ادھر مؤقر انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے گزشتہ دنوں ایک سلسلہ وار رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق 16مئی یعنی پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے اعلان سے لے کر 25جولائی تک صرف اتر پردیش میں چھوٹے بڑے 600فرقہ وارانہ فساد ہوچکے ہیں ان میں تقریباًنصف یعنی 259،ان12اسمبلی حلقوں میں ہوئے ہیں جہاں ضمنی الیکشن ہونے والے ہیں کیونکہ وہاں کے ممبران اسمبلی ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوچکے ہیں ۔ ان فسادات کی وجہ بھی خاص مضحکہ خیز رہی ہے مثلاً دو موٹر سائیکل سواروں میں ٹکر ہوگئی اور ان میں سے ایک ہندو ایک مسلمان ہواتو اس واقعہ نے بھی فرقہ وارانہ رخ اختیار کرلیا کیونکہ دونوں طرف سے خدائی فوجدار ،مدد اور حمایت کے لئے پہونچ جاتے ہیں فساد کی ایک بڑی وجہ ہے مندروں اور مسجدوں پر لگے لاؤڈ اسپیکر بن گئے ہیں جس کی بدترین صورتحال مردآباد ضلع کے کانٹھ قصبہ میں سامنے آئی اس کے بعد سے تو جیسے اس معاملے کو لے کر ہنگاموں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور اب تک تقریباً200فساد لاؤڈ اسپیکر کو لے کر ہوچکے ہیں ۔
سہارنپور اور میرٹھ کے واقعات میں مسلمانوں کی غلطی کھل کر سامنے آچکی ہے ۔سہانپور میں محرم علی عرف پپو نام کے شخص نے جان بوجھ کر ہنگامہ کرایا ۔ اطلاعات کے مطابق محرم علی مافیا ٹائپ کا آدمی ہے جس کا کام زمین کے تنازعات حل کراکے پیسہ اینٹھنا ہوتاہے ۔بتایاجاتاہے کہ جہاں تنازعہ نہیں بھی ہوتاتھا تو وہ وہاں بلاوجہ کی مقدمہ بازی شروع کراکے تنازعہ پیداکردیتاتھااورپھر مصالحت کے نام پر پیسہ اینٹھتا تھا ، یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ گرودوارہ اور مسجد کا تنازعہ حل کرانے کے لئے اس نے گرودوارہ پربندھک کمیٹی سے 25لاکھ کا سوداکیاتھا مگر اسے صرف 15لاکھ ہی ملے جس پر اس نے ہنگامہ کرادیا جس میں 6لوگ ہلاک اور کروڑوں کی املاک کا نقصان ہوا ۔ ان خبروں کی صداقت توعدالت کے فیصلہ سے ہی سامنے آئے گی لیکن سہارنپور میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان فساد ہونے کامطلب مسلمانوں نے ایک دوسرے اقلیتی فرقہ سے بلاوجہ دشمنی مول لے لی ۔ اس معاملہ میں تھوڑی فہم و فراست دکھائی جاتی تو معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوسکتا تھا۔
میرٹھ میں جو کچھ ہواوہ بے حد شرمناک ہے اور اب تک کی اطلاعات میں بھی مسلمانوں کی غلطیاں سامنے آرہی ہیں معاملہ کی سی بی آئی یا عدالتی جانچ ہونی چاہئے اور اصل مجرموں سے وہ کوئی بھی ہوں اور کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں کوئی ڈھلائی نہیں برتی جانی چاہئے ۔ اگر مسلمان صبروتحمل سے کام نہ لے کر بے عقلی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ اجتماعی خود کشی اور دشمنی کے جال میں جان بوجھ کر پھنسنے کے علاوہ اور کیا ہے ۔
یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ مذہبی بنیاد پر گول بندی (polarisation)کازبردست سیاسی فائدہ بی جے پی اٹھاچکی ہے اور وہ اسے جاری رکھناچاہتی ہے ۔مہاراشٹر میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اور وہاں بھی چھوٹے بڑے 200واقعات فرقہ وارانہ نوعیت کے ہوچکے ہیں دوسری جانب بی جے پی مہاراشٹر میں حکمراں کانگریس اور یوپی میں حکمراں سماج وادی پارٹی پر مسلمانوں کی منہ بھرائی اور تنازعہ کی صورت میں مسلمانوں کے حق میں یکطرفہ کارروائی کرنے الزام لگائی ہے مگر سیاسی فائدہ کسے ہورہاہے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور جسے سیاسی فائدہ ہورہاہے وہ وہ اس روش کو چلائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اب یہ دوسروں کے فہم و تدبر پر منحصر ہے کہ ان کی آگ پر پانی ڈالتے رہیں اور ان کے منصوبوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
جواب دیں