مولانا برکت اللہ بھوپال کے ایک نچلے متوسط خاندان میں ۱۷ جولائی ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ابتداء سے باغیانہ ذہن اور انقلابی فطرت کے مالک تھے ان کے غیر معمولی مزاج کا ثبوت اس وقت ملا جب انہوں نے روایتی مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۸۸۳ء کی ایک شام اچانک بھوپال سے غائب ہوکر جبل پور کے ایک کرسچین مشن اسکول میں کچھ عرصہ بعد داخلہ لے لیا اوراپنی وضع قطع بدل کر کچھ عرصہ بعد بمبئی جا پہونچے جہاں چار سال گزار کر انگریزی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور مزید کے لئے انگلستان چلے گئے لیکن ان کا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رہ سکا پھر بھی اپنی ذہنیت صلاحیت اور انقلابی کاموں سے طبعی مناسب کی بدولت جلد ہی ان کا شماران اہم لوگوں میں ہونے لگا جو جدوجہد آزادی کو آگے بڑھانے کے ذمہ دار تھے۔
انگلستان میں مولانا کی ملاقات مجاہد آزادی گوپال کرشن گوکھلے اور معروف انقلابی شیام جی کرشن ورما سے ہوئی اور دونوں کے نظریات سے متاثر ہوکر اپنی بعد کی سرگرمیوں سے انہوں نے انگریزوں کا ناطقہ بند کردیا۔
۱۸۹۹ء میں مولانا انگلستان سے نیویارک پہونچے اور ۱۹۰۵ء کے آخر میں تحریک کے قائد شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی ہدایت پر ایک وفد کے ہمراہ جاپان گئے۔ یہاں چند سال ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسری کی پھر فرانس، جرمنی اور ترکی کے سفر کرتے رہے، اسی دوران مولانا نے اخبارات بھی نکالے۔
مولانا ۱۹۱۸ء میں شیخ الہند کے فرمانے پر ایک وفد کے ہمراہ افغانستان گئے جہاں طویل مذاکرات اور صلاح ومشورہ کے نتیجے میں یکم دسمبر ۱۹۱۵ء کو آزاد ہندوستان کی پہلی ’’جلاوطن حکومت‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ قیام افغانستان کے دوران انہوں نے افغان حکمراں امیر حبیب اللہ کو اپنی تحریک کا حامی بنانا چاہا لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی، یہ وہ زمانہ تھا کہ ہندوستان کی قومی تحریک سامراج کے شکنجے میں گرفتار تھی کسی کو انگریزوں کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت بھی نہ تھی۔ اس ماحول میں مولانا برکت اللہ اور ان کے ساتھیوں کی انتھک محنت اور طویل جدوجہد کی بدولت ہندوستان کا ایک موثر سیاسی مرکز افغانستان میں قائم ہوجانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہندوستانی انقلاب پسندوں میں ایک نئی روح دوڑ گئی اور جلاوطن حکومت کے وسیلہ سے ان کے تعلقات بین الاقوامی سطح پر قائم ہوگئے۔ اس جلاوطن حکومت کے صدر راجہ مہندر پرتاپ بنائے گئے جبکہ وزیراعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں میں مولانا عبیداللہ سندھی اور لالہ ہردیال شامل تھے۔ جلاوطن حکومت کے لئے افغانستان کا میدان تنگ پاکر مولانا نے اپنی توجہ دوسری ہمسایہ حکومتوں کی طرف مبذول کرلی اور روس، ترکی، جاپان وغیرہ تک اپنے وفود ارسال کئے لیکن زارِ روس کے دور تک وہاں جلاوطن حکومت کے نمائندوں کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی بلکہ ان میں سے اکثر کو گرفتار کرکے برطانوی حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ بعض نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور کئی لوگ اپنے وطن کی محبت اور حریت کی خاطر شہید ہوگئے۔
پہلی جنگ عظیم کے موقع پر جب روس میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں اور زار شاہی کا تختہ پلٹ کر لینن نے وہاں اشتراک کا پرچم لہرایا تو فطری طور پر ایک ایسا ماحول بن گیا جوساری دنیا کے انقلاب پسندوں کا ہم نوا تھا۔ دوسری طرف افغانستان میں بھی جو ہندوستان کی جلاوطن حکومت کے خفیہ مرکز کا درجہ رکھتا تھا جنرل حبیب اللہ کی حکومت کے زوال کے بعد حالات سازگار ہوگئے اور شاہ امان اللہ جو برسراقتدار آنے سے قبل تحریک کے اہم قائدین سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے، حکمراں بن گئے تو جلاوطن حکومت کے ارکان کو بھی وہاں کافی عروج حاصل ہوا اور سلطنت کے دست وبازو بن کر صلح وجنگ کے میدانوں میں وہ شاہ امان اللہ کے ساتھ کام کرنے لگے۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی کی سیاسی سوجھ بوجھ اور قوتِ کارکردگی کے جوہر انگلستان اور جاپان کے دوران قیام یا اس کے بعد غدر پارٹی کی تشکیل اور جلاوطن حکومت کے بانی کی حیثیت سے کھل چکے تھے۔ اب انہوں نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی کو سوویت یونین سے امریکہ تک اور ترکی سے ایران تک پھیلا دیا اور خود بھی ایک بے قرار روح کی طرح نہ صرف ان ممالک میں بلکہ چین، جرمن اور برطانیہ میں بھی وہ آتے جاتے رہے۔ انقلاب کی عملی نتائج ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتے رہے، اسی تگ ودو اور پرمشقت زدنگی کی وجہ سے ان کی صحت جواب دے چکی تو ساتھیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ہندوستان لوٹ جائیں لیکن انہوں نے بائیس سالہ غریب الوطنی کی زندگی بسر کرکے اسی حالت میں موت کو گلے لگا لینا پسند کیا اور امریکہ کے شہرسان فرانسسکو میں جہاں وہ غدر پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لئے تھے، ۲۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی کے باغیانہ ذہن کو جلا بخشنے میں جن محرکات نے اہم کردار ادا کیا ان میں عالمِ اسلام کی نامور شخصیت ، پان اسلام ازم، کے زبردست حامی اور عظیم انقلابی سید جمال الدین افگانی سے بھوپال میں ان کی ملاقات اور انقلاب آفریں نظریات سے تعارف کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا مطالعہ قابلِ ذکر ہے، مولانا کا ان دونوں عبقری شخصیتوں یا ان کے فکر ونظریات سے گوناگوں متاثر ہونا فطری بھی تھا کیونکہ یہ اپنے عہد کی اہم شخصیتوں میں شامل تھیں۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی نے ہندوستان کے ہندومسلم انقلابیوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں بھی اہم رول ادا کیا اور اسی کے نتیجہ میں ہندوستانی جیالوں کی جو صفیں ۱۸۸۸ء سے لیکر ۱۹۱۵ء تک مسلم انقلابیوں کی صورت میں مدرسہ دیوبند کے ماتحت اور ہندووطن پرستوں کی شکل میں مہاراشٹر اور بنگال میں علاحدہ علاحدہ نظر آتی ہیں بعد میں ’’موقۃ الہند‘‘ کے نام سے بنائی گئی جلاوطن سرکار کے تحت کام کرنے لگیں۔ مولانا کی تمام سرگرمیوں کا واحد مقصد یہی تھا کہ بیرونی فوجی امداد اور داخلی اتحاد کی راہ سے ہندوستان میں برطانوی استبداد کا خاتمہ ہوجائے۔ بعض معلوم اسباب یا نامعلوم وجوہ کی بنا پر اگرچہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی لیکن نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے یہ اس قدر ہمہ گیر ضرور تھی کہ ہندوستان کی کوئی سیاسی جدوجہد کی تاریخ اس کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔
مولانا برکت اللہ، شیخ الہند مولانامحمود الحسن کی وفات کے بعد تقریباً پانچ چھ برسوں تک تحریک آزادی کے سربراہ رہے اور یہ پوری مدت انہوں نے اس تحریک کو ساری دنیا میں متعارف کرانے اور اس کی حمایت حاصل کرنے میں صرف کردی۔
مولانا مذہب پر پورے یقین اور اس سے گہری وابستگی کے باوجود جدید خیالات اور نئے رجحانات کے علمبردار تھے۔ انہوں نے مرتے دم تک ہندوستانی مسلمانوں کے پرانے ذہنی سانچے کو توڑنے کی کوشش جاری رکھی۔ زندگی کا انتہائی بیش قیمت حصہ انقلاب کے میدان میں جھونک دینے کے بعد انہیں یقین ہوگیا تھا کہ ہندوستانی عوام خصوصیت سے یہاں کے مسلمانوں کی ترقی نیز عوام کی خوشحالی کی کوئی صورت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ انگریز حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرکے نئے حوصلے اور خیالات کے ساتھ زندگی کا سفر شروع نہ کردیں۔
مولانا مرحوم کی نظر کے سامنے مسلمانوں کی عظیم سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے اور خلافت ختم ہوگئی۔ روسی ترکستان میں مسلمانوں کی آزادی کچل دی گئی۔ افغانستان اور روس میں انقلابات برپا ہوئے۔ عربوں کی قومیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مستقبل پر نظر رکھنے والے ایک رہنما کی حیثیت سے انہوں نے نہ صرف انقلاب کا گہرا مطالعہ کیا بلکہ اس کے پس پردہ عوامل پر بھی نگارہ رکھی۔ ان کے تدبر وہوشمندی اور سیاسی بصیرت کا اندازہ لگانے کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ مولانا نے سیکولر نظام حکومت کا تصور اس وقت پیش کیا جب یہ کم ازکم ہندوستانی عوام کے لئے تو اجنبی تھا۔
مولانا بھوپالی نے اپنی جلا وطن حکومت کی تشکیل ۷۷ برس پہلے جن نظریات کے اور اصولوں کی بنیاد پر کی وہ اتنے جدید تھے کہ ۳۰ برس بعد ہندوستان کی آزاد حکومت کی بنیاد بھی وہی قرار پائے اور آج بھی جب ملک کے سیکولر نظام اور جمہوری تجربہ کو۶۷ برس کا عرصہ مکمل ہوگیا ہے تو ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
جواب دیں