اندرا گاندھی موجودہ عالمی تناظر میں!

اس مقام پر بھارت کی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہاں اس وقت بعض اہم بہت اہم و عظیم شخصیات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور بعض کو ہدف ملامت بنایا جا رہا ہے اور بعض کو ایک دوسرے پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ بعض کو یہ کہہ کر اپنایا جا رہا ہے کہ وہ شخصیت تو ہماری نظریات سے اتفاق رکھتی تھی۔ اس تناظر میں بھارت کی سابق وزیر اعظم آنجہانی شریمتی اندرا گاندھی کی شخصیت کو پیش کیا جا رہا ہے جو آپ آئندہ سطور میں پڑھیں گے۔
اندرا پریہ درشنی کی 19 نومبر 1917 کو الہ آباد کے آنند بھون میں ولادت ہوئی تھی۔ یہ مقام تین مقدس اور قابل عبادت ندیوں گنگا، جمنا اور سرسوتی کے پاک سنگم پر ہے۔ اس شہر کو عظیم مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے خاص طریقے سے سجایا سنوارا تھا۔ اس اعتبار سے الہ آباد کو مذہبی و تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ جب اندرا پریہ درشنی کا جنم ہوا اس وقت یہ شہر شمالی ہندوستان کا ثقافتی وانتظامی مرکز بھی تھا۔ یہیں پنڈت جواہر لعل نہرو کا گھر تھا۔
اندرا پریہ درشنی کے دادا موتی لعل نہرو الہ آباد ہائی کورٹ کے عظیم و معروف وکیل، ممتاز شہری تھے۔ سیاست میں سرگرمی سے شراکت داری کی وجہ سے پنڈت جواہر لعل نہرو زیادہ تر گھر پر نہیں رہتے تھے لیکن اندرا پریہ درشنی کے دادا موتی لعل نہرو اپنی پوتی کی پرورش و پرداخت ایک خاص انداز میں کرنا چاہتے تھے اس لیے وہ اپنی پوتی کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ جب اندرا پریہ درشنی تھوڑی بڑی ہوئیں تو اعلیٰ اخلاقیات سے کھیل کھیل میں واقف کرانا شروع کیا۔
آنند بھون ایک وسیع لان اور سوئمنگ پول سے آراستہ ایک عالی شان محل جیسی عمارت ہے۔ یہ عمارت نہرو خاندان کی رہائش گاہ تھی۔ اسی محل میں ہندوستان کے اول سابق وزیر اعظم و عظیم مجاہد آزادی پنڈت جواہر لعل نہرو کی بھی پرورش و پرداخت ہوئی تھی۔ اس گھر میں اہم ہستیوں کا آنا جانا تھا۔ یہ جہاں گشتوں کا مسکن تھا۔ جہاں مختلف ملکوں اور الگ الگ مکتب فکر کے افراد جیسے کسان، سائنسداںِ ماہر تعلیم و لسانیات، سیاست داں، شاعر، ادیب، قلم کار، فن کار ہمہ وقت بحث و تمحیص میں مصروف رہا کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت: جب اندرا پریہ درشنی پانچ سال کی ہوئیں تو والدین اور ان کے دادا موتی لعل نہرو کو ان کی تعلیم کی فکر لاحق ہوئی۔ دادا موتی لعل نہرو اپنی پوتی کی تعلیم و تربیت خاص انداز میں کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اندرا کی پرورش بھارت کے فلسفہ حیات کے مطابق ہوئی جو آگے چل کر ایک ہمہ جہت شخصیت کے طور پر دنیا کے سامنے آئی۔ اندرا پریہ درشنی کو اول روز تعلیم کی غرض و غایت سے واقف کرایا تھا۔ کافی چھوٹی عمر سے ہی ان کے اندر بیداری کا احساس پیدا ہوگیا تھا۔ وہ اپنی پوری زندگی فطرت کے قریب رہیں۔ وہ جب بہت چھوٹی تھیں انھیں بسا اوقات حیرت ہوا کرتی تھی کہ کیوں لوگ فطرت کی دوسری چیزوں کو نظرانداز کرکے صرف چاند کی بات کرتے ہیں اور اس کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوگ چاند پر گئے تو معلوم ہوا کہ چاند پر تو ویرانی ہے۔ وہاں خوبصورتی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہاں سے دیکھنے پر دنیا بہت خوبصورت لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارتی خلاباز راکیش شرما چاند پر گئے تو ریڈیو کے ذریعہ رابطے میں اندرا گاندھی نے پوچھا کہ بھارت کیسا لگ رہا ہے تو راکیش شرما نے جواب دیا کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔ اندرا جی کی تعلیم پہلے گھر پر ہی شروع ہوئی لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو جیل میں تھے تو ان کے دادا موتی لعل نہرو نے ان کا داخلہ ایک کانونٹ اسکول میں کرایا تھا۔ جب یہ بات پنڈت جواہر لعل نہرو کو معلوم ہوئی تو اپنے والد کو خط لکھا کہ کانگریس کانونٹ اسکولوں کا بائیکاٹ کرتی ہے تو اندار کو کانونٹ اسکول میں پڑھانے کا کیا مطلب؟ تو موتی لعل نہرو نے جواب میں کہا کہ میں نے اندرا کا کانونٹ اسکول میں داخلہ اس لئے کرایا ہے کہ دوسرے بچوں کا ساتھ مل جائے۔ جب نہرو جی نے سمجھ لیا کہ ان کے والد ان کی بات ماننے والے نہیں ہیں تو مہاتما گاندھی سے نہرو جی نے کہا کہ میرے والد کو آپ سمجھائیں۔ گاندھی جی نے موتی لعل نہرو کو خط لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کی حمایت کریں۔ انھوں نے گاندھی جی کی بات مان لی اور اندرا گاندھی کو کانونٹ اسکول سے نکال لیا اور گھر پر ہی اساتذہ کا انتظام کرکے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
جنوری1922ء کو اندرا جی اپنی دادی اور دوسری خواتین کے ساتھ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ساتھ سابرمتی آشرم احمدآباد گئیں۔ وہ وہاں بہت خوش تھیں۔ وہ بابو کے دعائیہ جلسے میں شرکت کرتی تھیں۔ وہ گاندھی جی سے بہت گھل مل گئیں اور گاندھی جی اس شرمیلی اور چنچل لڑکی سے بہت پیار کرتے تھے۔ دو اہم سبق گاندھی جی نے اندرا کو پڑھائے۔ ہمیشہ زندگی میں آگے بڑھو اور سختی سے ان اصولوں کی پابندی کرو جو اپنے لیے مقرر کئے ہیں۔ اندرا جی نے اپنی زندگی کے ابتدائی نو سال پریشانیوں اور عدم تحفظ کے بیچ گزارے۔ یہ عام گھریلو زندگی کے تجربوں سے بہت مختلف تھے۔ بچپن کے ان تجربوں نے ان کے اندر ایک خود اعتمادی پیدا کردی جو ہمیشہ ان کے کام آئی۔
’’میں یہ یقین کرتا ہوں کہ جب بھی بزدلی اور تشدد میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوگا تو میں تشدد کو ہی چننے کی صلاح دوں گا لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں کہ عدم تشدد بہتر ہے۔ معاف کرنا سزا دینے سے زیادہ افضل ہے، معاف کرنے کا جذبہ ایک فوجی کے وقار کو بڑھاتا ہے لیکن ضبط اور معافی اس وقت اچھی لگتی ہے جب سزا دینے کی طاقت پر ہو، یہ بے کار سی بات لگتی ہے جب ایک لاچار آدمی اسے دینے کی اداکاری کرے۔ میں خواب دیکھنے والا نہیں ہوں، میں خود کو عملاً اصول پسند مانتا ہوں، عدم تشدد کا راستہ صرف سنتوں اور رشیوں کے لیے نہیں بنا ہے، یہ عام آدمی کے لئے بھی ہے۔ عدم تشدد انسانیت کا اصول ہے جبکہ تشدد حیوانیت ہے، اس میں جو روح رہتی ہے وہ نکمی ہوتی ہے اور وہ جسمانی اصولوں کے علاوہ کوئی اصول نہیں جانتی ہے، آدمی کی عزت اسی میں ہے کہ وہ روح کے سکون کے لیے اصول کی پابندی کرے، میں نے اسی لئے بھارت کے سامنے آتم تیاگ کا اتنا جوکھم بھرا اصول رکھا ہے، ستیہ گرہ اور اس کی شاخیں تحریک عدم تعاون اور سول مدافعت اور کچھ نہیں بلکہ تکلیف برداشت کرنے کے اصولوں کے ہی نئے نام ہیں، جن رشیوں نے تشدد کے بیچ عدم تشدد کے اصولوں کی ایجاد کی تھی وہ نیوٹن سے بھی عظیم تھے۔‘‘(مہاتما گاندھی درشن)
مہاتما گاندھی کے یہ اصول اندرا پریہ درشنی کی زندگی کے اہم اصول بن گئے اور یہ عظیم خاتون پوری زندگی ان اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔
مارچ1926 میں اندرا پریہ درشنی نے اپنے والدین کے ساتھ یوروپ کے سفر کئے، اس وقت ان کی ماں کملا نہرو کی طبیعت ناساز تھی، اسی دوران سوئٹزرلینڈ کے جنیوا شہر کے ایک اسکول میں نام لکھا دیا گیا۔ یہیں اندرا جی نے فرنچ زبان سیکھی تھی، اندرا گاندھی کی تعلیم و تربیت سابرمتی آشرم، شانتی نیکتن، آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہوئی، ان تعلیمی و تربیتی دانش گاہوں نے اندرا پریہ درشنی کو کندن بنادیا۔
اپریل ماہ 1941 میں اندرا گاندھی یوروپ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے بھارت واپس آگئیں اور سیاست میں سرگرم ہوئیں۔ 26 مارچ 1942کو اندرا پریہ درشنی کی شادی فیروز گاندھی سے ہوگئی۔ شادی کے بعد بھی اندرا گاندھی سیاست میں سرگرم رہیں۔ 10 ستمبر 1942 کو پہلی بار ان کو گرفتار کرکے نینی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ اسی جیل میں ان کے شوہر فیروز گاندھی بھی قید تھے، لیکن ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ اندرا گاندھی قیدی خواتین کو پڑھایا کرتی تھیں۔ 20 اگست 1944 کو ان کے یہاں خوبصورت بچے کا جنم ہوا جس کا نام راجیو رکھا گیا۔ 14 دسمبر 1947 کو دوسرے بیٹے سنجے کا جنم ہوا۔ وہ سیاست کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کا پورے طور پر خیال رکھتی تھیں۔ وہ بحیثیت ماں کامیاب خاتون تھیں۔
اندرا گاندھی کی شخصیت تروتازہ، روشن، خوبصورت، ہوشیار، محتاط، مرتعش، توانا، فوراً اندازہ لگانے والی مسکراہٹ کی جھلملاہٹ پھر اچانک اپنے ہی میں کھو جانا، نرم دل، دوسروں کی بات سمجھنے والی، بڑوں سے بات کرتے وقت نرم گفتار، اجنبیوں کے ساتھ احترام کا جذبہ رکھنے والی، سفارتی اور بین الاقوامی افسروں کے بیچ دوری قائم رکھتے ہوئے پہیلی بنے رہنا ایک ایسی عورت جو وقت کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارتی تھی۔(ص:83، اندرا پریہ درشنی)
اندرا گاندھی بحیثیت وزیر اعظم: 12 مارچ 1967 کو اندرا گاندھی نے بھارت جمہوریہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لیا اور بھارت کی ترقی و تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ نجی بینکوں کو قومیایا، جس کی وجہ سے ملک کو تقویت ملی، ابھی اندرا پریہ درشنی کا سیاسی اور ملک کی خدمت کا سفر جاری تھا کہ 31اکتوبر1984 کو ان کے سیکورٹی گارڈوں نے ان کو گولی مار دی۔ اس طرح اندرا پریہ درشنی کی شاندار و فاتح زندگی کا خاتمہ ہوگیا اور بھارت ایک عظیم رہبر سے محروم ہوگیا۔ اندرا اندھی آزادی سے قبل عظیم مجاہد آزادی رہیں، کئی بار جیل گئیں، آزاد بھارت میں اہم کارہائے نمایاں انجام دیتی رہیں، وزیراعظم بننے کے بعد اہم فیصلے کئے جس سے ملک کا بڑا فائدہ ہوا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ ہاں ان کی زندگی کا تاریخ ساز باب ایمرجنسی تھا جس کے بعد وہ عام انتخابات میں ناکام ہوگئی تھیں، لیکن دوبارہ آب و تاب کے ساتھ برسراقتدار آگئی تھیں۔ اندرا گاندھی نے اپنے ملک کے لوگوں کے لئے بہت کچھ کیا، وہ تمام برائیوں کے خلاف کھڑی ایک مسیحا تھیں، ان کا ایک مقصد تھا مذہب، ذات، برابری، عمر جیسی تمام چیزوں سے اوپر اٹھ کر ہر شہری کے اندر خوداعتمادی اور خودانحصاری پیدا کرنا۔

«
»

مذہب کے سیاسی استعمال پر روک کیوں ضروری؟

عبدالمتین خاںؒ : چند نقوش و تأثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے