عمارت کی فکر، انسان کی نہیں؟

عثمانیہ ہاسپٹل یقیناًدور آصفجاہی کی یادگار ہے۔ بلاشبہ فن تعمیر کا یہ شاہکار ہے۔ تاہم جن مقاصد کے ساتھ آصف جاہی حکمرانوں نے اس عظیم ہاسپٹل کی عمارت تعمیر کروائی تھی‘ آندھراپردیش کی تاسیس کے بعد سے جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے اس پر توجہ نہیں دیں۔ عثمانیہ ہاسپٹل کی عمارت محض ایک ہیریٹیج بلڈنگ بن کر رہ گئی۔ جس طرح گنبدانِ قطب شاہی عیاشی کے مرکز بن گئے تھے اسی طرح عثمانیہ ہاسپٹل زندہ انسانوں کا قبرستان بن کر رہ گیا ہے۔ صفائی، ستھرائی کبھی ہوا کرتی ہوگی‘ گندگی موسیٰ ندی کا تعفن، مریضوں کو موت سے قریب کرنے اور تیمارداری کرنے والوں کو مریض بنانے کا سبب بنتا۔ مردہ خانہ سے آوارہ کتے نعشوں کو کھینچ کر باہر لے آتے۔ جنرل وارڈس کتوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ چند ہی مہینے پہلے اس کی تصاویر اخبارات میں بھی شائع ہوئیں اور سوشیل میڈیا پر بھی گشت کی گئیں۔ غریب بے سہارا مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حال ہی میں تلنگانہ کے وزیر صحت لکشما ریڈی نے جائزہ لینے کے بعد عثمانیہ ہاسپٹل کا دورہ کیا۔ این کی آنکھوں کے سامنے دواخانے کے ورانڈے پہ دم توڑتا ہوا مریض موجود تھا جسے نظر انداز کرکے وزیر موصوف نکل گئے۔ ہاسپٹل کے بیشتر حصوں پر غیرمتعلقہ افراد قابض نظر آتے ہیں۔ کرپشن کا سب سے بڑا مرکز یہ ہاسپٹل بن چکا تھا۔ سیکوریٹی گارڈ، سے لے کر مختلف سطحوں تک ’’گاندھی چھاپ‘‘ کے عادی ہوچکے تھے۔ ملاقات کے اوقات ہو یا اس کے بعد مٹھی گرم کئے بغیر مریضوں سے ملاقات کے لئے غریب آدمی بالخصوص خواتین اندر نہیں جاسکتیں۔ حادثات کے زخمی ہو یا کسی اور مرض کے شکار ان کے ساتھ کس قدر بے رحمانہ سلوک کیا جاتا، اس کے بارے میں بار بار اخبارات میں شائع کیا گیا مگر کس کے خلاف کون کاروائی کرتا۔ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی رہی ہو‘ انہوں نے تو جان بوجھ کر سرکاری دواخانوں کو ایسا بنادیا کہ غریب سے غریب انسان بھی جسے ذرا سی بھی جینے کی تمنا ہے وہ پرائیویٹ ہاسپٹل کی طرف رخ کرنے لگا۔ حکومتوں اور اس سے وابستہ عناصر ہی کی منصوبہ بندی کے نتیجہ میں گورنمنٹ ہاسپٹلس کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی گئی اور شہر میں پرائیویٹ ہاسپٹلس اور اس کے بعد کارپوریٹ ہاسپٹلس کا جال پھیلتا گیا۔ عثمانیہ ہاسپٹل، گاندھی ہاسپٹل، گورنمنٹ میٹرنیٹی ہاسپٹل کوٹھی، سروجنی دیوی آئی ہاسپٹل، ای این ٹی ہاسپٹل، نیلوفر ہاسپٹل، مہدی نواز جنگ کینسر ہاسپٹل، فیور ہاسپٹل (کورنٹی)، گورنمنٹ یونانی ہاسپٹل (نظامیہ) کی حالت دیکھئے۔ ان کی عمارتیں یقیناًشاندار ہیں‘ گاندھی ہاسپٹل کی حالت پھر بھی بہتر ہوئی ہے تاہم نیلوفر ہاسپٹل اور دوسرے سرکاری دواخانے اپنی سہولتوں کے فقدان بیشتر ڈاکٹرس کی لاپرواہی کی وجہ سے ہمیشہ سے تنقید کا شکار رہے ہیں۔ یہ تنقید کبھی بھی بیجا نہیں رہی۔ اکثر و بیشتر گورنمنٹ ہاسپٹلس سے وابستہ ڈاکٹرس کی اپنی پرائیویٹ پریکٹس ہے‘ غریب اور متوسط مریضوں سے جو کارپوریٹ ہاسپٹل کی فیس دینے کے قابل نہیں ہوتے ان سے وہ قدر کم فیس اپنے ہاسپٹل میں لیتے ہیں اور سرجری کیلئے گورنمنٹ ہاسپٹلس کے آپریشن تھیٹرس کا استعمال کرتے ہیں۔ یا پھر انہیں کارپوریٹ ہاسپٹلس سے رجوع کرتے ہیں جہاں ایک جان بچانے کے لئے کبھی کبھی پورے خاندان کو اپنے مستقبل کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
عثمانیہ ہاسپٹل کو بہتر بنانے کے لئے 100کروڑ روپئے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جس کے تحت عمارت کی تعمیر و مرمت کے لئے 28کروڑ روپئے اور عصری آلات کی خریدی کے لئے 72کروڑ روپئے منظور کئے گئے تھا تاہم یہ منصوبہ کاغذات تک محدود رہ گیا۔
کارپوریٹ سیکٹر نے جب سے ہیلت کےئر کے شعبے میں قدم رکھا ہے تب سے گورنمنٹ ہاسپٹلس میں معیاری علاج کا تصور ہی ختم ہوگیا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں پرائیویٹ ہیلت کےئر سسٹم ہی کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ہے جو سہولتیں سرکاری ہاسپٹلس میں فراہم کی جانی چاہئے تھیں‘ وہ پرائیویٹ یا کارپوریٹ ہاسپٹلس کو فراہم کی جارہی ہیں۔ جو سبسیڈی پرائیویٹ ہاسپٹلس کو حکومتیں مہیا کررہی ہیں جیسے آروگیہ شری اور دوسری ہیلت انشورنس جیسی اسکیموں پر جو رقم پرائیویٹ ہاسپٹلس کو دی جارہی ہے وہی رقم اگر گورنمنٹ ہاسپٹلس میں علاج و معالجہ کی سہولتیں فراہم کرنے، انفراسٹرکچر کی فراہمی، عمارتوں کو بہتر بنانے، فری میڈیسن پر خرچ کی جاتی تو ان حکومتوں کے عوام دوست ہونے کے دعوے کو قبول کیا جاسکتا۔ مرکزی ہو یا کسی بھی ریاست کی حکومتیں ان سب نے پواپیویٹ سیکٹر کو ہی پروان چڑھایا ہے چنانچہ ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج آف انڈیا کے جرنل آف مینجمنٹ کے لئے پی ایچ راؤ کے ایک تحقیقاتی مضمون کے مطابق آزادی کے وقت پرائیویٹ ہیلت کےئرس سسٹم کے تحت ہندوستان کی آبادی کا پانچ تا دس فیصد حصہ استفادہ کرتا تھا جبکہ اب 73% آبادی پرائیویٹ ہیلت کیئر سسٹم کو اختیار کرنے کیلئے مجبور ہے۔ شہری علاقوں میں 70فیصد اور دیہی علاقوں میں 63فیصد آبادی پرائیویٹ ہاسپٹلس سے رجوع ہونے کے لئے مجبور ہے۔ اس کی وجہ ڈاکٹرس کی لاپرواہی، اکثر و بیشتر غیر حاضری، دواؤں کی قلت، مریضوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک، ہاسپٹلس کے حدود میں گندگی، وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اس کے برعکس کارپوریٹ سیکٹر کے تحت قائم سوپر اسپیشالٹی ہاسپٹلس نے علاج و معالجہ کے ساتھ ساتھ صحت سے متعلق شعور کو بیدار کرنے کی تحریکات شروع کی ہیں۔ باقاعدہ مارکیٹنگ اور مختلف طریقوں سے سرکاری اور خانگی اداروں سے معاہدات کے ذریعہ عوام کی اکثریت کو وہ اپنا عادی بنارہی ہیں۔ حکومتیں کارپوریٹ سیکٹر یا پرائیویٹ سیکٹر کو ہاسپٹل کے قیام کے لئے رعایتی دام پر اراضی بھی الاٹ کردیتی ہے اور سرکاری و مرکزی اداروں سے معاہدات کرتے ہوئے اپنے ملازمین کے علاج و معالجہ، اخراجات کو ادا کرتی ہے‘ سفید راشن کارڈ سے استفادہ کرنے و الوں کیلئے جو مصارف ہوتے ہیں وہ بھی پرائیویٹ سیکٹر کو ہی حاصل ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق راجیو گاندھی آروگیہ شری اسکیم کے تحت 800کروڑ روپئے متحدہ ریاست آندھراپردیش کے پرائیویٹ ہاسپٹلس کو ادا کی گئی۔
ہندوستان آج غریب ملک نہیں رہا۔ یہ ایک خوش فہمی ہے۔پورے ملک کی دولت مٹھی بھر افراد اور چند گھرانوں کے پاس ہے۔اکثریت اب بھی سطح غربت سے نیچے رہتی ہے۔ ناقص خوراک آلودہ پینے کا پانی اب بھی خواتین اور بچوں کی اموات کا سبب ہے۔حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں 3سال کی عمر سے کم 60فیصد سے زائد بچوں کو اب بھی اچھی خوراک نہیں ملتی جو افریقی صحرائی علاقوں میں بسنے والے غریب بچوں کی شرح سے 28فیصد زیادہ ہے۔ سمجھا جاتا ہے دنیا کے ہر تین بچوں میں سے ایک ہندوستان میں رہتا ہے جسے مناسب خوراک نہیں ملتی۔جس سے ہماری معاشی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خواتین میں خون کی کمی عام ہے۔ موٹاپا، امراض قلب ،کینسر اور اب ہیپاٹائٹس بتدریج عام ہونے لگے ہیں۔ آیوڈین کی کمی جس سے ذہنی اور جسمانی امراض پیدا ہوتے ہیں وٹامن A کی کمی جس سے جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے اور بینائی متاثر ہونے لگتی ہیں۔ یہ مرض ایک منصوبہ بند طریقے سے پھیلائے جاتے ہیں۔کھانے پینے کا جو نیا کلچر بالخصوص فاسٹ فوڈ، چائنیز، سوفٹ ڈرنکس، انرجی ڈرنکس ک متعارف کیا گیا ہے جس سے شہری اور دیہی علاقوں کے عوام بالخصوص نئی نسل عادی ہورہی ہے اس کے نتیجہ میں مختلف بیماریاں بالخصوص موٹاپا، ذیابطیس اور امراض قلب عام ہورہے ہیں جو کارپوریٹ سیکٹر کے ہاسپٹلس کی آمدنی کا اصل ذریعہ ہے۔
عثمانیہ ہاسپٹل کبھی تعمیر کیا گیا تھاتو موسیٰ ندی میں صاف اور شفاف پانی بہتا تھا‘ یہ ایک پُرفضا علاقہ تھا اب موسیٰ ندی میں صرف گندگی بہتی ہے اوراس کے کنارے ہاسپٹل کی موجودگی مریضوں پر ظلم ہے۔ عمارت کو محض آصفجاہی دور کی یادگارکھنڈر کے طور پر رکھ کر ماضی کی عظمتوں پر فخر یا افسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہاں مریضوں کو رکھا جانا مناسب نہیں۔ جو حضرات عمارت انہدام کے خلاف تحریک چلارہے ہیں‘ وہ عمارت کے اندرونی حالت کو بہتر بنانے اور عمارت سے زیادہ انسانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کرے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے