لیکن مذکورہ خوبیوں کے باوجود وہ ایک ایسی سیاست داں تھیں جنہیں برطانیہ میں جمہوریت کے جنم داتا کرامویل سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کہ لوگ کرامویل کا احترام کرتے تھے، اس کی صلاحیتوں کے معترف تھے، لیکن اس سے خوف بھی کھاتے۔
اندراگاندھی بھی ان سیاست دانوں میں سے تھیں جن کے رویہ اور اقدام کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، اندرا گاندھی کی اپنی پارٹی کانگریس کا ایک گروپ ان کا مخالف تھا لیکن ان کی سیاسی مہارت اور قیادت کی صلاحیت ایسی تھی کہ کسی کو ان کے آگے دم مارنے کی ہمت نہیں ہوا کرتی تھی، اپنی ان ہی گوناگوں صلاحیتوں کی بدولت اندراجی کی قیادت ہندوستان خاص طور پر کانگریس کے اقتدار کیلئے ناگزیر سمجھی جانے لگی اور وہ مکمل ۱۸ برس تک ہندوستانی سیاست کے مطلع پر شہاب ثاقب کی طرح روشنی بکھیرتی رہیں، ان کا یہ دبدبہ آخر تک قائم رہا، بعض لوگ ان کو ناپسند کرتے ہوئے بھی ان کی فرماں برداری پر مجبور رہے، اچانک غیر متوقع اور ڈرامائی اقدامات اندرا گاندھی کی وہ خصوصیات تھیں جس کی بناء پر انہیں عوام اور پارلیمنٹ دونوں کی حمایت طویل عرصہ تک حاصل رہی۔
اندراگاندھی اگر زندہ ہوتیں تو کانگریس بعد میں جن حالات سے دوچار ہوئی کبھی نہ ہوتی، اندراگاندھی کے وارثوں نے نہ صرف کانگریس کو کمزور کردیا بلکہ ایسی متضاد پالیسی اپنائی ہے کہ اپنے اور پرائے سب ان کی عقل پر ماتم کر رہے ہیں ۔ اندراگاندھی کے زمانے میں کبھی فرقہ پرستوں کو وہ وقار حاصل نہ ہوا جو ان کے بعد نظر آیا ۔ یہ ان کی ہمت جرأت اور اقدام کا نتیجہ تھا کہ کانگریس نے ایکدم تمام دقیانوسی رجحانات سے گلوخلاصی حاصل کرلی، ۱۹۶۹ء میں تو انہوں نے بینکوں کو قومیانے کے ساتھ ساتھ سابق والیان ریاست کے پریوی پرس ختم کرکے وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں وہ غریبوں اور کمزوروں کے مسیحا شمار ہونے لگیں اور اپنے اسی طرح کے متعدد کاموں یا کارناموں کی بدولت ہر سال جب ۳۱ اکتوبر یا ۱۹ نومبر آتا ہے تو ان کو یاد کیا جاتا ہے۔(یو این این )
جواب دیں