’انڈیا‘سے کیوں گھبرا رہی بی جے پی؟

نواب علی اختر

ذات پر مبنی مردم شماری کے نتائج جاری کرکے بہار نے ملک کی سیاست کو ایک بار پھر موڑ دیا ہے۔ 70 کی دہائی میں ایمرجنسی کے خلاف جے پی تحریک ہو یا 90 کی دہائی میں شروع ہونے والی منڈل سیاست، دونوں مواقع پر بہار نے تبدیلی کی قیادت کی تھی۔ اب جب پچھلی ایک دہائی سے قوم پرست سیاست ملک پر حاوی ہوتی نظر آرہی ہے، نام نہاد سیکولر سیاست کو بے دخل کرتے ہوئے بہار نے ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے حساب کتاب کے نتیجے میں ایسا دھماکہ کیا ہے، جس میں تبدیلی کی صلاحیت موجود ہے۔ خیر ابھی توسب اسی حساب کتاب میں مصروف ہیں کہ اگر پسماندہ اور انتہائی پسماندہ لوگ مل کر ریاست کی آبادی کا دو تہائی حصہ ہوجاتے ہیں تو اس کی کاٹ کے طور پر دوسرا کون سا جغرافیہ پیش کیا جا سکتا ہے؟

جب سے بہار حکومت نے ذات کی بنیاد پر مردم شماری کی رپورٹ کو عام کیا ہے، مرکز کی بی جے پی حکومت میں کہرام مچا ہوا ہے،اسی وجہ سے بی جے پی کی یہ دلیل کہ قومی سطح پر ایسا کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے، بے معنی ہو گیا ہے۔ اب ہر طرف یہی سوال اٹھ رہا ہے کہ جب ایک ریاست میں ایسا ممکن ہے تو دوسری ریاستوں میں اور قومی سطح پر یہ کام کیوں نہیں ہو سکتا۔ چونکہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے، اس لیے بی جے پی لیڈروں کا بنیادی لہجہ بھی بدل گیا ہے اور اب بھگوا پارٹی کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف نہیں ہیں اور وہ بہار حکومت کے فیصلے میں بھی شروع سے شامل رہے ہیں۔ صاف ہے کہ بہار حکومت نے بی جے پی کی روایتی سیاست کو زمیں دوز کرنے کا کام کیا ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملے پر ’مثبت‘ موقف دکھا کر بی جے پی’انڈیا اتحاد‘ کی سبقت کو متاثر کرنا چاہتی ہے مگر اب بہت دیرہوچکی ہے کیونکہ ’انڈیا‘ کا گھوڑا بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کو پیروں تلے روندتے ہوئے کافی آگے نکل چکا ہے۔ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ جس نے جس مسئلے پر پہل کی، نسبتاً اس کوہی زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ذات پات کی مردم شماری کے معاملے میں یہ کام جے ڈی یو اور آر جے ڈی نے کیا ہے، جو بی جے پی کے خلاف بنائے گئے ’انڈیا‘ اتحاد کا اہم حصہ ہیں۔ بی جے پی نے جس سیاست کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے وہ اب خود اسی پارٹی کے لئے ’زہر‘بنتا دکھا دے رہا ہے کیونکہ بی جے پی کے ذریعہ پلائی گئی گھٹی نے عوام کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔

بہار حکومت کے اقدام سے بی جے پی کو ہونے والے نقصان پر ابھی بھگوا خیمے میں ماتم ہی ہو رہا تھا کہ کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی نے ’جس کی جتنی سنکھیا بھاری، اس کی اتنی بھاگیداری‘ (جتنی زیادہ آبادی،اتنی بڑی سیاست اور معیشت میں حصہ داری) کا نعرہ دے کر 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل ایک بڑی ہلچل مچا دی ہے۔ ماہرین کی مانیں تو ذات پر ابھرتی ہوئی سیاست 2014 کے بعد قائم کئے گئے انتخابی جغرافیہ کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ ملک کے کئی حصوں میں (کچھ میں آبادی کے نصف سے دو تہائی کے درمیان) او بی سی کا بڑا اہم حصہ ہے۔ ان حالات میں یہ بھی طئے ہے کہ سیاسی پارٹیاں انہیں خوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ قومی اور ریاستی سطحوں پر ہماری زیادہ تر فلاحی پالیسیاں مخصوص طبقات پر مرکوز ہوتی ہیں، کچھ لوگ اس بات سے متفق نہیں ہوں گے کہ تفصیلی سماجی و اقتصادی ڈیٹا پالیسی کی تشکیل اور نفاذ میں زیادہ مددگار ثابت ہوگا۔ تاہم ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے سے متعلق قلیل مدتی اور درمیانی مدت کے انتخابی اثرات کئی وجوہات کی بنا پر غیر واضح ہیں۔ لیکن بہار کی نتیش حکومت نے جن حالات میں ذات پرمبنی مردم شماری کے اعداد وشمار جاری کئے ہیں، اس نے بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کے نعرے’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظرفرقہ وارانہ سیاست میں ماہربی جے پی حواس باختہ نظرآرہی ہے۔

بی جے پی کو اعلی ذات والوں کی جماعت بھی کہا جاتا رہا ہے۔ بی جے پی اس امیج کو بدلنے کی کوشش بھی کرتی رہی ہے لیکن اس نے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ پسماندہ طبقات کی بہتری کے لیے اقدامات پر توجہ نہیں دی۔ صرف وعدے اور دعوے کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوششیں کرتی رہی۔ انتخابات میں کچھ اہمیت ضرور دی گئی اور انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد انہیں پھر سے نظر انداز کردیا گیا۔ ایسے ایک سے زائد مواقع پر ہوا ہے لیکن پارٹی اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے اور نہ ہی جن ریاستوں میں اس کی اپنی حکومتیں ہیں وہاں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے لیے کوئی اقدامات کئے گئے ہیں۔ بہار میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی و کانگریس کے اشتراک والی مخلوط حکومت نے اس سلسلہ میں پہل کرتے ہوئے دوسری ریاستوں کے لیے مثال قائم کی ہے۔

بہار میں ذات پات پر مبنی مردم شماری سے ثابت ہوگیا ہے کہ ریاست میں 84 فیصد عوام او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی ہیں اور ان کا حصہ ان کی آبادی کے مطابق ہونا چاہئے۔ ان حالات میں اب کئی ریاستوں کی طرف سے مرکز سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ قومی سطح پر فوری ایسا سروے کرادے تاکہ سماجی انصاف یقینی ہو اور سماج کو بااختیار بنانے کے پروگرامس کو ٹھوس بنیاد فراہم ہوجائے۔ اس میں ملک میں سب بڑی آبادی والا صوبہ اترپردیش سرفہرست ہے۔ لوگوں کا کنا ہے کہ ذات پات کی مردم شماری ہمارے سماج کو متحد کرے گی۔ وہ ذاتیں جو پیچھے رہ گئی ہیں، جنہیں ابھی تک عزت اور حقوق نہیں دیے گئے اور جو سمجھتے ہیں کہ ان کی آبادی زیادہ ہے لیکن انہیں اس کے مطابق کچھ نہیں مل رہا ہے، انہیں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہمارے معاشرے کو مربوط کر دے گی۔

ملک کی مختلف ریاستوں اور خاص طور پر ہندی بولنے والی ریاستوں میں پسماندہ طبقات کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ تمام جماعتیں ان سے ہمدردی کا دعوی کرتی ہیں اور ان کے کاز کی چمپئن بننے کی بات کرتی ہیں۔ تاہم عملی طور پر اقدامات کی جب بات آتی ہے تو یہ جماعتیں اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں پس و پیش کا شکار ہوجاتی ہیں اور نت نئے بہانے اختیار کئے جاتے ہیں۔ بی جے پی آج مرکز میں اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں برسراقتدار ہے۔ وہ ملک بھر میں جہاں کہیں انتخابات ہوتے ہیں پسماندہ طبقات کے لیے کئی اقدامات کرنے کے دعوے کرتی ہے۔ انہیں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ انہیں انتخابی فائدہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن کبھی بھی ان کے جائز مطالبات کی تکمیل کے لیے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔

دراصل، ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں کئی مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ ان مذاہب میں کئی ذاتیں اور ان کے الگ الگ ریت رواج ہیں۔ ان کے طریقہ کار اور روایات بھی مختلف ہیں۔ پسماندہ طبقات میں ذات پات کی خاصی اہمیت ہونے کی بنا پر ان کی شناخت بھی الگ ہے۔ کئی صوبوں میں ذات پات کے اعداد وشمار اہم ہونے کی وجہ سے وہاں کے انتخابی نتائج پر ان کا اثر پڑتا ہے۔ اس بنا پر کئی افراد کا ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرانے کا اصرار تھا۔ امید ہے کہ اس سے لوگوں کے ساتھ انصاف ہوسکے گا اور وہ سماجی طور پر برابری حاصل کر سکیں گے۔ انہیں اپنی تعداد کے تناسب سے تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں مناسب نمائندگی مل سکے گی۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے