امتیاز، تعصب کا رونا اور شکوہ کب تک!

اب تک جتنے بیانات، تبصرے اور مضامین نظروں سے گزرے اس میں مسلم طالب علم کے ساتھ تعصب پرستی، امتیازی سلوک پر جی بھر کر بھڑاس نکالی گئی ہے۔ یقیناًہر ایک کے اپنے جذبات ہیں۔ مگر اس واقعہ میں اللہ رب العزت کی شان‘ اس کی حکمت، اپنے بندے کو نوازنے کے نرالے انداز کو دیکھنے اور سمجھنے کی شاید ہی کسی نے کوشش کی ہو۔ ہم نے بزرگوں سے سنا بھی، کتابوں میں پڑھا بھی اور اب آئے دن مشاہدات بھی ہورہے ہیں کہ تخریب میں ہمیشہ تعمیر پنہاں ہوتی ہے۔ اس سے پہلے بھی راقم الحروف نے اس کالم میں لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو عروج عطا کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے اس کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ ایک لمحہ کے لئے سوچئے، غور کیجئے… اگر احمد کو بم سازی کے شبہ میں گرفتار نہ کیا جاتا تو اس کے حق میں رائے عامہ ہموار نہ ہوتی۔ عالمی برادری اس کیلئے اٹھ کھڑی نہ ہوتی۔ بارک اوبامہ کو کشادہ دلی ظاہر کرنے کا موقع نہ ملتا۔ فیس بک کے موجد تک احمد کی رسائی نہ ہوتی۔ راتوں رات ایک غریب سوڈانی لڑکا کروڑپتی نہ بن پاتا۔
محمد احمد کے ساتھ امتیازی سلوک‘ تعصب اپنی جگہ‘ اس کا راتوں رات عالمی سطح پر چھاجانا… اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے۔
جب جب کسی کے ساتھ ناانصافی کی گئی، تعصب برتا گیا، اسے کچلنے، دبانے، مٹانے کی کوشش کی گئی… وہ اتنا ہی ابھرتا گیا… اس کی ایک حالیہ مثال محمد علی کلے ہیں۔ انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں اسلام قبول کیا تھا۔ کیسس کلے سے محمد علی کلے بن گئے… مسلم دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہوگئے۔ تاہم 1966-67ء میں ویتنام کی جنگ میں امریکہ کی جانب سے حصہ نہیں لیا تو انہیں قید میں ڈال دیا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے تاریخ ساز مقابلہ میں کامیابی حاصل کی اور دنیا نے انہیں اپنی پلکوں پر بٹھالیا جس امریکی حکومت نے انہیں سزا دی‘ اس نے انہیں اعزازات عطا کئے۔ اور پھر محمد علی کلے اس مقام پر پہنچے جہاں تک شاید ہی کوئی اور اسپورٹسمین پہنچ پائے گا۔
لاس اینجلس اولمپکس کے افتتاح کے لئے جب مشعل روشن کرنے کے لئے اچانک ان کے نام کا اعلان کیا گیا تو فرط مسرت سے صدر کلنٹن کی آنکھ میں تک آنسو چھلک آئے تھے۔ عالمی تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ وہ اقوام آخرکار غالب رہیں جو جبر و ستم کا شکار رہیں جن کے ساتھ امتیاز برتا جارہا۔ یہ قانونی قدرت ہے کہ ظالم کو ایک نہ ایک دن زوال ہوتاہی ہے اور وہ مظلوم کے آگے دست سوال دراز کرنے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے۔
ایک بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے‘ ناانصافی امتیازات‘ تعصب کا رونا ہم بہت رو چکے ہیں… حقائق کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔
محمد احمد کو بارک اوبامہ نے وائٹ ہاؤس کیوں مدعو کیا۔ مارک ذکر برگ نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیوں کیا۔ اس لئے کہ وہ مسلمان ہے‘ یا پھر اس لئے کہ امریکی پولیس نے تعصب برتا۔
محمد احمد کی جو تعریف کی گئی‘ عالمی برادری نے اس کی حمایت میں کھڑا ہونے کا اعلان اس لئے کیا کہ محمد احمد ایک ہونہار طالب علم ایک ابھرتا سائنسداں ہے… اگر وہ واقعی بم ساز ہوتا تو خود مسلمان بھی اس کی حمایت میں ایک حرف تک نہیں نکالتے۔ چوں کہ وہ باصلاحیت نوجوان ہے‘ جس نے اپنی ایجاد سے اپنے مستقبل کو روشن بنانے کے عزائم کا اظہار کیا۔ اس لئے دنیا اس کی تائید میں اٹھ کڑی ہوئی۔ بارک اوبامہ اور فیس بک کے موجد کو اس بات کا اندازہ اور احساس ہے کہ محمد احمد کی اگر صحیح انداز میں سرپرستی کی جائے اس کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے فروغ دیا جائے‘ ان کا صحیح استعمال کیا جائے تو وہ ملک اور قوم کا اثاثہ بن سکتا ہے۔ اس کی اپنی ذات کو اتنا فائدہ شاید نہ پہنچتے جتنا فائدہ وہ امریکہ اور فیس بک جیسے اداروں کو پہنچا سکتا ہے۔
محمد علی کلے ہو یا برطانیہ کے عامر خان، انہیں عزت کیوں ملی‘ اس لئے نہیں کہ وہ مسلمان ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے پاس وہ صلاحیتیں رہیں جن سے وہ اپنے ملک کے پرچم وقار کو سربلند کرتے رہے۔ ایک مثال ناصر حسین کی بھی ہے‘ جنہوں نے انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیازات کی شکایت اپنی جگہ مگر تعصب پرستوں کے ملک ساؤتھ افریقہ کی ٹیم کی قیادت ایک متقی پرہیزگار مسلمان ہاشم آملہ کررہے ہیں۔ عمران طاہر بھی ٹیم میں ہیں‘ ایک اور کھلاڑی نے اسلام قبول کیا۔ اس کے باوجود ٹیم میں نہ تو ان کے ساتھ تعصب ہے اور نہ ہی امتیاز… بلکہ جب کامنٹیٹر ڈین جونز نے از راہ مذاق ہاشم آملہ کو دہشت گرد کہا تو ان کے خلاف کارروائی کی گئی اور کامنٹیٹر کی حیثیت سے ان کی خدمات واپس لے لی گئیں۔ انگلینڈ کی ٹیم میں ایک اور باریش متقی پرہیزگار مسلم کھلاڑی معین علی شامل ہیں۔ عادل رشید بھی ہیں۔ حال ہی میں انگلینڈ کی ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف کامیابی حاصل کی تو کھلاڑیوں نے جشن منایا شیمپئن کی بوتل نکالی مگر وہ معین علی کے پویلین واپس جانے کا انتظار کرتے رہے جیسے ہی معین علی اندر گئے انہوں نے شیمپئن سے ہولی کھیلی۔ یہ دنیا کے ہر خطہ میں صلاحیتوں کی قدر دانی ہے۔ آزاد ہندوستان میں یقیناًمسلمانوں کو ہر شعبہ حیات میں مسائل سے دوچار کیا گیا مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکے گا کہ فوج ہو یا پولیس‘ ایوان انصاف ہو یا قانون سازی‘ کھیل کامیدان ہو یا سائنس و ٹکنالوجی کا شعبہ باصلاحیت مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لفٹیننٹ جنرل ذکی کو اشوک ویر چکر ہو یا حوالدار عبدالحمید کو پرم ویر چکر‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے عہدہ پر جسٹس احمدی کا تقرر ہو یا چیف الیکشن کمشنرس یا ملک کے مختلف شہروں کے پولیس کمشنرس کے عہدوں پر مسلمان کے تقررات‘ ہندوستانی کرکٹ، ہاکی، فٹبال، ٹیم کی قیادت کی علمبردار جب جب باصلاحیت مسلمان سامنے آئے… تب تب انہیں ملک وقوم نے اپنی پلکوں پر بٹھایا۔
امریکہ، برطانیہ، ہو یا ہندوستان یا کوئی اور ملک صلاحیتوں کو کچلا نہیں جاسکتا۔ اگر کوئی باصلاحیت انسان نظر انداز ہوتا ہے تو محض اپنی نادانی، تساہلی سے یا اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے فن سے عدم واقفیت کی وجہ سے۔
محمد رفیع ہو یا نوشاد، استاد بسم اللہ خان ہو یا استاد اللہ رکھا یا ذاکر حسین… یا اے آر رحمن انہیں ان کے مذہب کی اساس پر نہیں بلکہ ان کے فن اور صلاحیتوں کی بناء پر عزت، شہرت، دولت اور اعزازات ملیں۔ صلاحیتوں کی بناء پر مقام پیدا کرنے کے معاملے میں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے زیادہ بہتر مثال اور کس کی ہوسکتی ہے۔ ایک مدرسے کا طالب علم… غربت کے اندھیروں سے نکل کر ہندوستان کو روشنی دینے کی تمنا لے کر تاملناڈو کے ایک موضع سے نکلے… میزائل میان، بھارت رتن، ملک کے صدر جمہوریہ کے عہدہ تک پہنچے۔ دنیا سے گذرے بھی تو تاریخ کے اوراق اور عوام کے دلوں میں ہمیشہ کیلئے اپنی جگہ محفوظ کرگئے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ تعصب برتا نہیں جاتا‘ ہر مقام پر اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ساتھ یہ امتیاز کیوں برتا جاتا ہے۔ ہمیں دنیا شک و شبہ کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے… ہم سے خوف زدہ کیوں رہتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے خود اپنے آپ کو ایسا بنالیا کہ لوگ ہمیں دیکھ کر خوف کھانے لگے۔ ورنہ ایک دور ہم نے ایسا بھی دیکھا جب مسجدوں کے باہر غیر مسلم مرد و خواتین اپنی گود میں بچوں کو لئے قطار میں کھڑے نظر آتے تاکہ ’’مولوی صاحب باہر نکلیں تو وہ بچے کے سینے پر پھونک ماریں تاکہ وہ بلاؤں، آفتوں سے محفوظ رہ سکیں۔اب بھی بزرگان دین کے آستانہ پر بلالحاظ مذہب و ملت لوگ آتے ہیں‘ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے انسانیت کی تعلیم دی… پھر آج ہمارے متعلق خیالات‘ نظریات کیوں بدل گئے۔ شاید اس لئے کہ انسانیت کی تعلیم دینے والوں نے اپنی دکانداری کیلئے ایسی تعلیم دینی شروع کردی جو انسانیت کے منافی ہے۔ ایک طرف امریکہ، یوروپ اور دیگر ممالک میں اللہ کے بندوں نے اللہ کے دین کو عام کرنے کے لئے ہر قسم کے مصائب و مسائل کاسامنا کیا دوسری طرف ان ہی ممالک کی مساجد میں ائمہ اور علماء کے بھیس میں ’’جہلاء‘‘ نے نفرت، تشدد کا پرچار کیا۔ محض اس لئے کہ اپنی قوم کے معصوم نوجوانوں پر ان کی گرفت برقرار رہ سکے تاکہ وقت ضرورت وہ انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرسکیں۔ یہی حال ہندوپاک، بنگلہ دیش میں ہے۔ جہاں علماء کی کمی نہیں تاہم جو واقعی عالم دین ہیں‘ واقعی اسلام اور انسانیت کی تعلیم کو عام کرسکتے ہیں‘ وہ زیادہ فعال اور کارکرد نہیں ہیں۔ 
بات نکلی تھی محمد احمد کی اور کہاں سے کہاں تک چلی گئی۔ کہنے کا مطلب یہی ہے کہ اگر ہم میں صلاحیت ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کچل نہیں سکتی۔ ہم رونا روتے ہیں کہ پولیس، فوج، سرکاری ملازمتوں میں ہماری تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے اس بات کا جائزہ لیجئے کہ کیا مسلم نوجوان پولیس، فوج، نیوی، ایرفورس کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں‘ کیا اپنی صحت جسمانی کی اساس پر وہ اس کسوٹی پر اترتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں تقررات کیسے ہوں گے۔ مسابقتی امتحانات میں شریک ہونے کی عادت ہی نہیں ہے۔ تیاری کے ساتھ امتحان دیں گے‘ انٹرویو میں حصہ لیں گے تو تقرر بھی ہوگا۔ اس کے بغیر ہی تناسب میں کمی کا رونا، امتیازی سلوک کا شکوہ کیسا…

کیوں کہ ان کے پاس وسائل نہیں اور نہ ہی وسائل حاصل کرنے کا فن۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مقابلے میں مذہبی ٹھیکیداری کے تجربہ کار ’’جہلاء‘‘ مسلم معاشرہ پر غالب ہیں جو اپنے مفادات کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ قوم کی سوداگری سے لے کر قوم کے جذبات کے کھلواڑ تک سب کچھ ظاہر ہے ان جیسوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والوں کے بارے میں غیروں کی رائے کیا ہوگی۔

«
»

مسلمانوں کے نام ،قربان شدہ بکرے کا ای میل

الٰہی یہ تیرے مولوی بندے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے