ہندوستانی جیلوں میں مسلمانوں کا بڑھتا تناسب

تحریر: مُحسن رضا ضیائی

 

ہندوستان کو آزاد کرانے میں جہاں بہت سے ہم وطنوں نے اپنی جان و مال کی قربانیاں پیش کی تھیں، وہی مسلمانوں نے بھی اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا تھا۔ محض اس لیے کہ ہمارا ملکِ عزیر اس آمرانہ اور سامراجی حکومت کے ظلم و جبرسے آزاد ہوگا تو ہماری نسلیں ایک آزاد اور خوشگوار ماحول میں پروان چڑھیں گی۔ لاکھوں قربانیوں اور سرفروشیوں کے بعد ہمارا ملک تو آزاد ہوگیا لیکن مسلمانوں کو اس ملک کے لیے بوجھ سمجھا گیا، جنہوں نے اس کی آزادی کی خاطر اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں، اسے آزاد کرانے کے لیے لاکھوں جتن کیے اور آخری محاذ تک جذبہ و حوصلہ کے ساتھ لڑتے رہے۔

آج ملک کو آزاد ہوئے 74 ؍سال ہوگئے لیکن قائدینِ جنگِ آزادی نے اپنی قوم کے تئیں جو خواب دیکھیں تھے، وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس آزاد ہندوستان میں ان کے ساتھ متعصبانہ اور غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا، انہیں کہیں فسادات برپا کرکے مارا گیا تو کہیں بے قصور جیلوں میں بند کرکے پیٹا گیا۔ گویا آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مظلوم مسلمانوں کی سیکڑوں ایسی داستانیں ہیں، جو ظلم و زیادتی، قتل و خون ریزی اور تعصب و عدمِ روادری کی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔

آج بھی بے قصور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد جیلوں میں قید ہیں، جنہیں یا تو دہشت گردی کے بے بنیاد الزام میں سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا یا تو فساد و اشتعال انگیزی کرکے ان سے زندان کو بھردیا گیا۔کتنے ایسے افراد ہیں جن کے افرادِ خانہ ان کے لیے انصاف کی لڑائیاں لڑھ رہے ہیں اور عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں، لیکن انہیں انصاف ملتا دکھائی نہیں دے رہاہے۔

حال ہی میں انڈین ایکسپریس نے این سی آر بی کے حوالے سے اسی طرح کی ایک حیرت انگیز رپورٹ شائع کیا، جس میں مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو لے کر بہت سارے حقائق کا انکشاف کیا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ملک کے حکومتی ادارے نیشنل کرائم رکارڈ بیورو(این سی آر بی) کی حالیہ ۲۰۱۹ء کی تازہ ترین رپورٹ میں قصوروار قرار دیے گئے مسلمانوں کی تعداد 61.6؍فی صداور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد18.7 ؍فی صد بتائی گئی ہے، حالاں کہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی مجموعی آبادی 14.2 فی صد ہے۔ اگر جیلوں میں قید مسلمانوں کا آبادی کے لحاظ سے تناسب نکالا جائے تو مسلمان قیدیوں کی تعداد ان کی مجموعی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے، حالانکہ اس کے مقابلے دلت اور قبائلی جیسے دیگر پسماندہ طبقات میں یہ صورت حال بہت مختلف ہے۔

این سی آر بی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ قصوروار قرار دیے گئے مسلم قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد اترپردیش کی جیلوں میں ہے، جہاں یوگی ادیتیہ نا تھ کی قیادت والی بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ اترپردیش کی جیلوں میں 6098 ؍قصوروار قرار دیے گئے مسلمان قیدی ہیں اس کے بعد مغربی بنگال 2369اور مہاراشٹر2114کا نمبر ہے۔

انتہائی افسوس اور تشویش کی بات ہے کہ ہندوستان میں 14.2 ؍ فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے جب کہ جیلوں میں ان کی تعداد 16.6 ؍فیصد اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد18.7 ؍فی صد ہے اور ان مین بھی زیادہ تر نوجوان ہیں، جنہوں نے ابھی اپنی زندگی کی بہاریں بھی نہیں دیکھی ہیں، انہیں جیل میں بند کرکے ان کے مستقبل کو مکمل طور پر تباہ کیا جارہاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت و انتظامیہ کس قدر ایک کمیونٹی کو اپنے تعصب و نفرت کا نشانہ بناتی ہے اور انہیں طرح طرح کے الزامات میں ملوث قرار دے کر ہمیشہ کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے۔ اس سے جہاں حکومت ومحکمۂ پولس کی متعصبانہ تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، وہیں عدالتوں کی کاروائیوںپر بھی شبہ ہونے لگتا ہے ۔

اور مزید ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ جیلوں میں بڑی تعداد ایسے مسلمان قیدیوں کی ہے، جن کی سزا پانچ یا چھ سال ہونی چاہیے لیکن وہ اس سے دگنے سالوں جیل میں قید رہتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نہ تو کوئی ان کی ضمانت کرواتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنا مقدمّہ خود لڑ سکیں۔

اس حوالے سے پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے سابق بیورو چیف این آر واسن کا کہنا ہے کہ ان اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا مجرمانہ عدلیہ نظام نہ صرف دھیما ہے بلکہ اس میں غریبوں کے خلاف معاملے بھرے پڑے ہیں۔ جو لوگ اچھے وکیل رکھ سکتے ہیں، انہیں آسانی سے ضمانت مل جاتی ہے اور انصاف بھی مل جاتا ہے لیکن غریب معاشی مواقع کی کمی کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے جرائم  میں ہی پھنسا رہ جاتا ہے۔

16.6 ؍فی صد قصورواراور18.7 ؍فی صد زیر سماعت قیدیوں میں بڑی بڑی تعداد ایسی بھی ہے ، جو ضمانت پر رہا ہوسکتے ہیں اور کئی سارے ایسے قیدی بھی ہیں، جنہیں بے قصورجیل میں ڈالا گیا، ان کا مقدمہ لڑ کر ان کی زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے، لیکن نہ تو ان کے افرادِ خانہ کی پاس اتنی خطیر رقم ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اس قدر عدالتوں کا چکر کاٹ سکتے ہیں۔

اس کے لیے مسلم سیاست دانوں کی یہ اہم ذمہ داریاں بنتی ہے کہ وہ مسلمانوں پر ہورہی زیادتیوں اور نا انصافیوں کے خلاف ایوان بالا اور ایوانِ زیریں میں پر پُر زور آوازیں بلند کریں اور جو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بے گناہی کی سزائیں کاٹ رہے ہیں ، انہیں رہا کرانے کے لیے اپنی پارٹیوں پر سخت دباؤ ڈالیں۔

اسی طرح ہمارے یہاں قوم کی فلاح و بہبودگی کے نام پر بہت سی مسلم تنظیمیں اور تحریکیں بھی قائم ہیں،اگر وہ چاہیں تواچھے اور ماہر وکلا کی خدمات حاصل کرکے ان بے یار و مددگار اور بے گناہ مسلم قیدیوں کے مقدّمات لڑ کر اور ان کی ضمانت کرواکر ان کی رہائی کی راہیں ہموار کرسکتی ہیں اور ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد ہونے سے بچا سکتی ہیں۔اس کے لیے ان تنظیموں اور تحریکوں کو آگے آنا چاہیے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان’’المسلم اخوالمسلم‘‘(ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے) کے تحت اپنا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ ہماری ان جد و جہد اور تگ و دو سے نہ جانیں کتنوں کی زندگیاں اجڑنے سے بچ سکتی ہیں اور کتنوں کی زندگیوں میں بہار آسکتی ہے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

06ستمبر2020(فکروخبر)

«
»

سود۔۔۔ یعنی انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ

مذہب اسلام کی تذلیل کاخاتمہ اتحاد ہی سے ممکن ہے!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے