اپنے پیشے کو مذہب سمجھنے والے صحافی اس قسم کی باتوں سے نہیں ڈرتے اور ہم جیسے لوگ تو اس قوت حاصل کرتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ اردو صحافت اپنا اثر کھوچکی ہے مگر جب ہمیں کوئی گالیاں دیتا ہے، دھمکاتا ہے تو احساس ہوتا ہے اب بھی اردو صحافت میں جان ہے اور اس کا اثر باقی ہے۔ حال ہی میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں صحافیوں کو مارڈالاگیا۔ اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ وہ بکنے کے لئے تیار نہیں تھے اور ایمانداری سے اپنی آواز بلند کرنے میں لگے ہوئے تھے جس کے سبب پہلے انھیں جھوٹے مقدموں میں پھنسانے کی کوشش ہوئی اور پھر قتل کردیا گیا۔اگر وہ بک جاتے تو مالا مال ہوجاتے جیسا کہ میڈیاکا ایک طبقہ کرتا ہے اور صحافت کے نام پر بلیک میلنگ کا دھندہ چلاتا ہے۔موت کو گلے لگاکر صحافت کے وقار کو بلند کرنے والے دوصحافیوںکے نام اس وقت میڈیا میں آرہے ہیں جن میں سے ایک مدھیہ پردیش کے سندیپ ہیں جنھوں نے کان کنی مافیا کے خلاف لڑتے ہوئے جان دیدی اور دوسرے جگیندرہیں جو اترپردیش کے ایک وزیر کے سیاہ کرتوتوں کو سامنے لانے کی کوشش میں جان گنوا بیٹھے۔ ان دونوں معاملات میں مشترک پہلو یہ ہے کہ قاتلوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔
سندیپ کا معاملہ
کان کنی اور زمین مافیا کی طرف سے جلا کر ہلاک کئے گئے بالاگھاٹ کے صحافی سندیپ کوٹھاری کی موت کی تحقیقات سی بی آئی سے کرائے جانے کی مانگ کو ریاست کے وزیر داخلہ بابو لال گوڑ نے ٹھکرا دیا۔ بالاگھاٹ ضلع انتظامیہ بھی سندیپ کو مجرم بتانے پر تلا ہوا ہے۔سندیپ کے قتل کے فوری بعد ضلع کے ایس پی نے کوٹھاری کا کرائم ریکارڈ میڈیا کو بھیجا تھا۔ ضلع کے کلکٹر نے بھی سندیپ کو مجرم قرار دیتے ہوئے ضلع کے صحافیوں کی طرف سے دی جا رہے میمورنڈم کو ہی لینے سے ہی انکار کر دیاتھا۔دوسری طرف وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان اس پورے معاملے پر خاموش ہیں۔اس درمیان یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ سندیپ کے قتل کے معاملے میں بالاگھاٹ پولیس جو تیاری دکھا رہی ہے، وہ صحافی کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے لئے نہیں بلکہ اصلی مجرموں کو بچانے کے لئے ہے۔ اس معاملے میں پولیس نے جن دو افراد کو پکڑا ہے، ان کے بیان کئی سوال کھڑے کرتے ہیں۔ سندیپ کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے جن تین لوگوں کے نام عام کئے ہیں، ان کے علاوہ کئی دیگر لوگ اس قتل میں شامل ہیں۔دوسری طرف سندیپ کے قتل پر ریاستی حکومت اور پولیس کے رویہ کو لے کر مدھیہ پردیش کے صحافی انتہائی ناراض ہیں۔بھوپال میں صحافیوں نے بالاگھاٹ کے کلیکٹر کو فوری طور پر ہٹانے اور قتل کے بعد سندیپ کا کرائم ریکارڈ میڈیا کو بھیجنے والے پولیس افسر کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔صحافیوں نے وزیر اعلی سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اس پورے معاملے کی جانچ بالاگھاٹ کے بجائے کسی دوسرے ضلع کی پولیس سے کرائی جائے۔ اس کے علاوہ وزیر اعلی شیوراج سنگھ کو ایک میمورنڈم بھی دیا گیا جس میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون بنانے کی مانگ کی گئی ہے۔غورطلب ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں ریاست میں نصف درجن صحافی کان کنی مافیا کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔بالاگھاٹ ضلع کان کنی مافیا کے لئے انتہائی حساس ہے۔ ایک طرف وہاں معدنیات بہ کثرت پائے جاتے ہیں، وہیں دوسری طرف رسوخ والے لوگ اور نیتا کانوں کے مالک ہیں۔سندیپ کوٹھاری طویل عرصے سے معدنی مافیا کے خلاف مہم چلے رہے تھے۔
اکھلیش سرکار جواب دے
ادھر اترپردیش میں لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا اکھلیش سرکار اپنے قاتل وزیر کو بچانے میں لگی ہے؟ کیا اترپردیش میں سماج دشمن عناصر وزارتوں پر قابض ہوکر سماجی دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور ریاست کو لوٹ رہے ہیں؟ کیا شاہجہاں پور کے سوشل میڈیا صحافی جگیندر کو انصاف ملے گا اور اس کے قاتلوں کی گردن میں انصاف کا پھندا لگے گا؟کیا اکھلیش سرکار اپنے ہی وزیر کو کیفر کردار تک پہنچائے گی یا پھر اس سنگین معاملے کو اسی طرح دبا دیا جائے گا جس طرح ماضی میں یہاں ہوتا رہا ہے؟آخر کیا سبب ہے کہ جگیندر کے قتل کے ملزم وزیر رام مورتی ورما کو وزارت سے ہٹایا نہیں جا رہاہے ،حالانکہ موت سے پہلے صحافی نے اس کا نام لیا تھااور اپنی موت کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا
تھا؟کیا یوپی میں واقعی غنڈہ راج چل رہاہے جہاں انصاف کی امید فضول ہے؟ آج یہ سوال ہم نہیں اٹھا رہے ہیں بلکہ اترپردیش میں ہر شہری کی زبان پر ہے۔ حال ہی میں شاہجہاں پور کے ایک صحافی نے مرتے ہوئے اپنی موت کے لئے اکھلیش سرکار کے ایک وزیر کو ذمہ دار ٹھہرایا جس نے مبینہ طور پر پولس والوں کو بھیج کر اسے زندہ جلوایا۔ باوجود اس کے اس وزیر کو گرفتار کرنا تو دور اکھلیش نے اپنی کابینہ سے ہٹانا تک ضروری نہیں سمجھا۔ یوپی میں اس پر سیاست تیز ہوگئی ہے اور کانگریس نے معاملے کی سی بی آئی سے نکوائری کا مطالبہ کیا ہے جب کہ ایک این جی او نے الہ آباد ہائی کورٹ میں جاکر درخواست کی ہے کہ سی بی آئی کے ذریعے معاملے کی انکوائری کرائی جائے۔دوسری طرف ریاستی حکومت مجسٹریٹ کے ذریعے اس کی جانچ کرا رہی ہے مگر اس سے مقتول کے اہل خانہ مطمئن نہیں دکھائی دیتے۔ حال ہی میں فورنسک ٹیم نے بھی سائنسی طریقے سے جانچ کی مگر اس کی طرف سے جس قسم کے بیانات آئے اس سے لگتا ہے کہ وزیر اور اس کے پولس والے گرگوں کو بچانے کی کوشش ہورہی ہے۔قاتلوں اور اس کی سازش کرنے والوں کے خلاف سب سے اہم ثبوت خود مقتو ل کا بیان ہے جو اس نے میڈیا اور پولس دونوں کے سامنے دیا تھا۔
موت سے قبل میڈیا کے سامنے بیان
یوپی کے شاہ جہاں پور میں مبینہ طور پر یوپی کے پسماندہ طبقے کی فلاح و بہبود کے وزیر رام مورتی ورما کے خلاف لکھنے پر زندہ جلائے گئے صحافی جگیندر سنگھ کا موت سے پہلے کا انتہائی دردناک ویڈیو سامنے آیا ہے۔ ویڈیو میں بری طرح جلے ہوئے جگیندر بتا رہاہے کہ کس طرح شاہ جہاں پور کے کوتوال نے پانچ چھ پولس والوں کے ساتھ مل کر اسے زندہ جلایا۔ جگیندر ویڈیو میں درد سے کراہتے ہوئے کہتا ہے کہ، مجھے پیٹ دیتے، زندہ کیوں جلایا؟جگیندر کا یہ ویڈیو سوشل سائٹوں پر وائرل ہے۔ ویڈیو میں وہ کہہ رہا ہے، شری پرکاش رائے (تھانہ انچارج) اور پانچ چھ پولیس والے دیوار پھاندکر اندر گھس آئے تھے۔سب لوگ پستول تانے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے پہلے بہت مارا اور پھر پٹرول ڈال کر آگ لگا دی۔درد سے بری طرح کراہ رہا جگیندر اس کے بعد کہتا ہے، وہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے تھے، تو گرفتار کر لیتے۔ مجھے ماراکیوں؟ آگ کیوں لگا دی؟ جب اس سے پوچھا گیا کہ کون کون اس میں شامل تھا، تو اس نے کہا، شری پرکاش رائے اور اس کے ساتھ پانچ چھ پولیس والے تھے۔ اس کے علاوہ ایک شخص غفران بھی تھا۔
صحافی جگندر یکم جون کو بری طرح جھلسی ہوئی حالت میں ملا تھا اور آٹھ جون کو اس کی موت ہو گئی تھی۔ اس نے ریاستی وزیر برائے بہبود پسماندہ طبقات رام مورتی سنگھ ورما کے اشارے پر کوتوال شری پرکاش رائے پر پٹرول چھڑک کر جلانے کا الزام لگایا تھا۔ اس معاملے میں ۹ جون کو ریاستی وزیر اورکوتوال سمیت چھ نامزد اور چار نامعلوم افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔یوپی کی اکھلیش حکومت پر اس معاملے میں اپنے وزیر پر کارروائی کرنے کو لے کر بھاری دباؤ ہے۔
حق گوئی کی سزا
جگیندر سنگھ نے اخبارات میں لکھا تھا کہ سماج وادی پارٹی ایم ایل اے اور یوپی کے پسماندہ طبقے کی فلاح و بہبود کے وزیر رام مورتی ورما اپنے گرگو ں کی مدد سے زمین پر قبضہ سے لے کر غیر قانونی کان کنی تک غیر قانونی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔اس نے فیس بک پر بھی
مورتی کے خلاف ایک پوسٹ ڈالی تھی۔ الزام ہے کہ اس سے ناراض ممبراسمبلی نے اسے فرضی معاملات میں پھنسانے کی کوشش بھی کی تھی۔ جگیندر کے خلاف لوٹ، اغوا اور قتل کی کوشش کا معاملہ درج کروایا گیا تھا۔عینی شاہدین اور رشتہ داروں کا دعوی ہے کہ جگیندر سنگھ کی موت کے لئے پولیس ذمہ دار ہے، کیونکہ اسی نے اسے زندہ جلانے کی کوشش کی تھی۔ان الزامات پر پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ایک کیس کے سلسلے میں جگیندر کے گھر گئی تھی، مگر اس نے خودکشی کی کوشش کی۔ شاہ جہاں پور کے ایس پی کا کہنا ہے، جگیندر سنگھ کو ایک معاملے میں گرفتار کیا جانا تھا۔ ہم اسے گرفتار کرنے گئے تھے، مگر اس نے خود کو آگ لگا لی۔بری طرح سے جلی حالت میں جگیندر کو شاہ جہاں پور ہسپتال لے جایا گیا تھا، مگر حالت سنگین ہونے کی وجہ سے لکھنؤ ریفر کر دیا گیا۔ یہاں بھی اس کی حالت نہیں سدھری اور آکار اس نے دم توڑ دیا۔
پولس کارروائی یاسچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش؟
شاہ جہاں پور کے سوشل میڈیا جرنلسٹ جگیندر سنگھ کے قتل میں پسماندہ طبقے کی فلاح و بہبود کے وزیر رام مورتی ورما اور ایس ایچ او رائے سمیت دس افراد کے خلاف تھانے میں مقدمہ درج ہوا ہے۔ ان پر قتل کے علاوہ مارپیٹ، جان سے مارنے کی دھمکی اور قتل کی سازش رچنے کا بھی الزام ہے۔مقتول صحافی کے گھر والوں کا الزام ہے کہ اس کے پاس وزیر کے خلاف ثبوت تھے، اس لئے انہوں نے پولیس کی مدد سے ان کا قتل کروا دیا۔آئی جی قانون اور نظام اے ستیش گنیش نے بتایا کہ جوگیندر سنگھ کے بیٹے راجندر سنگھ کی تحریر پر وزیر مملکت رام مورتی ورما، انسپکٹر رائے وغیرہ کے خلاف 302، 504، 506 اور 120 بی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ڈی ایم شاہ جہاں پور اور ڈی آئی جی بریلی کو واضح ہدایات دئے گئے ہیں کہ معاملے کی جانچ جلد سے جلد مکمل کر منصفانہ کارروائی کی جائے ۔ آئی جی نے بتایا کہ جگیندر سنگھ کے موت سے پہلے دیے گئے بیان کو جائزہ میں شامل کیا جائے گا۔
فورنسک ٹیم کی جانچ
شاہ جہاں پور گئی فورنسک ٹیم جگیندر کی موت کا سچ جاننے کے لئے ڈی این اے جانچ کا سہارا لے گی۔ اس کے لئے ٹیم نے جگیندر کے کمرے سے کئی اشیاء کے نمونے لئے ہیں۔ان کی تحقیقات کرائی جائے گی۔ ٹیم نے قتل، خودکشی اور حادثے تینوں پوائنٹس پر جانچ پڑتال شروع کردی ہے۔ ادھر، جگیندر کے قتل کی تحقیقات کرنے والے افسروں نے جگیندر کی بیوی، باپ اور بیٹا سمیت چار افراد کے بیان درج کئے ہیں۔فورنسک ٹیم نے جوگیندر کے کمرے کی تمام چیزوں کا جائزہ لیاہے۔ الٹرا بنفشی لیمپ، سرچ لائٹ، لیزر رے کے ساتھ جائے حادثہ پر موجود سامان کی جانچ کی گئی۔ ٹیم نے کمرے میں پڑے توشک، تکیا، دو جوتے، ایک نصف جلا ہواکپڑا اور کچھ دیگر سامان کے نمونے لئے ہیں۔ توشک کے قریب پڑی ایک پرانی چارپائی سے بھی ٹیم نے پلاسٹک نما چیز کے نمونے اکٹھے کیے ہیں۔ ٹیم کے دلائل ہیں کہ جگیندر کو جو آگ لگی وہ نیچے سے اوپر کی طرف گئی ہے۔ عموما کسی کو آگ لگائی جاتی ہے تو اس کی لپک اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے۔ جگیندر کا چہرہ زیادہ نہیں جلا ہے۔ ٹیم کو پولیس نے بتایا کہ واردات کے دوران ایک خاتون جگیندر کے ساتھ موجود تھی۔ وہ آگ کی زد میں نہیں آئی۔ اس عورت نے کہا ہے کہ پولیس اور وزیر کے گرگے اسے زبردستی جگیندر کے گھر لے کر گئے تھے۔فورنسک ٹیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ آگ سے زیادہ گردے فیل ہونے کے سبب اس کی موت ہوئی ہے۔اب سوال یہ بھی اٹھ رہاہے کہ کیا فورنسک ٹیم بھی سرکاری دباؤ میں کام کررہی ہے اور
وہ حقائق کی پردہ دری کے بجائے ،پردہ پوشی کر رہی ہے۔
پولس پر لاپروائی کا الزام
پولس لاکھ خود کو غیرجانبدار بتانے کی کوشش کرے مگر جگیندر کے گھر والے پولس پر لاپرواہی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس تین گھنٹے تک لاپروائی کرتی رہی۔ جب معاملے نے طول پکڑنا شروع کیا تب جاکر ایف آئی آر درج کی۔جگیندر کے والد سمیر سنگھ نے کہا ہے کہ اگر ان کے بیٹے کے قاتلوں کو سزا نہیں ملی اور انہیں انصاف نہیں ملا تو وہ خودکشی کر لیں گے۔جگیندر کے بیٹے نے مقامی تھانے میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں الزام لگایا ہے کہ ایک عورت کے ساتھ ہوئے زنا کے معاملے میں اس کے والد نے وزیر کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ وہ کیس میں گواہ بھی تھے۔ اسی وجہ سے ان کا قتل کروا یا گیا۔ اس کے گھر والوں کا بھی کہنا ہے کہ اس کے پاس وزیر کی کارگزاریوں کے اہم ثبوت تھے۔اس سلسلے میں جگیندر نے اپنے بلاگ میں لکھا بھی تھا۔ ورما پر اس سے پہلے شاہ جہاں پور میں وقف منیجنگ کمیٹی کے سکریٹری نے زمین ہڑپنے کا الزام لگایا تھا۔ اس سلسلے میں وزیر اعلی کو بھی معلومات دی گئی تھی اور وزیر مملکت کو عہدے سے ہٹانے کی مانگ کی گئی تھی۔
جگیندر کے گھر والوں کی بات سے آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکربھی متفق نظر آتے ہیں۔ انھوں نے جگیندر سنگھ کی موت کے بعد درج کئے گئے ایف آئی آر کو دیر سے اٹھایا گیا قدم بتایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جوگیندر کی موت کے پہلے انہوں نے بھی اس کا بیان ریکارڈ کیا تھا۔ بیان میں جوگیندر اپنی حالت کے لئے وزیر مملکت ورما کی طرف سے جمور میں ایک لاکھ مربع گز زمین قبضہ کرنے کی بات کہی تھی۔
بہرحال اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ایسالگتا ہے کہ اکھلیش سرکار ایک مظلوم شہری کا ساتھ دینے کے بجائے ظالم وزیر کا ساتھ دے رہی ہے۔ اب تک بہت سے ثبوتوں کو مٹایا جاچکا ہے اور ریاستی وزیر کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اسی لئے ایک طبقہ چاہتا ہے کہ معاملے کی سی بی آئی انکوائری ہو۔ ریاستی حکومت انصاف کے تقاضوں کو پوری کرتی نہیں دکھائی دیتی۔ٹھیک ایساہی معاملہ مدھیہ پردیش کی شیو راج سرکار کی طرف سے بھی دیکھنے کا مل رہا ہے جو سندیپ کی موت کے سلسلے میں مجرموں کی پشت پناہی کر رہی ہے اور انھیں بچانے میں لگی ہوئی ہے کیونکہ وہ نیتاؤں کے قریبی لوگ ہیں اور سچائی سامنے آئی تو بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آجائیں گے۔
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
جواب دیں