رہی کہ سرکار ہماری آواز کہ سننے کے لئے مجبور ہو ۔ملی گزٹ کے ایڈیٹر ظفرالاسلام صاحب نے تو ایک مجلس میں یہاں تک کہا کہ اگر مسلمانوں کے خلاف نا انصافی کا مسئلہ اسی طرح دراز ہوتا رہا تو ہم بین الاقوامی عدالت سے بھی رجوع ہو سکتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ان میں سے ہر طریقہ کو آزما کر دیکھ لیا ہے اور ناکام ہوئے ہیں جہاں تک بین الاقوامی عدالت میں جانے کا معاملہ ہے برما اور فلسطینیوں کا معاملہ ہمارے سامنے ہے جو دنیا کی کوئی عدالت ابھی تک حل نہیں کر سکی ہے ۔مگر اس طرح ہم انصاف پسند ہندؤوں کی نظر میں مشکوک ہو کر اپنا اعتبار کھو دیں گے ۔سوال یہ ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟ّ ۔
مولاناشبلی ؒ نے ایک بار کہا تھاکہ دنیا کی تمام دیگر قومیں اپنی ترقی اور مسئلے کے حل کے لئے آگے کی طرف دیکھتی ہیں ۔ہماری فلاح و بہبود اور کامیابی کا راستہ پیچھے کی طرف دیکھنے میں ہے۔ذرا ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں کہ ہندوستان میں محمد بن قاسم سے پہلے عرب مسلمانوں کا جو قافلہ داخل ہوا وہ کتنے تھے ؟کیا یہ متحد ہو کر جنگ کرنے کے لئے آئے تھے یا دیگر قوموں کو توحید اور اتحاد کا پیغام دینے کے لئے ؟انہوں نے یہاں کے باشندوں سے نہ تو روزی روزگار کا مطالبہ کیا نہ ہی نا انصافی اور عصبیت کا رونا رویا اور نہ ہی ان سے رہنے سہنے کا طریقہ سیکھا ۔ان تھوڑے سے مسلمانوں نے وہی کیا جو وقت کے رسول ﷺ کا طریقہ تھا۔انہوں نے زراعت پر مبنی ان کی تجارت اور معیشت کی قیادت اور رہنمائی کرتے ہوئے یہاں کے باشندوں کی معاشرتی اور سماجی زندگی میں جو انقلاب برپا کیا تھا تھوڑے ہی دنوں میں ان کے آپس کے تنازعے اور فیصلے بھی مسلمانوں کے سامنے پیش ہونے لگے اور لوگوں نے خوشی خوشی اسے قبول بھی کیا ۔اسی تعلق سے علی میاں ندوی ؒ نے اپنی کتاب ’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کے اثرات ‘میں لکھا ہے کہ اسلامی ماحول کے دور آخر تک ۱۸۵۷ کے آگے پیچھے مسلمان شرفاء کی ایسی متعدد نظیریں ملیں گی جنہوں نے اپنا خون دینا تو گوارہ کیا لیکن ضمیر کا خون کرنا پسند نہیں کیا ۔اس لئے وہ قومی معاملات میں بھی جھوٹ بولنا ،جھوٹی شہادت دینا اسی طرح گناہ سمجھتے تھے جس طرح اپنے ذاتی معاملات میں احکام شریعت اور قرآن کی آیات ان کے پیش نظر تھی’’اے ایمان والوانصاف کے علمبردار بنو اور اللہ کیلئے گواہی دینے والے رہو خواہ تمہیں یہ گواہی خوداپنے ،اپنے والدین اور اعزا کے خلاف ہی کیوں نہ دینی پڑے ‘‘النساء آیت ۱۳۵۔’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے معاملات میں انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو‘‘المائدہ،آیت ۸۔مصنف نے انگریزوں کے دور میں ضلع مظفر نگر کے قصبہ کاندھلہ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک معبد کے تعلق سے تنازعہ پیدا ہو گیا تھا۔انگریز مجسٹریٹ نے فریقین کے دعوے کو سننے کے بعد مسلمانوں سے تخلیہ میں پوچھا کہ کیا ہندوؤں میں کوئی شخص ایسا ہے جس کی صداقت پر تمہیں اعتماد ہو۔مسلمانوں نے کہا نہیں ۔ہندوؤں سے پوچھا گیا تو انہوں نے سید احمد شہیدؒ کے خاندان کے بزرگ مفتی الہٰی بخش کا نام پیش کیا۔مجسٹریٹ نے انہیں بلوابھیجا تو انہوں نے کہا کہ میں نے فرنگیوں کی شکل نہ دیکھنے کی قسم کھائی ہے ۔