واضح ہو کہ راجیو گاندھی 1991 میں تمل ناڈو میں ایک انتخابی ریلی کے دوران خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے تمل ناڈو کی حکومت نے مرکزی حکومت سے سابق وزیراعظم راجیوگاندھی کے قتل کے سات مجرموں کو رہا کرنے کی سفارش کی ہے۔ان سات لوگوں میں ستھن، مرگن اور پیراریولن بھی شامل ہیں جن کی پھانسی کی سزا کو سپریم کورٹ نے منگل کو عمرقید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ان تینوں کے علاوہ رہائی کی سفارش حاصل کرنے والوں میں مرگن کی اہلیہ نلنی شر ہرن، رابرٹ پائس، جے مار اور روچدرن شامل ہیں۔تمل ناڈو کی وزیر اعلی جے للتا نے بدھ کی صبح کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں سات ملزمان کی رہائی کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا۔کابینہ کے فیصلے کے بارے میں جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ستھن، مرگن اور پیراریولن گزشتہ 23 سالوں سے جیل میں بند ہیں۔اسی امر کا خیال رکھتے ہوئے سی آر بی سی کی دفعہ 432 کے تحت ریاستی حکومت کو دیے گئے حقوق کے تحت حکومت نے ان تینوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہم نے نلنی، رابرٹ پائس، جے مار اور روچدرن کو بھی رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چونکہ ان تمام لوگوں کو ٹاڈا کی عدالت نے سزا سنائی تھی اس لیے سی آر بی سی کی دفعہ 435 کے تحت تمل ناڈو حکومت کے فیصلے پر مرکزی حکومت سے بات چیت کی جائے گی اور اس لیے مرکزی حکومت کی رائے جاننے کے لیے ریاستی حکومت نے اپنی سفارشات کو فوراً مرکز کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔پیراریولن اور ان کے دو ساتھیوں کی پھانسی کی سزا کو سپریم کورٹ نے منگل کو عمرقید میں تبدیل کر دیا تھابیان کے مطابق اگر مرکزی حکومت نے تین دن کے اندر کوئی جواب نہیں بھیجا تو ریاستی حکومت کے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان تمام افراد کو رہا کر دیا جائے گا۔نلنی کے سزائے موت کو پہلے ہی کانگریس کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی کی مداخلت کے بعد عمر قید میں تبدیل کیا جا چکا تھا۔منگل کو سپریم کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرتے وقت قصورواروں کی رحم کی درخواست پر فیصلے میں مرکزی حکومت کی طرف سے 11 سال کی تاخیر کا ذکر کیا تھا۔سپریم کورٹ نے مرکز کی اس دلیل کو مسترد کر دیا تھا کہ مجرم ستھن، مرگن اور پیراریولن کی رحم کی درخواستوں پر فیصلے میں تاخیر سے انہیں کوئی تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑی۔
سپریم کورٹ کی اس رحم دلی سے یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ افضل گرو کے معاملہ میں اس نے یہ رحم دلی کیوں نہیں دکھلائی تھی اس کی سزائے موت پر ہی قانون کے ماہرین اور حقوق انسانی کے علمبرداروں نے سوال اٹھانے شروع کردئے تھے کیونکہ اول تو وہ جرم میں بذات خود اور براہ راست شامل نہیں تھا۔ ماضی میں ضرور وہ انتہا پسندانہ سر گرمیوں میں شامل تھا مگر بعد میں تائب ہوگیا تھا اور اپنی چھوٹی موٹی تجارت سے اپنا گھر بار چلارہا تھا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں خود لکھا تھا کہ افضل گرو کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باوجود اس کو سزائے موت دینے سے قوم کے اجتماعی ضمیر (Collective Conscience) کو اطمینان ہوگا ۔ ماہرین قانون اور حقوق انسانی کے علمبردار عدالت کے اسی تبصرہ کو نہ صرف نامناسب بلکہ مستقل کے لئے خطرناک بھی قرار دیا تھا کیونکہ یہ بھیڑ کے انصاف کا راستہ ہموار کر سکتا ہے ۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں کے ساتھ سپریم کورٹ کی جانب سے جس رحم دلی اور جے للیتا کی جانب سے جس دریا دلی کا مظاہرہ کیا گیاہے اس سے ہمارے نظام انصاف پر سوال اٹھنا لازمی ہے اور اٹھنے بھی لگاہے ۔ یہاں تک کہ بزرگ کشمیری لیڈر پنڈت بھوشن بزاز نے بھی سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس ملک میں کشمیریوں کے لئے الگ قانون ہے اور بقیہ ملک کے لئے الگ ۔
افضل گرو کی قسمت در اصل کانگریس اور بی جے پی کی سیاست کا شکار ہوگئی تھی عدالت کے فیصلہ میں ہی تمام خامیاں نکالی جارہی تھیں لیکن بی جے پی نے درندگی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے افضل گرو کو پھانسی پر نہ لٹکانا کانگریس کی مسلمانوں کی منھ بھرائی سے جوڑ کر ہنگامہ کھڑا کرنا شروع کردیا ۔ پارلیمنٹ کے حملہ آروں کو مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان نچھاور کردینے والے بہادروں کے اہل خاندان کا جذباتی استحصال کرکے ان سے ایوارڈ واپس کرانا اسے انتخابی موضوع بنانا پارلیمنٹ میں اسے بحث کا موضوع بنانا یہ سب بی جے پی کی حکمت عملی کا حصہ تھا دوسری جانب کانگریس اس معاملہ کو لے کر اتنے دباؤ میں آگئی کہ اس نے نہ صرف قانون بلکہ انسانیت دشمنی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ایک رات اچانک بغیر ضروری قانونی کارروائی اسے چپکے سے پھانسی پر ٹکادیا اور اس کی لاش بھی تہاڑ جیل میں ہی دفن کردی جس پر سپریم کورٹ نے اس کی سرزنش بھی کی تھی۔
ہندوستان کے عدالتی نظام پر ملک کے سبھی طبقوں کا غیر متزلزل اعتماد ہے لیکن اس طرح کے’’ منھ دیکھے انصاف‘‘ سے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ملک دشمن عناصر اسی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر خام نوجوان ذہنوں کو ورغلاکر ان سے غلط کام کر والیتے ہیں ۔ افضل گرو کو زندہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا عدالت اور حکومت بر سر عام اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے رہ گئی بی جے پی تو اس سے کیا امید اس کا تو پورا سیاسی اثاثہ ہی دوہرے معیار اور دوہرے پیمانہ پر منحصر ہے۔
جواب دیں