قدیم ہندوستان کی تاریخ جو اکثر ہندوستانیوں کو معلوم نہیں اور خصوصاً مسلمانوں کو۔

                                از: غلام غوث، بنگلور

         اب سے تین سو سال پہلے آج کے ہندوستان میں بسنے والا کوئی بھی شخص اپنے آپکو ہندوستانی نہیں کہتا تھا کیونکہ موجودہ ہندوستان کا تصور ہی نہیں تھا۔ لوگ خود کو مرہاٹی، بنگالی،حیدرآبادی، ٹمل وغیرہ کہا کر تے تھے۔لوگ اپنے آپ کو راجپوت، مغل، پٹھان،برہمن، چھتریا، ویشیا، شودرا  وغیرہ کہلاتے تھے اور حکمرانوں کی خدمت میں خوشی خوشی لگے رہتے تھے۔ وہ اپنے آپکو ہندو بھی نہیں کہتے تھے مگر یہ نام انہیں پہچان کے لئے چھٹویں صدی  قبل مسیح میں پرشیہ کے بادشاہ سائرس نے دیا۔ یہ نام جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ نام دریائے سندھ کے اس پار رہنے والوں کو دیا گیا تھا۔ چونکہ پرشین زبان میں لفظ سین نہیں ہے اس لئے انہیں ہندو کہا گیا۔ تو ہندو پرشین لفظ ہے۔ مسلمانوں نے بھی انہیں اسی نام سے پکارا۔ 1826میں راجہ رام موہن رائے نے ان تمام غیر مسلموں کو متحد کر نے کے لئے اس لفظ ہندو کو عام کیا۔ ان کی کسی بھی مذہبی کتاب میں لفظ ہندو اور ہندتوا نہیں ہے۔ مغلوں کے دور سے پہلے کاغذ پر لکھنے کا چلن نہیں تھا۔ سولویں صدی میں مغلوں نے چین سے کاغذ بنانے کا ہنر سیکھا اور اسے عام کیا۔ اس سے پہلے اْس زمانے کے واقعات پیڑی در پیڑی زبانی سنائے جاتے تھے اور ہر نیا سنانے والا اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ اضافہ کر دیتا تھا اور انہیں دیومالائی کہانیوں کے طور پر پیش کر تا تھا۔ ان کہانیوں میں ہر زمانے والے کچھ نہ کچھ چمکدار اضافہ کر دیتے تھے اور انہیں کہانیوں کو عوام سچ سمجھ کر یقین کر لیتے تھے۔جب کاغذ کا دور آیا تو انہیں دیو مالائی کہانیوں کو لکھ کر انہیں سچ مان لیا گیا۔ساری دنیا میں یہی رواج رہا۔تین سو سال پہلے تک ہارپن تہذیب کا، سکندر اعظم کا، سلطنت موریہ کا،بدھیزم اور جینیزم کا علم نہیں تھا۔کچھ سر سری طور پر دیو مالائی کہانیوں کے طور پر سنا جاتا تھا۔ بدھیزم اور جینیزم قریباً ایک ہزار سال تک عروج پر تھے مگر اس کی تاریخ نہیں تھی۔ جن لوگوں نے راماین اور مہا بھارت لکھی اور کالی داس اور کلہان نے بھی ہندوستان کی تاریخ کے متعلق بہت کم لکھا ہے جو نہ کے برابر ہے۔ گوتم بدھ کے دور میں برہمن بہت کم تعداد میں تھے۔تین سو سال پہلے تک ہندوستانیوں کو  رگ وید معلوم نہیں تھا۔ اسے ایک فرنچ مصنف Coeurdeveaux  نے  1767 میں بنارس میں دریافت کیا اور عوام کو دیا۔17 ویں صدی میں انگریز تاریخ دانوں کی ریسرچ کے سبب ان دیو مالائی کہانیوں کو لکھا گیا اور تحقیقات کی گئیں۔رامائن اور مہا بھارت صرف چند برہمنوں کے دماغوں میں تھا۔ بعد لکھنے والوں نے اس میں خوب چمکدار خیالی رنگ بھرے۔اورنگ زیب کے بیٹے دارا شکوہ نے اوپانشد دریافت کیا اور اس کا ترجمہ کروایا۔آریہ نام کا مطلب زراعت کر نے کا ناگر ہے۔ سنٹرل ایشیا  میں بسنے والے آرین قوم کی ایک جماعت شمال مغرب یعنی یوروپ طرف گئی اور ایک جماعت شمال مشرق گئی جہاں انہوں نے زراعت کو کافی ترقی دی۔وہ آرین تھے جنہوں نے سب سے پہلے گھوڑوں کو پالنا اور استعمال کر نا سیکھا۔سوال پیدا ہو تا ہے کہ آرین قوم نے اپنا وطن چھوڑ کر یوروپ اور ہندوستان کیوں آ گئے۔ وہ اس لئے کہ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ان کا وطن ٰIce ageیعنی برفانی اور سرد  زمانے میں چلا گیا جب زراعت کرنا اور مویشیو ں کو پالنا دشوار ہو گیا۔ یہ برفانی زمانہ 1800 قبل مسیح آیا تھا۔اْس دور میں انسانوں کی آبادیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ غذا  اور پانی کی  تلاش میں اور معدنیات اور دولت کی تلاش میں منتقل ہوا کر تی تھیں۔مدت دراز تک ہندوستانیوں کو معلوم نہیں تھا کہ آرین کون تھے، کیسے تھے وغیرہ مگر ایک انگریز Max Muller   نے یوروپی آرینس کو دیکھ کر بتایا اور لکھا کہ وہ اونچیے لمبے گورے اور نیلی آنکھوں والے خوبرو لوگ تھے۔ اسی بنیاد پر جرمنی کے ہٹلر نے آرین قوم کی برتری کا شوشہ چھوڑا  اور یہی پڑھ کرہندوستان میں بھی آرین قوم کی برتری کا شوشہ چھوڑا گیا اور دوسروں کو کمتر مانا گیا۔انہیں لوگوں نے اپنے ساتھ ورناشرم کا نظریہ لایا اور مقامی لوگوں کو شودر بنا دیا اور انہیں اچھوت اور اپنے غلام بنا دیا۔ آج جسے ہم ہندوستان کہتے ہیں اس کے حدود تین سو سال پہلے طئے نہیں تھے کیونکہ قریباً 750 راجے مہاراجاوں کی ریا ستیں تھیں جو اپنی اپنی حدود ہی کو ملک تصور کر تے تھے اور ایک دوسرے کی زمین چھین نے کے لئے لڑتے تھے۔ آج کے مکمل ہندوستان کا اور اسے قائم کر نے کا تصور بھی نہیں تھا۔کہتے ہیں کہ چار ہزار سال قبل مسیح آج کے ہندوستان میں مشکل سے 20ہزار لوگ ہوا کر تے تھے جو صرف شکار اور پھل پھلالی پر خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گذارتے تھے۔  1500 سال تک شمال مغرب میں ہارپپن تہذیب موجود رہی۔   1500 قبل مسیح میں سنٹرل ایشیاسے آرین لوگ ہندوستان آئے،   560   میں مہاویرہ کا جینیزم آ یا،   556 قبل مسیح کوگوتم بدھ کا بدھیزم آ یا،    321 سلطنت موریہ قائم ہوی اور  268   قبل مسیح میں شہنشاہ اشوکہ کا دور رہا۔مصر اور ثمیریہ میں   5000 سال پہلے چمڑوں اور پتوں پر تصویروں کے ذریعہ لکھنے کا چلن شروع ہوا۔ ہندوستان میں سب سے پہلے ہرپپن تہذیب کا قیام 2500قبل مسیح ہوا ۔ 1924 میں سر جان مارشل نے اپنی ریسرچ سے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس نے ہرپپن تہذیب کی کھوج لگا لی جو اب تک کسی کو معلوم نہیں تھی۔ یہ تہذیب شمال مغرب میں 1.5 ملین اسکویر کیلو میٹر پر مشتعمل تھی یہ ڈراوڈ قوم کی تہذیب تھی جو اس زمانے کی بہت ہی ترقی یافتہ تہذیب رہی۔ اس میں ڈراوڈ  اور ان سے پہلے والے لوگ سب مل جل کر رہتے تھے۔یہ تہذیب ایک ہزار سال تک چلی اور اس کے بعد یہ ختم ہو گئی۔ موسم کی تبدیلی اور دریاوں کا رخ بدلنا اس کا سبب تھا۔ بغیر پانی کے وہ زراعت نہیں کر سکتے تھے اور مویشی بھی پال نہیں سکتے  تھے۔ اس لئے وہ دوسری جگہوں پر منتقل ہونے لگے۔ایسے وقت میں یہاں آرین قوم آنے لگی اور دونوں میں تصادم ہو نے لگا۔ آرین قوم کے پاس جدید اور مہلک ہتھیار ہونے کے سبب انہوں نے ڈراوڈ  قوم کو کچلنا شروع کر دیا۔ اس لئے ڈراوڈ قوم جنوب کی طرف ہجرت کر نے لگے اور آج کے مہاراشٹر، کرنا ٹک اور ٹمل ناڈ میں بسنے لگے۔ایک ہزار سال قبل مسیح میں یہ لوگ مشرق وسطی کو لوہا بر آمد کر تے تھے۔پیتل اور  تانبہ  بعد میں استعمال ہو نے لگا۔ان لوگوں کا یقین تھا کہ ہر ندی، جنگل، پہاڑ اور درخت پر روحیں ہو تی ہیں۔ اس لئے وہ ان کی پوجا کر تے تھے اور قربانیاں کر تے تھے۔۔سائنٹفک ریسرچ کے ذریعہ سے ثابت ہوا ہے کہ تیرہ ملین سال پہلے انسانوں کی آبادی وجود میں آئی اور دنیا بھر میں موجودہ انسان افریقہ سے آئے اور ساری دنیا میں پھیل گئے۔ جو لوگ سرد جگہ چلے گئے وہ گورے ہو گئے اور موسم کے لحاظ سے  ہر جگہ لوگوں کے رنگ بدل گئے۔ افریقہ کے لوگ گرمی کے سبب کالے رہ گئے۔یہ لوگ دس ہزار سال پہلے ایشیاء آئے اور بارہ ہزار سال پہلے امریکہ آ گئے۔پہلے وہ شکار پر زندگی گزار تے تھے، پھر مویشی پالنے لگے اور آہستہ آہستہ زراعت کر نے اور ایک جگہ مقیم ہو نے لگے۔ہندوستان میں پہلے stone age آئی اور بعد iron ageجبکہ دوسرے ملکوں میں  stone age پتھر کے زمانے کے بعد    Bronze age تانبے اور پیتل کا زمانہ آیااور بعد آیرن ایج  یعنی لوہے کا زمانہ آیا۔آثار قدیمہ کی ریسرچ کے مطابق ایک لاکھ سال پہلے ہندوستان میں لوگوں کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں۔ سب سے پہلے افریقہ سے لوگ یہاں آئے۔ 3000قبل مسیح میں مشرق وسطی سے ڈراوڈ  قوم ہندوستان آئی اوربعد میں سینٹرل ایشیا سے آرین یہاں آئے اور  بس گئے اور باقی سب ان کے بعد آئے۔آٹھویں صدی میں افغان، ترک اور منگول آئے۔ اْس وقت ملکوں کی کوئی حد بندی نہیں تھی۔ اس لئے ہر کوئی جہاں چاہے جا کر بس جاتا تھا۔اس طرح الگ الگ نسل کے لوگ ہندوستان آ کر بس گئے۔یہی سبب ہے کہ آج ہندوستان میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک بات جو سچ ہے وہ یہ کہ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہی مقامی ہے اور دوسرے سب باہر سے ہندوستان آئے ہوے ہیں۔ ڈراودین بھی، آرین بھی افغانی بھی، منگول بھی، عرب بھی سب کے سب ہاہر سے آئے ہوے ہیں۔ آج جو الگ الگ مذہب کے لوگ ہندوستان میں مقیم ہیں ان سب کو مقامی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان سب نے یہیں سکونت اختیار کی اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا اور اپنی اپنی پسند کے  مذہبوں کو اختیار کرلیا۔ ہندو مذہب  اور ہندوتوا نام کی کوئی چیز ان کی کسی بھی مذہبی کتاب میں نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ جسے چاہے پوجتے تھے اور اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ یہ بات ہر ہندوستانی کو یاد رکھنا چاہیے۔مساجد کے خطیب و امام حضرات سے میری گزارش ہے کہ وہ ان حقائق کو عام مسلمانوں تک پہنچائیں تا کہ ان میں شعور پیدا ہو۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

18جنوری2020
 

«
»

بہ یاد یار مہرباں

میڈیا۔کووڈ کے بعد………..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے