اس کا بچپن اور جوانی امریکی ریاست ایریزونا میں بسر ہوئی۔یہ ریاست بے آب و گیاہ پہاڑوں ریگستانوں اور تھوڑے سے باغات کی وجہ سے بالکل ایسے لگتی ہے جیسے بلوچستان ہے۔اگران وادیوں کے درمیان ایک شاندار موٹر وے نہ گزر رہی ہو اور جگہ جگہ خوبصورت ہوٹل اور پٹرول پمپ نہ ہوں تو ایسے لگے جیسے سوراب سے پنجگور جا رہے ہیں یا پھر کاکڑ خراسان سے لورالائی جا رہے ہیں۔میسا چوسٹس یونیورسٹی سے اس نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کیاور ایک عام امریکی کی طرح زندگی گزارنے لگا۔چونکہ ایک ایسی ریاست سے اس کا تعلق تھا جہاں پانی کی کمی کا مسئلہ تھا،اس لئے اس نے اپنے علم کو پانی کی تلاش اور ترسیل کیلئے مخصوص کر لیا۔اکثر پڑھے لکھے امریکیوں کی طرح اسے بھی عالمی اداروں اور بڑی بڑی عالمی کمپنیوں میں ملازمت ملنا مشکل نہیں تھی۔اسے بھی ایک ایسی ہی ایک انٹر نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی جس کی وجہ سے اسے افریقہ کے ایسے ممالک میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں قحط ،خشک سالی ،غربت اور محکومیت ہر جگہ نظر آتی تھی۔یہاں اس امریکی کے سامنے اس کے اپنے ملک اوراپنے ہم مذہب لوگوں کا دہرا معیار پہلی دفعہ نظر آیا۔ صومالیہ میں اس کی پوسٹنگ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔اس نے قحط زدہ لوگوں کی امداد کے نام پرآئے ہوئے امریکیوں کوایک خاص تعصب کے ساتھ مسلمانوں پر گولیاں برساتے دیکھا۔ اس نے سوڈان میں کیمیائی ہتھیار تباہ کرنے کے نام پر وہاں کی سب سے بڑی دوائیوں کی فیکٹری تباہ ہوتے دیکھی جس کے بعد وہاں کے مسلمان عام اسپرین کی گولی کیلئے بھی ترسنے لگے۔
میری اس سے پہلی ملاقات جنوری۱۹۹۹ء میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک(Asian Development Bank) کے ہیڈ کوارٹر منیلا میں ہوئی۔وہ مسلمان ہو چکا تھا۔ہزاروں کمروں کی اس عمارت میں اس کے کمرے کے باہر بسم اللہ الرحمن الرحیم کی خوبصورت گولڈن تختی لگی ہوئی تھی۔یوں تو منیلا کے شہر میں ہزاروں مسلمان رہتے ہیں اور ایشین بینک میں کئی سو مسلمان کام بھی کرتے ہیں جن میں پاکستانی بھی ہیں لیکن جس کمرے کے دروازے سے اس بات کا اظہار ہو کہ وہ مسلمان ہے ، وہ جوزف کا کمرہ تھا جو اب اپنے آپ کو یوسف کہتا تھا۔ ایک گورا امریکی جسے اللہ تعالیٰ نے ہدائت دی تو اس نے صومالیہ کی ایک کالی مسلمان لڑکی سے شادی کر لی۔ہدائت کا نور بھی عجب ہے ،آدمی کے اردگرد اپنا ہالہ بنا لیتا ہے۔منیلا کے مسلمان بھی اس ہالے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔وہ دیکھتے تھے کیا عجیب امریکن ہے،انگریزی بول رہا ہو تو ہمیشہ خدا کے ذکر پر اللہ سبحانہ تعالیٰ پڑھتا ہے(God)کا لفظ قطعاً استعمال نہیں کرتا۔ اور پیارے محمدﷺ کانام آئے تو پورا درود شریف پرھتا ہے۔ وہ تمام الفاظ جو مسلمان کی پہچان ہیں جیسے اسلام علیکم‘بسم اللہ‘سبحان اللہ اور الحمد اللہ‘سب اسی طرح بولتا ہے۔کبھی اس نے Hi Thanks God- Good Luck))نہیں کہا۔اتنے بڑے ادارے میں کام کرتا ہے،ہزاروں تقریبات ہوتی ہیں،کسی کی بات پسند آجائے تو تالی نہیں بجاتا،زور سے اللہ اکبر کہہ دیتا ہے۔
اس کے گھر میں ایک عجیب عالم تھا جو میں نے دیکھا۔حجاب میں ملبوس ایک بیوی اور ایک دس سالہ بیٹی ،میں جس دن اس کے گھر گیا تو یوسف نے بتایا آج کے دن یہ پیدا ہوئی تھی لیکن اس گھر میں کوئی سالگرہ کا سماں نہیں تھا۔میں نے پوچھا تو بچی نے خود کہا میں سالگرہ نہیں مناتی۔میں نے کہا اس میں دوست آتے ہیں،تمہیں تحفے ملتے ہیں۔اس نے بڑی معصومیت سے کہا’’میرے ماں باپ ہی میرے بڑے گہرے اور اچھے دوست ہیں اور میری اچھی باتوں سے خوش ہوکر تحفے دیتے ہیں،پھر اس رسم کی کیا ضرورت ہے۔میں نے تحفے کی تفصیلات پوچھیں تو اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ ’’آپ کو شائد علم نہیں کہ میری والدہ حافظِ قرآن ہیں اورمیں نے بھی اپنی والدہ کی مدد سے پچھلے ہفتے مکمل قرآن کریم حفظ کیا ہے ،بھلا اس سے بڑا تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے‘‘۔یوسف کی بیوی نے کہا’’ہم لوگ یہاں کسی کلب وغیرہ میں نہیں جاتے ،ڈانس نہیں کرتے لیکن ایک دفعہ ہم تینوں بے اختیار خوشی سے ناچ اٹھے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا‘‘۔
لیکن جس بات نے مجھے حیرت اور شرمندگی میں ڈال دیا وہ شائد ہم سب کو بحیثیت مسلمان حیرت میں ڈال دے۔میں اس کے ساتھ ایشین بینک کے ایک کمرے میں جسے نماز پڑھنے کیلئے مخصوص کیا تھا،نماز پڑھنے گیا۔میں قصر کی آدھی نماز پڑھ کر تھوڑی دیرمیں باہر آگیالیکن اسے وہاں سے باہر آنے میں پون گھنٹہ لگ گیا۔میں حیران تھا کہ یہ شخص میرا اتنا بھی خیال نہیں کرتا،مجھے باہر کھڑا کر گیا ۔میں سوچ رہا تھااور کڑھ بھی رہا تھا کہ وہ میرے پاس آیا اور بڑی شرمندگی اور انتہائی عاجزی سے کہنے لگا کہ’’اصل میں تم لوگوں نے بچپن سے اللہ تعالیٰ کا ذکر سنا ہوتا ہے ،مسلمان گھر میں پیدا ہوتے ہو،اس لئے تم نماز پرھتے ہو اللہ تعالیٰ کا تصور ذہن میں لانے میں کتنی آسانی ہوتی ہے ،مجھے تو آدھ گھنٹہ لگ جاتا ہے، اپنے ذہن کو یکسو کرکے اس کیفیت لانے میں کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہوں۔آپ مہربانی کرکے کوئی ایسا طریقہ بتاؤ کہ میں جلدی سے اللہ تعالیٰ کے تصور میں اپنے آپ کو یکسوکر سکوں۔‘‘میری آنکھوں سے یک دم آنسو چھلک پڑے ،شرم سے میرا سر جھک گیا۔میرے دامن میں ایمان کی کمتری کے سوا کچھ نہ تھا۔
میں شرمندہ کیوں نہ ہوتا ،ہم تو ربّ کریم کے سامنے جاتے ہوئے اتنا بھی خوف نہیں کھاتے جتنا ایک پٹواری یا تھانیدار کے سامنے جاتے ہوئے کھاتے ہیں۔ہم انگلش میڈیم میں چار جماعت پڑھ لیں تو ہمیں اتنی دیر تک سکون نہیں ملتا جب تک تھوڑا منہ ٹیڑھا کرکے(Wish you Good Luck
جواب دیں