مجسٹریٹ نے دوبارہ کہلوایا کہ آپ اپنا منھ پیچھے کرکے گواہی دیجئے مگر تشریف لائیے ،کیوں کہ اب فیصلہ آپ کی عدالت میں ہے ۔بزرگ تشریف لائے اور جب گواہی دینے کیلئے تیار ہوئے تو سارے ہندوؤں اور مسلمانوں کی نگاہیں ان پر مرکوز ہو گئیں کہ پتہ نہیں ان کا جواب کیا ہوگا؟بزرگ نے کہا کہ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ جگہ ہندوؤں کی ہے۔عدالت کا فیصلہ ہو گیا جگہ ہندوؤں کو مل گئی ۔مگر صداقت اور اسلامی اخلاق کے ایک مظاہرے نے چند گز زمین کھوکر بہت سے غیر مسلم انسانوں کے ضمیر اور دل و دماغ کو جیت لیا اور بہت سے ہندو اسی روز ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔یہ اور اس طرح کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جس کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم ہوا اور انہوں نے اسی قومی یکجہتی کی بنیاد پر انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی کو انجام تک پہنچایا ۔یہ سب اس لئے ہو سکا کیوں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میں کچھ ایسے اچھے لوگ تھے جنہوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایثار و قربانی ،صلہ رحمی اور انصاف کا مظاہرہ کیا ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ آپ جس طرح صرف محبت کی دعوت دے کر لوگوں میں انسیت اور بھائی چارگی نہیں پیدا کرسکتے ۔جب تک کہ محبت پیدا ہونے والے کام نہ کئے جائیں ۔صرف اتحاد اتحاد کا نعرہ لگاکر یا بے شمار کانفرنس اور مجلسیں منعقد کرکے بھی اتحاد پیدا نہیں کرسکتے ۔جب تک کہ میدان عمل میں ایثار و قربانی اور انساف کی صفات کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔اس کے برعکس ہم نے خود اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں دیکھا ہے جہاں شیعہ اور سنی ایک عبادت گاہ کی زمین کے لئے بیسوں سال تک مقدمہ لڑتے رہے مگر کسی نے کسی کے لئے قربانی دینے کی فراخدلی نہیں دکھائی ۔ممبئی کے مرغی محلہ مسجد میں ہم نے خود بریلویوں اور تبلیغیوں میں چاقو اور چاپڑ چلتے دیکھا ہے۔وہ نظارہ بھی ہم خود دیکھ چکے ہیں جب ایک مسجد میں تبلیغی جماعت کے لوگوں نے جماعت اسلامی کا اجتماع نہیں ہونے دیا اور انہیں قریب کے ایک پارک میں اپنی مجلس کو منعقد کرنا پڑا ۔
صورتحال کسقدر خراب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی ہی مساجد میں مسلمانوں کے ایک فرقہ نے دوسرے مسلمان فرقوں کے لئے ممانعت کا بورڈ آویزاں کررکھا ہے ۔اس کا بھی ہمیں علم اور ہم سب ان حالات سے واقف بھی ہیں ۔مگر جو واقعات وقتاً فوقتاً آج بھی ہمارے منھ پر تھپڑ مارتے ہیں ان سے بھی سبق لینے کی ضرورت ہے۔یہ خبر واٹس ایپ پر فوکس نیوز گروپ نیٹ ورک کے حوالہ سے کسی مرزا علیم بیگ کے ذریعے ہم تک پہونچی کہ الہاس نگر کے مہیش اگروال نے جو ایک ریجنسی گروپ کے مینجگ ڈائریکڑ بھی ہیں مسلمانوں کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے جنہیں اپنی میت کو دفن کرنے کے لئے کلیان جانا پڑتا ہے قبرستان کے لئے دو ایکڑ زمین وقف کر دی ہے ۔اسی طرح کے کئی واقعات ہماری نظر سے گذرے ہیں جب ہندؤں نے مسلمانوں کی مدد کی ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وبھوتی نارائن تیستا شیتل واد،ہرش مندر اور مہیش بھٹ جیسے بہت سارے انصاف پسند ہندوؤں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کے کاندھے سے کاندھا ملانے کی کوشش کی ہے۔ہم آج اندھیری آدرش نگر ممبئی کے جس علاقہ میں رہتے ہیں وہاں نوے فیصد ہندو ہیں ۔مسلمان یہاں ایک کمرے کو مسجد بنا کر اذان اور نماز کی پابندی کرتے ہیں۔اکثر ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں کا رمضان اور ہندوؤں کی گنپتی اور نوراتری کا تہوار اسی دوران واقع ہو گیا ۔ہم نے دیکھا ہے کہ رمضان کی تراویح اور اذان کے وقت قریب میں واقع گنپتی کے پنڈال والوں نے مسلمانوں کی عبادت کا احترام کرتے ہوئے گھنٹوں تک اپنے گانے بجانے کو بند رکھا ۔اسی طرح کا ایک واقعہ جو ہمارے کچھ دوستوں نے ہم سے بتایا کہ ایک بار ساکی ناکہ خیرانی روڈ کے ایک علاقے میں انہیں پتہ چلا کہ ایک پنڈت جی اپنی خالی پڑی ہوئی زمین کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ہم ان کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ پنڈت جی نے ایک ہفتہ پہلے کسی سے زمین کا سودا کرکے ٹوکن لے لیا ہے۔پھر بھی انہوں نے ہم سے پوچھا کہ آپ کس مقصد کے تحت زمین خریدنا چاہتے ہیں۔ہم لوگوں نے کہا کہ ہم زمین پر ایک مسجد اور مدرسہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔پنڈت جی نے کہا کہ آپ مجھے تھوڑا سا وقت دیجئے خریدار سے میں خود بات کرتا ہوں ۔اگر وہ ٹوکن واپس لینے کیلئے راضی ہو جاتا ہے تو میں یہ زمین آپ لوگوں کو ہی دے دوں گا۔اتفاق سے سودا کرنے والا بھی راضی ہو گیا اور پنڈت نے یہ زمین نہ صرف ہم لوگوں کے ٹرسٹ کے نام کردیا بلکہ انہوں نے کہا کہ آپ اگر قسطوں میں بھی رقم دیں گے تو بھی مجھے منظور ہے۔اس کے برعکس میں ممبئی کے ایسے دو مسلم سیاستدانوں کو جانتا ہوں جن میں سے ایک نے ایک مسجد کے تنازعے میں خفیہ طریقے سے اپنے مسلک والوں کا ساتھ دیا اور دوسرے نے ایک مسجد سے منسلک اپنی ہزاروں اسکوائر فٹ زمین میں سے مسجد کے راستے کو سیدھا کرنے کے لئے چند گز زمین دینے سے اس لئے ٹال مٹول اور بہانہ بازی کا راستہ اختیار کیا ،کیوں کہ یہ مسجد ان کے مسلک والوں کی نہیں تھی ۔بالآخر مسلمانوں نے تنگ راستے پر ہی اکتفا کیا ۔یہاں پر مسلمانوں کے کسی بھی فرقے کے لوگوں کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،تقریباً سبھی ایک دوسرے کے لئے تنگ نظری اور فکری تضاد کا شکار ہیں ۔اس کے باوجود ان تمام نام نہاد اور پیدائشی مسلمانوں کے لئے برہمن برا اور مسلمانوں کو برہمنیت سے خطر ہ ہے! مسلمانو اگر اتحاد اور امن و سکون کا ماحول چاہتے ہو تو ایثار و قربانی اور صلہ رحمی کا مظاہرہ کرو ۔انسانیت کی بات کرو اور بغیر کسی مذہبی اور مسلکی عصبیت کے اچھے لوگوں کی تلاش کرو یہ تمہیں ہر مذہب اور فرقوں میں نظر آئیں گے ۔یہی اسلام ہے اور وقت کے رسول ﷺ نے سماج اور معاشرے کے انہیں اچھے لوگوں کو لے کر انقلاب برپا کیا تھا اور یہ انقلاب انصاف اور ایثار و قربانی کے لئے تھا۔انصاف ہوگا تو محبت پیدا ہوگی ۔محبت ہوگی تو اتحاد ہوگا ۔ اتحاد ہوگا تو لوگ خود بخود ایک دوسرے کی ضرورت کے لئے ہاتھ بٹائیں گے ۔جب لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ بن جائیں گے تو امن ضرور قائم ہوگا اور فساد برپا نہیں ہوگا۔یہی اسلام کا مقصد اور مسلمانوں سے اللہ کا تقاضہ بھی ہے ۔
جواب دیں