یہ الگ بات ہے کہ آئی بی کی جانب سے جہاں ایک جانب نیپال کے راستے سے دہشت گردوں کے ملک میں داخل ہونے کی خبر دی گئی تھی وہیں براہِ سمندرگجرات میں 13دہشت گردوں کے داخل ہوجانے کی بھی اطلاع دی گئی تھی جو جشنِ آزادی کے موقع پر ملک میں دہشت گردانہ واردات انجام دینے والے تھے۔ آئی بی کی یہ الرٹ گوکہ خاص طور سے دہلی،ہما چل پردیش، مہاراشٹراورگجرات کے لئے تھی مگر عمومی طور پر پورے ملک میں اس کی بازگشت سنی جارہی تھی۔یومِ آزادی، یومِ جمہوریہ، ہولی ، دیوالی، گنیش اتسواور نوراتری وغیرہ کے موقع پر آئی بی کی جانب سے اس طرح کا الرٹ جاری ہونا ایک روایت رہی ہے جو شومئی قسمت کچھ مسلم نوجوانوں کے انکاؤنٹر یا گرفتاری کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ یہ انکاؤنٹرس وگرفتاریاں الرٹ جاری ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر وقوع پذیر ہوجایا کرتی تھیں جواتفاق سے اس بار نہیں ہوئیں اور معلوم ونامعلوم مسلم نوجوان آئی بی الرٹ کے شکار ہونے سے بچ گئے۔
آئی بی کی اس الرٹ میں ہمیشہ دہشت گردانہ حملوں کے امکان کا اظہار کیا جاتا ہے اور چند شہروں کے لئے تو Specific الرٹ تک جاری کردیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں شہر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ اس کی مثال ہم 2010میں یومِ آزادی کے موقع پر جاری الرٹ سے دے سکتے ہیں جس میں آئی بی کی جانب سے دہلی اور ممبئی سمیت 12بڑے شہروں کے لئے الرٹ جاری کیا گیا تھا۔ اس الرٹ میں آئی بی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ بھارت کی آزادی کے دن یعنی کہ پندرہ اگست کو دہلی، ممبئی، کولکتہ اور احمد آباد سمیت درجن بھر شہر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔اِس بارجوالرٹ جاری کیا گیاوہ گو کہ Specific الرٹ تھا مگر جس قدر مضحکہ خیز طریقے سے اس مفروضہ الرٹ کو رنگ وروغن لگانے کی کوشش کی گئی اس نے محض اتفاقاً یہ ثابت کردیا کہ آئی بی کی جانب سے جاری کردہ یہ الرٹ ملک کے لئے دہشت گردانہ خطرہ نہیں تھا بلکہ یہ آئی بی کومنجدھار سے نکالنے کی ایک کوشش تھی۔ یہ باتیں ہم محض آئی بی کی کارکردگی پر لگ رہے سوالیہ نشان کی بنیاد پر نہیں کہہ رہے ہیں ، بلکہ میڈیا میں اس کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ آئی بی اپنی جانب سے جاری کردہ الرٹ کے تعلق سے خود ہی مخمسے کا شکار تھی۔ آپ بھی آئی بی کی یہ اچھل کود ملاحظہ کریں۔
9اگست 2013کو آئی بی کی جانب سے یہ الرٹ جاری کیا گیا کہ یوم آزادی سے قبل دہلی میں دہشت گردانہ حملہ ہو سکتا ہے۔دہلی میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے ۔(ایجنسی)(زی نیوز،9اگست2013،15:35 )
10اگست 2013کو آئی بی کی جانب سے الرٹ جاری کیا گیا کہ کیا گجرات دہشت گردی کا شکار ہونے والا ہے اور پاکستان سے 13دہشت گردی نریندر مودی کو مارنے کی غرض سے سمندر کے راستے سے گجرات کے ولساڈ میں داخل ہوچکے ہیں۔ (آج تک ،10اگست2013،23:56 IST)
12اگست2013کو آئی بی نے مشرقی اترپردیش میں ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تربیت یافتہ دہشت گرد نیپال کے راستے ہندوستان میں داخل ہونے کی تیار ی میں ہیں۔جس کے نتیجے میں لکھنو، کانپور، آگرہ، متھرا، بریلی، مراد آباد، میرٹھ، مؤ، بھدوہی، اعظم گڑھ، بنارس، فیض آباد، مہراج گنج، سدھارتھ نگر، بہرائچ اور بارہ بنکی وغیرہ اضلاع کو حساس اضلاع قرار دے کر الرٹ جاری کردیا گیا۔(دینک جاگرن، 12اگست2013، 09:46 PM (IST))
یومِ آزادی کے ایک روز قبل یعنی کہ 14اگست 2013کو آئی بی کی جانب سے ایک خاص الرٹ جاری ہوا کہ 15 اگست کے موقع پر ایک نئی دہشت گرد تنظیم ملک کو دہلانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس نئی تنظیم کا نام ’ گلابی گینگ آف مسلم فائٹرس‘ (جی جی ایم ایف ) ہے ، اورکانگریس، بی جے پی و شیوسینا کے کچھ رہنماؤں پر حملہ کرنے کی تاک میں ہے۔ کانگریس کے لیڈرکے رحمن خان اور بی جے پی کے لیڈر مختار عباس نقوی جی جی ایم ایف کی ہٹ لسٹ پر ہے۔(آج تک، 14اگست2013، 15:12 IST)
15اگست2013کو لکھنؤ کے امر اجالا میں ریاستی آئی جی(لاء اینڈ آرڈر) راجکمار وشووکرماکے حوالے سے خبر آئی کہ آئی بی کو اِن پُٹ ملے ہیں کہ دہشت گرد تنظیم یوم آزادی پر گلائڈر یا چھوٹے اور ہلکے طیاروں کے ذریعے کسی دہشت گردانہ واردات کو انجام دے سکتے ہیں۔(امراجالا، 15اگست2013، 2:24 AM IST)
آئی بی کی جانب سے جاری کردہ ’الرٹ‘ کی یہ چند مثالیں ہیں جودوروز قبل یومِ آزادی کے پیشِ نظر جاری کیا گیا ہے۔ جبکہ اگر ان تمام الرٹس کو جمع کریں تو یہ مضمون صرف الرٹ کی کہانی سے مکمل ہوجائے۔ ان الرٹس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی بنیاد کیا ہوسکتی ہے اور یہ کیوں جاری کئے گئے ۔ ان تمام الرٹس میں کسی نہ کسی طور پر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا گیا ہے ، اسی کے ساتھ اس قدرمہارت کے ساتھ ان الرٹس کی فکشن سازی کی گئی ہے کہ آپ برسوں ان کے حقائق نہیں معلوم کرسکتے۔14اگست 2013کو جاری الرٹ میں جس جی جی ایم ایف یعنی کہ گلابی گینگ آف مسلم فائٹرس نامی تنظیم کے خط کے حوالے سے الرٹ جاری ہوا ، اس کا وجود اسی قدر مشکوک ہے جس قدر انڈین مجاہدین کا۔ کیونکہ اس سے قبل اس نام کی کسی تنظیم کے بارے میں میڈیا میں کوئی خبر نہیں ہے۔اس تنظیم کانام پہلی بار آئی بی کے ذریعے 14اگست 2013کو ہی منظرِ عام پر آیا ۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ اس کی پہلی دھمکی بھی مختار عباس نقوی کو ہی ملی۔
آئی بی کی جانب سے اختیار کردہ اس حکمتِ عملی کے لئے اگر ہم عالمی سطح پر نظر دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ Originalityکا دور دور تک کوئی شائبہ نہیں ملتا۔ کیونکہ اس حکمتِ عملی کے اصل پروفیسرس کہیں اور بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمارے افسران خصوصی دورے کرکے ان پروفیسرس حضرات سے شرفِ تلمذ حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے آئی بی کے افسران یہ سبق حاصل کرنے کے لئے اکثر تل ابیب اور واشنگٹن کے دورے کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس وقت رتی برابر بھی حیرت نہیں ہوئی جب امریکہ نے گزشتہ ہفتے ساری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ القاعدہ کے لوگ کوئی بڑا حملہ کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ جس عنوان پر 17ممالک (سب مسلم ممالک ہیں) میں امریکہ نے اپنے سفارت خانوں کو بند کردیا ، اپنے سفارتی عملے کو رخصت کردیا اور اپنے شہریوں کو متنبہ کیا کہ وہ ان ممالک میں نہ جائیں اور اگر وہ وہاں ہوں تو فوراً نکل آئیں۔ جیسے کہ توقع تھی یہ الرٹ بھی سابقہ تمام الرٹس کی طرح بوگس نکلا۔ اسی طرح دوسال قبل امریکہ کی جانب سے جاری کردہ ایک مضحکہ خیز الرٹ قارئین ابھی نہیں بھولے ہونگے جس میں کہا گیا کہ القاعدہ نے پرفیوم کے ڈبّوں والے بم تیار کئے ہیں اور ان کے ذریعہ طیاروں میں دھماکہ کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ اُس الرٹ کے نام پر ہزاروں فلائٹس رد کی گئی تھیں اور لاکھوں مسافروں کو الجھنوں کا شکار بنایا گیا تھا۔ اور پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ آج تک اس بم کا ایک نمونہ بھی کہیں برآمد نہیں ہوسکا۔
مذکورہ بالا عالمی الرٹ کے ہی طرز پر ہماری آئی بی نے جو الرٹ جاری کیا وہ بھی ایک بوگس الرٹس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ کیا اسے صرف ایک اتفاق کہا جاسکتا ہے کہ آئی بی جس گجرات میں عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر میں بری طرح گھری ہوئی ہے ، اسی گجرات میں اس نے پاکستان سے 13دہشت گردوں کے داخل ہونے اور نریندر مودی کو نشانہ بنانے کا الرٹ جاری کیا ہے؟۔ کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ جس اترپردیش میں نمیش کمیشن کی رپورٹ اورخالد مجاہد کے قتل کے معاملے میں آئی بی کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی درج ہوئی ہے وہاں نیپال کے راستے سے دہشت گردوں کے داخل ہونے اور دہشت گردانہ وارداتوں کے انجام دینے کا الرٹ جاری کیا گیا ہے؟۔ کیا ملکی داخلہ سلامتی کے نام پر آئی بی کی جانب سے جاری کردہ ان ہائی الرٹس کی بنیاد محض یہ نہیں ہے کہ آئی بی اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے اور اس کے لئے اس نے دہشت گردی کا الرٹ جاری کرکے اپنی اہمیت کو اجاگر کررہی ہے؟۔ یہ الرٹ کوئی اتفاقیہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ یہ صرف اور صرف آئی بی کی اہمیت کو ثابت کرنے اور آئی بی کی بے قصوروں کی گرفتاریوں اور انکاؤنٹروں کے الزامات کے دلدل سے نکالنے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے ، جسے ’دہشت گردی کے الرٹ‘ کے نام پر بروئے کار لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ الرٹ کے اس کھیل میں حکومتیں بھی پوری طرح ملوث نظرآتی ہیں اور قومی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں اور ادیواسیوں کو دہشت گردی اور نکسل واد کے نام پر فرضی مڈبھیڑوں میں مارنے کی مہم چلاتی ہیں۔اس کی واضح مثال 15 اگست 2000 کو لکھنؤ میں ہوا مبینہ دہشت گرد حملہ ہے، جس میں آج تیرہ سال بعد بھی حکومت ایک بھی آزاد گواہ نہیں پیش کر پائی ہے اور بے گناہ مسلم نوجوان آج بھی مقدمے جھیل رہے ہیں۔ قومی تہواروں کے موقع پر دہشت گردانہ الرٹ جاری کرنے کی روایت کئی دہوں سے جاری ہے جس کے تحت آر ایس ایس کی مسلم دشمنی کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ درپردہ یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ مسلمان آزادی کے دشمن ہیں ۔ یہ ذہنیت آر ایس ایس کی ہے جسے آئی بی نہایت ہوشیاری سے ملکی سلامتی کے نام پر ملک پر تھوپنے کی کوشش کررہی ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ قومی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں پر بری طرح خوف مسلط کردیا جاتا ہے کہ پتہ نہیں کب کسے گرفتار کرلیا جائے یا پھر دہشت گرد قرار دے کر انکاؤنٹر کردیا جائے ۔
دہشت گردی کے اس دہشت زدہ کھیل کی آئی بی کو اس لئے بھی اس بار کچھ زیادہ ہی ضرورت تھی کہ کیونکہ اس باروہ کچھ زیادہ ہی الجھنوں کی شکار ہے۔گجرات میں عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر اور اترپردیش میں خالد مجاہد قتل معاملے میں آئی بی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ اس پسِ منظر میںیومِ آزادی کے موقع پر آئی بی کی جانب سے جاری کردہ الرٹ کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعہ آئی بی اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نے ایک تیر سے دوشکار کرنے کا فارمولہ بھی اپنا لیا ہے۔ یعنی کہ اس عمومی وخصوصی الرٹ سے جہاں ملک میں پائی جانے والی مسلم دشمنی کو بڑھاوا دینے کی کوشش ہوئی ہے وہیں ملک کے سامنے اپنی اہمیت کوبھی واضح کیا ہے کہ اگر آئی بی کے عہدیداران سے کسی طرح کی کوئی پوچھ تاچھ ہوتی ہے جس سے آئی بی کا مورال ڈاؤن ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو دیش کے لئے خطرہ بڑھ جائے گا۔ گویا آئی بی نے ملک اور اس عظیم جمہوریت کو یرغمال بنانے کا کا زبردہت ہتھکنڈا اپنایا ہے جوبدقسمتی سے ملک کی اندرونی سلامتی کے نام پر دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔اب یہ ظاہرسی بات ہے کہ ملکی سلامتی کے معاملے میں نہ تو حکومتوں کے اندر اتنی ہمت ہے کہ وہ آئی بی سے کوئی بازپرس کریں اور نہ ہی میڈیا کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ الرٹ کی اس فکشن سازی پر کوئی سوال کھڑا کرے۔ یوں بھی میڈیا بھلا اس معاملے کو کیوں اہمیت دے جو اس کی درپردہ پالیسی کے عین مطابق ہو۔
جواب دیں